مزید خبریں

رسائل و مسائل

خطبہ و نمازِ جمعہ
سوال: میرے گھر سے کچھ فاصلہ پر ایک بڑی مسجد ہے، جس میں خطبۂ جمعہ کا کچھ حصہ اردو زبان میں دیا جاتا ہے۔ میں پابندی سے اس میں نماز پڑھنے جاتا ہوں، اس لیے کہ خطبے میں کچھ دین کی باتیں سننے کومل جاتی ہیں۔ ایک مرتبہ ایک صاحب نے خطبہ دیا، لیکن نماز دوسرے صاحب نے پڑھائی۔ مجھے عجیب لگا۔ کیا یہ بات درست ہے کہ جمعے کا خطبہ اور نماز الگ الگ افراد پڑھا سکتے ہیں؟ اس میں کوئی کراہت نہیں ہے؟
جواب: مستحب یہ ہے کہ ایک ہی شخص جمعے کا خطبہ بھی دے اور نماز بھی پڑھائے۔ لیکن اگر کسی وجہ سے ایک شخص خطبہ دے اور دوسرا شخص نماز پڑھائے تو یہ جائز ہے۔ یہ ائمہ ثلاثہ (امام ابوحنیفہ، امام شافعی اور امام احمدؒ) کا مسلک ہے۔ مالکیہ کے نزدیک خطیب لازماً وہی شخص ہونا چاہیے جو نماز پڑھائے، اگر خطیب کے سوا کسی اور نے نماز پڑھائی تو وہ باطل ہوگی۔ یہ حکم عام حالات میں ہے۔ کوئی عذر ہو، مثلاً امام بیمار ہو، یا وہ خطبہ دینے پر قادر نہ ہو، یا اچھی طرح خطبہ نہ دے سکتا ہو، تو ان کے یہاں بھی گنجائش ہے کہ کوئی دوسرا شخص خطبہ دے دے۔
جو حضرات اس کے قائل ہیں کہ ایک شخص کا نماز پڑھانا اور دوسرے کا خطبہ دینا جائز ہے وہ یہ شرط عائد کرتے ہیں کہ نماز وہی شخص پڑھا سکتا ہے جو خطبہ کے دوران موجو رہا ہو۔
٭…٭…٭
نکاح کے فوراً بعد ولیمہ
سوال: کیا نکاح ہی کے دن ولیمہ کیا جاسکتا ہے؟ نکاح کے موقع پر بہت سے رشتے دارجمع ہوتے ہیں۔ اس مناسبت سے لڑکی والے دعوت کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کو مصارف سے بچانے کی ایک ترکیب یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اسی دن لڑکے کی طرف سے ولیمہ کردیا جائے۔ اس موضوع پر میں نے گفتگو کی تو بہت سے لوگوں نے منع کیا کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ ولیمہ رخصتی اور شب عروسی کے بعد ہونا چاہیے۔
برائیِ کرم شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
جواب: ولیمہ مسنون ہے۔ رسولؐ نے جو نکاح کیے سب میں ولیمہ کیا اور صحابہ کرامؓ کو بھی ولیمے کا حکم دیا۔ حدیث میں ہے کہ جب آپؐ کو علم ہوا کہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے نکاح کرلیا ہے تو آپؐ نے انہیں ولیمہ کرنے کی تاکید کی۔ (بخاری، مسلم) آپؐ نے نکاح کا اعلان کرنے کا حکم دیا ہے۔ (احمد) ولیمے کے ذریعے یہ مقصد بھی حاصل ہوجاتا ہے۔
عُرف یہ ہے کہ ولیمہ شبِ زفاف کے بعد ہو۔ عہدِ نبوی میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔ بعد میں مختلف علاقوں میں بھی اسی کو رواج ملا۔ ولیمہ اصلاً خوشی کا اظہار ہے اور خوشی کی تکمیل شبِ زفاف سے ہوتی ہے۔ اس لیے عام حالات میں ولیمہ شبِ زفاف کے بعد ہی کرنا چاہیے، لیکن یہ ضروری نہیں ہے۔ بلکہ اگر ضرورت ہو تو نکاح ہی کے دن کیا جاسکتا ہے۔ فقہاء سے اس سلسلے میں مختلف اقوال مروی ہیں:
احناف اور مالکیہ کے نزدیک ولیمہ شبِ زفاف کے بعد ہونا چاہیے۔ علامہ ابن تیمیہؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ شوافع کہتے ہیں کہ ولیمے کا وقت نکاح کے بعد سے شروع ہوجاتا ہے، البتہ بہتر ہے کہ شبِ زفاف کے بعد کیا جائے۔ حنابلہ کی رائے ہے اور ایک قول احناف اور مالکیہ کا بھی یہی ہے کہ ولیمہ نکاح کے فوراً بعد کیا جاسکتا ہے۔ (الموسوعۃ الفقہیہ، کویت)