مزید خبریں

اقامت دین کے ذرائع

جس صورت حال سے ملک عزیز گزر رہا ہے، اس میں اقامت دین کی جدوجہد کے راستوں میں کسی ایک تک اپنے آپ کو محدود کر لینا دینی حکمت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ بانیٔ تحریک اسلامی نے ایسی ہی صورت حال میں جو بات ارشاد فرمائی تھی، اسے ذہن میں تازہ کرنے کی ضرورت ہے کہ دعوتی مراحل میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ تحریک کے سامنے ایک چٹان حائل ہوجائے اور اس کے سفر کو روکنے کی کوشش کرے، لیکن تحریک کا کام حیات بخش دریا کی طرح ہونا چاہیے جو اپنے سامنے چٹان کو حائل دیکھ کر رْک نہ جائے بلکہ چٹان کے دائیں اور بائیں سے راستہ نکال کر منزل کی طرف گامزن ہو جائے، اور چٹانیں منہ دیکھتی رہ جائیں۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ کی بندگی کی دعوت فرائض و واجبات کی پابندی تک محدود نہیں ہے، بلکہ اللہ کے بندوں کی مشکلات کو دور کرنا اور حقوق العباد کا ادا کرنا بھی یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ قرآن کریم ان افراد کو جو یتیم اور بے سہارا افراد کی خبر گیری سے لاپروا ہیں اور ایسے افراد کو بھی جو فرائض دین مثلاً نماز میں سستی کرتے ہیں اور دیگر کاموں کو بعض اوقات فوقیت دے دیتے ہیں، سرزنش کرتا ہے:
’’تم نے دیکھا اْس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے، اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اْکساتا۔ پھر تباہی ہے اْن نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں، جو ریاکاری کرتے ہیں، اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں‘‘۔ (الماعون: 1-7)
آج معاشرے میں غربت، بھوک، بے روزگاری اور عدم تحفظ اپنی انتہا پر ہے۔ آفاتِ سماوی کے نتیجے میں اللہ کے بے شمار بندے بے گھر، کھلے آسمان کے نیچے پڑے کسی غیبی مدد کے منتظر ہیں۔ بعض اوقات فقر و فاقہ ایک فرد کو شرک کے قریب لے جاتا ہے۔ یہی وہ موقع ہے جس میں تحریک اسلامی کو ان مستحقین کی خدمت اور صرف اللہ کی رضا کے لیے ان کی امداد کے لیے تمام ممکنہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ اللہ کے بندوں کی امداد اور انھیں مصائب سے نکالنا تحریک اسلامی کی جدوجہد کی ایک اہم ترجیح ہونی چاہیے۔
ہم جس دور سے گزر رہے ہیں یہ نفسا نفسی کا دور ہے۔ اس میں ہر فرد صرف اپنے مفاد کو اور اپنی ذات کو دیکھتا ہے۔ یہ صورتِ حال صرف حکومت کے اہل کاروں سے نہیں بلکہ ہر شہری سے مطالبہ کرتی ہے کہ بے غرضی کے ساتھ خدمت خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے اور اللہ تعالیٰ سے خلوص دل کے ساتھ استدعا کی جائے کہ وہ نہ صرف ہماری قربانیوں کو قبول کرے بلکہ لوگوں کے دلوں میں حق کی قبولیت کی صلاحیت پیدا کرے۔ بلاشبہہ اسی کی گرفت میں انسانوں کے دل و دماغ ہیں اور جب تک وہ نہ چاہے کوئی دعوت کامیاب نہیں ہو سکتی۔
تحریک کے کرنے کے کاموں میں بنیادی چیز معاشرے کے افراد میں دعوتِ اسلامی کے بنیادی تصورات کے شعور کے ساتھ آج کے مسائل کا فہم اور انسانی مسائل کے حل کے لیے ایسے افراد کی تلاش ہے جو صاحب امانت ہوں، سچے ہوں، وعدوں کو پورا کرنے والے ہوں، جن کا کردار بے داغ ہو، جو خود کسی منصب کے اْمیدوار نہ ہوں اور اگر ا ن پر اعتماد کر کے انھیں ذمے داری دی جائے تو وہ امانت کا حق ادا کرنے میں سب سے آگے ہوں۔ ان کا ہر لمحہ اللہ کی بندگی میں صرف ہو اور وہ دکھاوے اور دنیاوی فائدوں کے لیے کسی ضرورت مند کی امداد نہ کرتے ہوں۔ وہ لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ فکری اصلاح اور نظریاتی تربیت کو بنیادی اہمیت دیتے ہوں۔ یہی وہ ’صٰبرونَ‘ ہیں جن کی یقینی کامیابی کا وعدہ ربِّ کریم نے فرمایا ہے اور جو سب سے زیادہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا ہے۔