مزید خبریں

اسلامی نظام معاش کے خدوخال

معاشیات کو عربی میں اقتصاد اور انگریزی میں ECONOMICS کہا جاتا ہے، اور یہ لفظ دو یونانی الفاظ سے مرکب ہے، عام فہم انداز میں کہہ سکتے ہیں کہ کم وسائل کے باوجود کفایت شعاری سے خرچ چلانا تاکہ ضروریات پوری ہو سکیں۔
اسلا م کا نقطۂ نظر
معاش کا مسئلہ عصر حاضر میں انسان کے اہم ترین مسائل میں سے ہے۔ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے، یہ کسی نہ کسی شکل میں ابتدا سے انسان کے ساتھ وابستہ رہا ہے۔ ا سلام نے اس کا حل پیش کیا۔ اسلام ایک مکمل نظام حیات اور کامل دین کا نام ہے، اس لیے یہ انسان کے ہر پہلو سے بحث کرتا ہے۔ اسلام تارک الدنیا لوگوں کے نقطۂ نظر کی صاف تردید کرتا ہے، اسلام دولت مندی کو جو حلال ذرائع سے حاصل ہوئی ہو، اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت قرار دیتا ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا واجب ہے، اور فقرو فاقہ کو ایک ایسی مصیبت کہتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہیے۔
علامہ یوسف قرضاوی اپنی کتاب ’مشکلۃ الفقر وکیف عالجھا الاسلام‘ میں لکھتے ہیں:
’’فقر و فاقہ اخلاق و کردار کے لیے بھی کچھ کم خطرناک نہیں، کسی غریب اور تنگ دست کو اس کی بدحالی اور محرومی بعض دینی اور دنیاوی معاملات میں غیر شریفانہ اور اخلاق سے گرا ہوا روّیہ اختیار کرنے پر مجبور کردیتی ہے، اس لیے تو کہتے ہیں کہ معدے کی آواز ضمیر کی آواز سے زیادہ طاقتور ہے‘‘۔ (ص 51)
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حصول معاش کو’’فضل اللہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے، چنانچہ ارشاد باری ہے:
’’جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو، شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہوجائے‘‘۔ (سورۂ جمعہ)
حصول مال کا تصور
اسلام نے زندگی گزارنے کے لیے لوگوں کی ہر اعتبار سے رہنمائی کی ہے، چنانچہ معاشی زندگی میں بھی اسلام رہنمائی کرتا ہے، اسلام لوگوں کو معاشی زندگی گزارنے کے لیے حلال ذرائع سے حصول مال کی ترغیب دیتا ہے، قرآن کریم نے مال و دولت کو قیام للناس (النساء 51، المائدہ 97) کے لفظ سے یاد کیا ہے، یعنی مال انسانوں کے لیے زندگی کا سبب ہے۔
نبی کریمؐ کا ارشاد ہے:
’’اپنے وارث کو مالداری کی حالت میں چھوڑو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم اس کو بے یار مدد گار چھوڑو اور وہ لوگوں کے پاس مانگنے کے لیے اپنا ہاتھ پھیلاتا پھرے، بے شک تم جتنا بھی خرچ کرو وہ تمہارے لیے صدقہ ہے حتی کہ وہ لقمہ جو تم اپنے بیوی کے منہ میں رکھتے ہو وہ بھی تمہارے لیے صدقہ ہے‘‘۔ (بخاری)
اصول کسب معاش
ہمیں قرآن کے اندر دو قسم کے اصول ملتے ہیں:
1۔اصول کسب معاش
2۔اصول انفاق مال
اصول کسب معاش یہ ہے کہ پاکیزہ اشیاء کو پاکیزہ طریقے سے حاصل کیا جائے، اسلام حصول مال کے لیے ناجائز اسباب پر قدغن لگاتا ہے، ارشاد باری ہے:
’’اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طور پر نہ کھاؤ، ہاںالبتہ کوئی تجارت باہمی رضامندی سے ہو‘‘۔ (سورہ نساء) اسلام انفاق مال کے اصول کی جانب بھی رہنمائی کرتا ہے، انفاق مال کے سلسلے میں بنیادی اصول یہ ہے کہ بقدر استطاعت ضرورت کے مطابق خرچ کیا جائے اور اسراف وتبذیر سے اجتناب کیا جائے، قرآن کریم میں ہے:
’وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ ہی بخل، بلکہ ان کا خرچ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ہوتا ہے‘۔ (سورہ فرقان)
اسراف: اسراف تین چیزوں کا نام ہے۔
1۔ناجائز کاموں میں دولت صرف کرنا خواہ وہ ایک پیسہ کیوں نہ ہو۔
2۔جائز کاموں میں خرچ کرتے ہوئے حد سے تجاوز کر جانا۔
3۔نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا مگر اللہ کے لیے نہیں بلکہ ریا اور نمائش کے لیے۔
اس کے برعکس، بخل کا اطلاق دو چیزوں پر ہوتا ہے، ایک یہ کہ آدمی اپنی اور اپنے بال بچوں کی ضروریات پر اپنی مقدار اور حیثیت کے مطابق خرچ نہ کرے، دوسرا یہ کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں اس کے ہاتھ سے پیسہ نہ نکلے، ان دو انتہاؤںکے درمیان اعتدال کی راہ اسلام کی راہ ہے جس کے متعلق نبیؐ فرماتے ہیں کہ اپنی معیشت میں توسط اختیار کرنا آدمی کے فقیہ یعنی دانا ہونے کے علامتوں میں سے ہے (احمد وطبرانی بروایت ابی الدرداء، تفہیم القرآن، جلد 3)
حصول معاش کے ذرائع
قرآن واحادیث میں حلال و حرام کی تفصیلات موجود ہیں۔ حلال اشیاء کی خرید وفروخت حلال ہے، اور حرام اشیاء کی خرید وفروخت حرام ہے، کچھ متشبہ اشیاء ہیں جس کے حلال وحرام ہونے میں شک وشبہ ہے، ہمیں ان سے احترازکرنا چاہیے۔ ارشاد نبوی ہے:
حلال وحرام دونوں چیزیں بالکل واضح ہیں، جو ان کے درمیان ہیں وہ متشابہات ہیں، جو شخص ان سے بچے، اس نے اپنی دین اور مال و عزت کو محفوظ اور صحیح وسالم رکھا، اور جو اس میں پر گیا اب یہ بعید نہیں کہ وہ حرام میں ملوث ہوجائے، اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی جانور کو حمی یعنی چراہ گاہ کے قریب چرائے، تو یہ بعید نہیںکہ حمی میں جانور داخل ہوجائے، لہٰذا یہ بات یاد رکھو کہ ہر بادشاہ کا اپنا حمی ہوتا ہے اور سن لو اللہ کا حمی اس کی حرام کردہ اشیاء ہیں۔
شیخ الحدیث محمد زکریا کاندہلویؒ نے اپنی کتاب فضائل تجارت میں بیان کیا ہے:
’’ہمارے نزدیک کسب معاش میں سب سے اہم اور افضل ذرائع تین ہیں: تجارت، زراعت اور اجارہ، اگر اجارہ دینی کاموں یعنی تعلیم وتربیت اور درس و تدریس وغیرہ کے لیے ہو تو وہ تجارت سے افضل ہے بشرط کہ وہی دین کا کام مقصود ہو اور تنخواہ بدرجہ مجبوری ہو‘‘۔ ( فضائل تجارت)
تجارت
اسلام نے حصول معاش کا ایک اہم ذریعہ تجارت کو قراردیا ہے:
امانت دار اور نیک تاجر کے متعلق اللہ کے رسولؐ ارشاد فرماتے ہیں:
سچا، امانت دار تاجر قیامت میںنبیوں، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔ (ترمذی)
حلال طریقے سے طلب رزق نیکی کا کام ہے، محسن انسانیتؐ تجارت سے وابستہ تھے، جب آپ سن رشد کو پہنچے تو آ پ کو فکر معاش کی طرف توجہ ہوئی تجارت سے بہتر کوئی پیشہ نظر نہیں آیا۔ آپ نے تجارت کی غرض سے متعدد ممالک یمن، شام اور بحرین کا سفر کیا۔
زراعت وکاشت کاری
اسلام نے حصول معاش کا دوسرا ذریعہ زراعت کو بتایا ہے۔ زراعت کی فضیلت کے متعلق اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’کوئی بھی مسلم شخص کسی طرح کا درخت یا کھیتی لگاتا ہے اور اس سے کوئی پرندہ یا انسان یا جانور کھاتا ہے تو یہ اس کے لیے صدقے کا باعث ہے‘‘۔ ضرورت کے اعتبار سے بھی زراعت بڑی اہمیت رکھتی ہے، کیوںکہ اقتصاد اور معیشت میں زراعت کا بڑا دخل ہوتا ہے، زراعت کو صحابہ اور صحابیات نے اپنا پیشہ بنایا ہے، اور اس کا ثبوت حدیث کے اندر ملتا ہے۔ مدینہ میںعموما انصار کی عورتیں کا شکاری کرتی تھیں مہاجر عورتوں میں سیدہ اسماءؓ کا بھی یہی مشغلہ تھا۔ (سیرالصحابہ ج 8)
اجارہ
اسلام نے حصول معاش کا تیسرا ذریعہ اجرت یعنی اجارہ داری بتایا ہے۔ رسولؐ نے امانت دار مزدور کی فضیلت بتائی۔ آپؐ نے اجرت کے متعلق فرمایا:
’’اللہ نے کوئی نبی نہیں مبعوث کیا مگر انہوں نے بکریاں چرائیں۔ تو صحابہؓ نے عرض کیا: آپ نے بھی؟ تو آپ نے فرمایا: ہاں میں مکے کے لوگوں کی بکریاں چراتا تھا‘‘۔ (بخاری)
اجارہ بھی اسلام میں ایک اہم ذریعۂ معاش ہے، اور انبیاء نے اس کو اختیار کیا ہے، رسولؐ کو سیدہ خدیجہؓ نے تجارت کی غرض سے بصریٰ بھیجا تھا، اور کہا کہ میں آپ کو دوگنا معاوضہ دونگی۔ آپؐ نے ان کے اس معاہدے کو قبول فرمایا، اور پھر ان کے مال تجارت کو لے کر بصرہ تشریف لے گئے۔ اس کے علاوہ احادیث وسیرت میں اس موضوع پر بہت ساری روایات وارد ہیں۔
زکوٰۃ:
اسلام مال ودولت پر زکوٰۃ واجب کرتا ہے۔ جو مال تم حاصل کرتے ہو اس میں صرف تمہارا ہی حق نہیں ہے، بلکہ اس میں غریب ومسکین کا بھی حق ہے، چناچہ ارشاد باری ہے: ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے۔ کہ اگر غرباء ومساکین تم سے مالی مدد طلب کریں تو تمہاری پیشانی پر بل نہیں آنا چاہیے کیوں کہ وہ اپنا حق طلب کررہے ہیں، یہی وجہ کہ زکوٰۃ کی تعلیم وترغیب تمام انبیاء نے دی۔
سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے متعلق ارشاد ہے:
’وہ اپنے لوگوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اللہ کے نزدیک برگزیدہ تھے‘۔ (سورۂ مریم)
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا قول نقل کیا گیا:
’اللہ تعالی نے مجھے برکت دی‘ جہاں بھی میں ہوں اور مجھے ہدایت فرمائی کہ نماز پڑھوں اور زکوۃ دیتا رہوں جب تک زندہ رہوں‘۔ (سورہ مریم)
زکوٰۃ کے متعلق ارشاد باری ہے: ’’دردناک سزا کی خوشخبری دو ان کو‘ جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی، اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوںکو داغا جائے گا، یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو‘‘۔ (سورہ توبہ)
انفاق فی سبیل اللہ:
اللہ تعالیٰ نے رضائے الٰہی کے حصول کے لیے مال خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ نے متقین اور نیک لوگوں کی وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’وہ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں‘ نمازقائم کرتے ہیں‘ جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے، اس میںسے خرچ کرتے ہیں‘‘۔ (البقرہ)
بخاری شریف کی مشہور حدیث ہے کہ: ’’اے ابن آدم! تو خرچ کر میں تم پر خرچ کروں گا‘‘۔
رسولؐ نے فرمایا: بیوہ اور مسکین کی مدد کرنے والے کی مثال مجاہد فی سبیل اللہ یا تہجدگزار اور روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔ (بخاری)
بیت المال کا قیام:
اسلام نے معاشی نظام کو برقرار رکھنے اور قابو کرنے کے لیے بیت المال کا نظام قائم کیا ہے، اسلام نے ایک طرف سودی کاروبار کو حرام قرار دیا ہے، تو وہیں دوسری طرف بلا سودی قرضے کا مختلف طریقوں سے انتظام بھی کیا ہے۔ دولت مند صحابہؓ مفلس صحابہؓ کو بغیر کسی سودکے ’’قرضہ حسنہ‘‘ دیا کرتے تھے، خود رسول اکرمؐ نے ایک مرتبہ چالیس ہزار کی رقم قرض لی تھی۔ (نسائی)
nn