مزید خبریں

ذرائع ابلاغ کمرشل ہوچکے‘ مالکان اور صحافیوں کے اپنے مفادات ہیں

اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) ذرائع ابلاغ کمرشل ہوچکے‘ مالکان اور صحافیوں کے اپنے مفادات ہیں‘ کاروباری طبقے نے میڈیا ہائوسز کے طور اطوار بدل دیے‘ ہر میڈیا ہائوس اپنے نکتہ نظرکو درست سمجھتا ہے‘ ایوب، بھٹو، ضیا دور میں سنسرشپ رہنے سے نظریاتی صحافت کم ہوگئی‘ متفقہ قومی امنگوں پر موقف کہیں گم ہوگیا‘ معاشرہ تقسیم ہونے سے ذرائع ابلاغ پر منفی اثرات پڑے۔ان خیالات کااظہار پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (ڈیمو کریٹس) کے رہنما بابر جمال، دانشور ڈاکٹر فاروق عادل،تحریک انصاف کے رہنما انجینئر افتخار احمد چودھری،سینئر اینکر پرسن رضا عباس، قومی اسمبلی کے ایڈیشنل سیکرٹری، سینئر تجزیہ کار مظہر طفیل اورسینئر ٹی وی نیوز پروڈیوسر فیصل حکیم نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’ہمارے ذرائع ابلاغ قومی امنگوں کے ترجمان کیوں نہیں ہیں؟‘‘بابر جمال نے کہا کہ پاکستان کے میڈیا کو ہمیں تحریک پاکستان اور اس کے بعد کے حالات کے تناظر میں دیکھنا ہوگا‘ جب تحریک پاکستان چل رہی تھی تو اس وقت مسلم میڈیا پاکستان کے لیے تڑپ رہا تھا اور مسلم آواز کو معاشرے میں پھیلارہا تھا جس سے مسلمانوں کو ایک حوصلہ ملتا تھا‘ پاکستان کے قیام کے بعد جس طرح ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا اور اسی طرح میڈیا پر بھی اس کے اثرات آئے بلکہ ایوب خان ، بھٹو اور ضیا الحق دور میں سنسر شپ رہی‘ اس دور میں جیسی صحافت ہونی چاہیے تھی ایسی نہیں ہوئی‘ پھر وقت کے ساتھ ساتھ میڈیا میں نظریاتی کام مسلسل کم ہوتا رہا‘ کاروباری طبقات نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اس شعبہ میں قدم رکھا تو اس کے اپنے طور اطوار سامنے آئے یوں سمجھ لیجئے جس طرح معاشرہ تقسیم ہوا اس طرح میڈیا بھی تقسیم ہے لہٰذا متفقہ قومی امنگوں کی بات اب یہاں نہیں مل سکتی‘ آج کے میڈیا میں کبھی عوامی ایشوز پر بات نہیں ہوئی‘ مہنگائی، کم آمدنی، بے روز گاری اور بڑھتے ہوئے یوٹیلیٹی بلوں کا ماتم بہت بڑا ایشو ہے ‘ ملک میں صرف 2 طبقات رہ گئے‘ ایک وہ جو مراعات یافتہ ہے جس کی صحت پر کوئی مہنگائی اثر انداز نہیں ہوتی اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو نان جویں کو ترس رہا ہے‘ ابھی تک یہ طبقہ اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کی بھوک مٹا رہا ہے۔ ڈرو اس وقت سے جب یہ لوگ اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں ایسا ہوا تو پھر اس ملک میں فسادات پھوٹ پڑیں گے اور اشرافیہ کے سارے خواب بکھر کر رہ جائیں گے۔ بہتر ہے کہ اب بھی سنبھل لیا جائے کہ وہ وقت نہ آئے اور اس کے لیے کوئی تسلی اور کوئی وعدہ تو کام نہیں آ سکتا البتہ عملی اقدامات سے حالات سنوارے جا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق عادل نے کہا کہ میڈیا ہائوسز کے مالکان اور صحافیوں کے بھی اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور ہمارے ملک میں بہت سی ایسی قوتیں ہیں جو زور زبردستی اپنے فیصلے منواتی ہیں‘ جب جہاں ایسے حالات اس قدر تقسیم ہوں‘ وہاں قومی امنگ تلاش کرنا مشکل ہوتا ہے اور پھر یہ کاروباری طبقہ ہے جو میڈیا اداروں کو اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے رقم دیتا ہے‘ میڈیا ادارے اس کے سامنے بھی بے بس رہتے ہیں‘ بہر حال بہت سے عوامل جن کی وجہ سے قومی امنگوں کی تلاش مشکل ہے۔ افتخار احمد چودھری نے کہا کہ جس ملک میں ایک سیاسی کارکن‘ ایک سیاسی جماعت اپنا کردارادا نہ کرسکے‘ اس ملک میں میڈیا سے قومی امنگوں کی توقع کرنا انصاف نہیں ہے‘ میڈیا بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے‘ اس سے الگ تھلگ نہیں ہے‘ ان شاء اللہ حالات بہتر ہوں گے‘ یہ وقت نہیں رہے گا۔ رضا عباس نے کہا کہ اس کی بہت سی وجوہات ہیں مگر اس چیز کا فی الحال ذکر کرلیا جائے کہ جیسے تعلیم ہمارے ہاں ایک کاروبار کی شکل اختیار کر گئی ہے ایسے ہی ابلاغ کا کام بھی کاروبار بن گیا ہے‘ میڈیا کا کام لوگوں کو اپنے مسائل حل کرنے کے لیے انہیں زبان دینا ہے مگر بدقسمتی سے عوامی امنگوں کو پس پشت ڈال کر فقط انہی امور کی ترجمانی کی جاتی ہے جس سے کاروبار میں اضافہ ہو اور یہی وجہ ہے کہ آج عوام میں اور ذرائع ابلاغ کے اداروں میں ایک نا ختم ہونے والا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ قومی اسمبلی کے ایڈیشنل سیکرٹری نے کہا کہ قوم ہی مردہ ہو چکی ہے مسلسل جبر تمام صلاحیتیں سلب کر لیتا ہے‘ نمود و نشوونما صرف آزاد ماحول میں پروان چڑھتی ہے‘ جبر اسے بانجھ کر دیتا ہے۔ مظہر طفیل نے کہا کہ کیا آپ کا اخبار قومی امنگوں کی ترجمانی نہیں کررہا ؟ آپ کے اخبار میں ادارتی عملے کے اراکین کیا قومی امنگوں کی ترجمانی نہیں کرتے؟ آپ اس سوال کو ذرا بہتر بنا سکتے تھے‘ آپ خود ایک بہت سینئر صحافی ہیں اور آپ ان کی رہنمائی کیا کریں تاکہ بہتر سوال بن سکے‘ اسلام آباد ہی نہیں بلکہ ملک میں آپ کا ایک معتبر نام ہے‘ آپ جیسے صحافی کو علم ہے اور ادراک ہے کہ نظریاتی صحافت کیا ہوتی ہے‘ آپ کے نکتہ نظر سے اختلاف ہوسکتا ہے‘ کیا جاسکتا ہے مگر آپ کی رائے میں وزن محسوس ہوتا ہے‘ آج کل چونکہ حالات بدل گئے ہیں‘ معاشرے کی اقدار بدل گئی ہیں‘ خبر اور خبریت سے تعلق بھی بہت کم ہوتا جا رہا ہے‘ اس ماحول میں نظریاتی صحافت کم ہوتی جا رہی ہے۔فیصل حکیم نے کہا کہ کیونکہ اب ذرائع ابلاغ کمرشل ہوچکا ہے‘ ایجنڈا بیسڈ ہے تو پھر قومی امنگوں کا ترجمان کیسے ہو سکتا ہے۔