مزید خبریں

جہاد‘ اصول و آداب

شرائط اور حدود کی رعایت کے ساتھ اسلام نے حق کی حمایت اور باطل کی شکست کی خاطر جنگ، اسلامی ریاست کے لیے، جائز قرار دی ہے، یہ جنگ سلطنت وحکومت کی ہوس پوری کرنے کے لیے نہیں کی جاتی تھی، اسلام نے دین کی جبری اشاعت کی بھی ممانعت کی تھی، اور صاف کہہ دیا تھا کہ: دین کے معاملے میں کوئی زبر دستی نہیں ہے، (البقرہ) دوسری جگہ قرآن میں ہے: ہمارے نبی پر یہی فرض ہے کہ وہ صاف صاف پیغام پہنچا دیں، (المائدہ) لیکن ہوا یہ کہ پیغمبرؐ کو طرح طرح کی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا، پر امن تبلیغ کی بھی اجازت نہیں دی گئی، مدینہ ہجرت کرنے کے بعد بھی باطل کی قوتیں باربار آپ پر اور آپ کی اتباع کرنے والوں پر حملہ آور ہوئیں، ایسی صورت میں اگر آپ مقابلہ نہ کرتے اور تلوار نہ اٹھاتے تو دنیا کے لیے ایسی مثال پیش کرتے جس پر عمل کرنا ممکن نہ ہوتا، اس لیے اسلام نے ایک بلند مقصد کے لیے آخری تدبیر کے طور پر تلوار اٹھانے کی اجازت دی، پھر باطل طاقتوں نے مسلسل سازش اور لڑائی کا وطیرہ اختیار کیا، مگر اللہ تعالیٰ نے اہل حق کو فتح یاب کیا، اور دنیا کے بہت سارے علاقے اسلام کے زیر نگیں آگئے، ان فتوحات کی روداد اسلامی تاریخ کا حیرت انگیز باب ہے۔
نظم وضبط:
جہاد میں سب سے زیادہ ضروری چیز نظم و ضبط ہے، انسان اگر غور کرے تو محسوس کر لے گا کہ اسلامی عبادات میں یہ نظم و ضبط پورے طور پر ہے، نماز میں ڈسپلن اور تربیت کی شان موجود ہے، وقت کی پابندی، فرض شناسی، چستی اور محنت، صفوں کی ترتیب اور درستی اور ایک امام کی اطاعت یہ وہ ساری باتیں ہیں جن میں فوجی ڈسپلین موجود ہے، اور پھر جس طرح سے فوجی کیمپ لگتے ہیں اسی طرح سے جمعہ، عید اور حج کے موقع پر مسلمان ڈسپلین اور نظم وضبط کے ساتھ جمع ہوتے ہیں، اور جس طرح سے ایک فوجی تکلیف برداشت کرنے کی مشق کرتا ہے اسی طرح سے روزے میں بھی ایک مسلمان بھوک پیاس کی مشق کرتا ہے، گویا ایک مسلمان کی زندگی شروع سے آخر تک جدوجہد کی تربیت ہے، جہاد کا مقصد دلوں پراللہ تعالیٰ کی حکومت قائم کرنا ہے، اور دنیا سے ظلم اور زیادتی کو مٹانا ہے، اور عدل وانصاف کو پھیلانا ہے، نبی اکرمؐ نے اور صحابہ کرامؓ نے تاریخ میں ایسے نمونے چھوڑے ہیں جن پر اگر دنیا عمل کرے تو ہمیشہ امن وامان قائم رہے، جہاد کا مقصد خونریزی کا انسداد اور امن وامان کا قیام اور دین کے قبول کرنے کے معاملے میں جبر کو ختم کرنا ہے۔
آپؐ کی تربیت سے ایسے بہادر، دلیر، جانباز سپہ سالار پیدا ہوئے جن کے کارنامے دنیا کی تاریخ میں مشعل ہدایت کا کام دیتے ہیں، یہ مجاہدین کوئی ظالم وجابر فاتح نہ تھے، بلکہ انسانیت کے خادم تھے، اور بندگان خدا کے لیے خیر خواہ اور ہمدرد تھے، ان کے ہاتھوں سے ضرور کچھ شرپسندمارے گئے لیکن اس کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کے لوگ امن وامان کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں، زمین جور وستم سے پاک ہو اور اپنی مرضی سے جو دین اسلام قبول کرے اس پر ظلم نہ ہو۔ اسلام نے، آداب و شرائط کے ساتھ جنگ کی اجازت ضرور دی ہے لیکن صرف ان لوگوں سے جو مسلمانوں سے برسر جنگ ہوں یا آمادۂ جنگ ہوں اور اشاعت دین میں مزاحم ہوں اور دین اسلام قبول کرنے والوں پر اور اپنی رعایا پر ظلم روا رکھتے ہوں حالت جنگ میں بھی کوئی صلح کی پیشکش کرے تو اسے قبول کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جنگ کے اسلام نے وہ اخلاقی قوانین طے کردیے ہیں جو اس وقت پوری دنیا میں کہیں نہیں پائے جاتے تھے اور اب بین الاقوامی قانون جنگ میں اس کا عکس پایا جاتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا ہے۔
اصول و آداب:
سیدنا ابوبکرصدیقؓ نے یزید بن ابی سفیان کو شام کے علاقے کی ایک مہم پر روانہ فرمایا تو یہ نصیحتیں کیں: کچھ لوگ اپنی عبادتوں میں مشغول ہوں گے ان سے تعرض نہ کرنا، عورتوں کو، بچوں کو اور بوڑھوں کو قتل نہ کرنا، کسی پھل دار درخت کو نہیںکاٹنا، کسی آبادی کو نقصان نہیںپہنچانا (صرف فوج سے لڑنا) اگر تمہاری فوج کو غذا کی کمی پیش آجائے اور مجبوری نہ ہو تو کسی کی بکری اور اونٹ کو ذبح نہ کرنا، کسی باغ کو آگ نہ لگانا، کسی حال میں بدعہدی نہ کرنا اور کسی لاش کا مُثلہ نہ کرنا۔
تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے مفتوح ممالک میں غیر مسلموں کے ساتھ بیہمانہ سلوک نہیں کیا جیسا کہ عیسائیوں نے اندلس میں مسلمانوں کے ساتھ کیا، مسلمانوں نے سب کو مذہبی آزادی دی، نہ کسی کے رسم ورواج میں رکاوٹ ڈالی نہ کسی کا پرسنل لاء ختم کیا، یہی وجہ ہے کہ بہت سے مفتوح ملکوں میں آج بھی اکثریت غیر مسلموں کی ہے جیسے ہندوستان میں، یہ اسلام اور مسلمانوں کی رواداری کا بہت بڑا ثبوت ہے، مسلمانوں کا میدان جنگ میں قدم رکھنا شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا تھا اور اپنی جان ومال اوراپنے گھر اور عیش وآرام کواللہ کی راہ میں قربان کرنا تھا اور یہ اللہ کی خوشنودی کے لیے تھا اور اسلام کے خلاف جبر وقہر کو روکنے کے لیے تھا، جب وہ میدان جہاد کے لیے نکلتے تھے تو وہ زبان حال سے کہتے تھے ؎
جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
کامیابی کی شرائط:
اسلامی تاریخ میں بار بار ایسے واقعات پیش آئے ہیں کہ مجاہدین کی ایک چھوٹی سی جماعت نے کئی گنا لشکر پر فتح حاصل کی ہے، دس ہزار مسلمانوں کے لشکر نے ایک لاکھ کی فوج کو شکست دی ہے۔ آج دنیا میں مسلمان مظلوم ہیں۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کو زدو کوب کیا اور ان کو ان کے وطن سے نکال دیا، برما میں بدھسٹوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا، کسی علاقے میں مسلمان اکثریت میں ہیں تب بھی مظلومیت کا شکار ہیں۔ یہ سوال اہم ہے کہ مسلمانوں پر نصرت الٰہی کا نزول کیوں نہیں ہورہا، ان سوالات کے جواب اہل فکر ونظر کو دینے ہیں اور موجودہ صورتحال کے اسباب کی نشان دہی کرنی ہے۔
راقم سطور کے نزدیک کچھ خصوصیات ہیں جن کا پایا جانا ضروری ہے یہ خصوصیات اگر امت مسلمہ میں نہیں پائی جائیں گی تو اللہ کی مدد نازل نہیں ہوگی۔ اگر یہ خصوصیات نہیں پائی جائیں گی تو جس کے پاس عددی طاقت زیادہ ہوگی اور جس کے پاس اسلحے زیادہ اور ترقی یافتہ ہوں گے کامیابی اس کے لیے مقدر ہوگی۔ اللہ کی مدد نازل ہو اس کے لیے ذیل کی صفات کا ہونا ضروری ہے:
1۔مقصد غلبہ اسلام اور اعلائے کلمۃ الحق ہو
2۔اسلام کی راہ میں شہادت کا شوق غالب ہو
3۔توجہ الی اللہ ہو اور احکام الٰہی پر عمل ہو
4۔وہ تمام ضروری تدابیر اختیار کی جائیں جو اسباب کی دنیا میں اختیار کی جاتی ہیں-