مزید خبریں

ملک بھر میں سوشل میڈیا پر پابندی لگائے جانے کا قوی امکان

اسلام آباد ( میاں منیر احمد) باخبر ذرائع کے مطابق اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابات سے چند روز قبل ‘ پولنگ ڈے یا انتخابات کے بعد چند روز کے لیے ملک میں سوشل میڈیا پر پابندی لگانے کا فیصلہ کر سکتا ہے جس کا مقصد ملک میں ابہام پیدا کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانا ہے‘ جسارت اپنے قاری کے لیے انتخابی عمل اور الیکشن ایکٹ کے قوانین سے متعلق آگاہی کے لیے ایک کوشش کرہا ہے تاکہ ووٹرز اپنے فرض اور حقوق سے مکمل آگاہی حاصل کرسکے‘ بہت سے ایسے عمل ہیں جنیں قانون کی نظر میں پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا ہے ان میں وہ سب شامل ہیں جن کی مدد سے الیکشن والے دن بہت سے امیدوار اور ان کے حواری ووٹ حاصل کرنے کے لیے مختلف قسم کے طریقے استعمال کرتے ہیں من پسند پکوانوں سے ووٹرز کو راغب کیا جاتا ہے، ووٹرز کو گھروں سے پولنگ اسٹیشن تک لے جانے کے لیے مفت ٹرانسپورٹ فراہم کی جاتی ہے یہاں تک کہ ماضی میں بہت سی مثالیں ہمارے سامنے آئیں جہاں پیسوں کے ذریعے ووٹ خریدنے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔مگر الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت بہت سے ایسے معاملات ہیں جو قانون کی خلاف ورزی کے ضمن میں آتے ہیں جس کی خلاف ورزی پر قانون کسی بھی شہری کو جیل بھیج سکتا ہے‘ الیکشن ایکٹ 2017ء کے اگست 2023 تک ترمیم شدہ قانون کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان ماضی میں منعقد ہونے والے انتخابات کے دوران امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے اور پولنگ اسٹیشن کے اندر قانون پر عمل درآمد کرانے کے لیے ریٹرننگ وپریذائیڈنگ افسران کو مجسٹریٹ درجہ اول کے اختیار تفویض کرچکا ہے۔ ان اختیارات کی روشنی میں اگر کسی حلقے کے متعلقہ الیکشن عملے کو یہ اطلاع موصول ہو کہ وہ شہری جو ووٹ ڈالنے کے لیے اہل ہے، اسے مذہبی، لسانی، صوبائی، برادری یا خواجہ سرا ہونے کی بنیاد پر ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جارہی تو ایسی صورتحال میں قانون کے مطابق الیکشن عملہ جامع تحقیقات کرنے کے بعد ملوث افراد کو تین سال تک قید کی سزا یا ایک لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دینے کا مجاز ہے اسی طرح ووٹر کو رشوت یا ملازمت کی پیشکش کرنے کی بھی الیکشن ایکٹ کے تحت سزا ہے یہ جو گلی گلی کسی امیدوار کے دفتر کھل جاتے ہیں جہاں چند نوجوان کسی امیدوار سے باقاعدہ زبانی معاہدہ کرکے دفتر کے اخراجات کے نام سے پیسہ لیتے رہتے ہیں یہ عمل قانون کی نظر میں جرم ہے‘الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 168 کے مطابق اگر کوئی شخص یا امیدوار کسی ووٹر کو ذاتی طور پر ووٹ ڈالنے یا ووٹ نہ ڈالنے کے بدلے میں رشوت، نوکری سمیت کسی قسم کی بھی سہولت فراہم کرنے کی پیشکش کرے، کوئی امیدوار کسی دوسرے کے حق میں دستبردار ہو جائے یا رشوت لے کر ریٹائرمنٹ کا اعلان کرے اور یہ ثابت ہوجائے تو اس شخص کو بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑ سکتا ہے یا اس پر بھی جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ ایسا ووٹر جو کسی دوسرے شخص کے بدلے ووٹ ڈالنے کے لیے بیلٹ پیپر حاصل کرنے کی کوشش کرے اور کسی دوسرے شخص کے نام پر ووٹ ڈالنے کی کوشش کرے چاہے وہ زندہ ہو یا مردہ دونوں صورتوں میں یہ قابلِ گرفت فعل ہے۔ ایسا شخص یا امیدوار جو ووٹرز پر غیر ضروری دباؤ ڈالنے ووٹ کے بدلے جان سے مارنے کی دھمکیاں دے یا کسی قسم کا نقصان پہنچانے کے علاوہ اپنے بااثر ہونے کا رعب ڈالنے کے علاوہ کسی قسم کا مذہبی سزا سے ڈرائے اور مسلح افواج کے خلاف کوئی بات کرے یا خواتین اور خواجہ سراؤں کو ووٹ ڈالنے سے روکے یا مذہبی عبادت گاہوں کو اپنے ووٹ کے حصول کا ذریعہ بنائے تو ایسے شخص کو بھی تین سال تک قید یا ایک لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔الیکشن کے دن اگر کوئی شخص یا امیدوار کسی پولنگ اسٹیشن یا پولنگ بوتھ پر دھاوا بول کر اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ہے یا کر لیتا ہے، اس کے علاوہ انتخابی کارروائی روکنے کے لیے بیلٹ پیپرز، بیلٹ باکس یا دونوں پر قبضہ کرلیتا ہے تو یہ قابلِ گرفت جرم ہے۔ اس کے علاوہ اگر پولنگ اسٹیشن یا پولنگ بوتھ کے اندر ایک مخصوص امیدوار کے ووٹرز کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے اور دیگر امیدواروں کے ووٹرز کو ووٹ ڈالنے نہ دیا جائے تو اس کی بھی قانون کے مطابق سزا ہے۔ایسا شخص جو کسی امیدوار کے کاغذات نامزدگی کے ساتھ جان بوجھ کر چھیڑ چھاڑ کرتا ہے یا اسے پھاڑنے کی کوشش کرے اور بیلٹ پیپر پر موجود انتخابی نشان کو نقصان پہنچائے یا بیلٹ باکس کی سیل کو توڑنے کی کوشش کرے تو ایسی صورت میں الیکشن عملہ متعلقہ شخص کو چھ ماہ تک قید، یا ایک لاکھ روپے جرمانے یا دونوں سزائیں بیک وقت دے سکتا ہیالیکشن ایکٹ 2017ء￿ کے سیکشن 175کے تحت کرپٹ پریکٹس یا ایسا عمل جس میں کوئی ووٹر ووٹ ڈالنے کا اہل نہیں پھر بھی پولنگ عملے سے بیلٹ پیپر کا مطالبہ کرے یا ایک پولنگ اسٹیشن میں ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد دوبارہ اسی پولنگ اسٹیشن پر دوبارہ ووٹ ڈالنے کا مطالبہ کرے، پولنگ اسٹیشن کے گرد انتخابی مہم چلانے کی کوشش کرے، پولنگ اسٹیشن کے اندر یا باہر ووٹرز کو راغب کرنے کی کوشش کرے یا ووٹ کی رازداری کو افشا کرنے کے علاوہ الیکشن مہم کے دوران یا الیکشن والے دن اسلحہ کی نمائش، ہوائی فائرنگ کرے، یہاں تک کہ وہ ریٹرننگ افسر کی جانب سے الیکشن نتائج کے 24 گھنٹوں بعد بھی فائرنگ کرتا ہے تو اسے دو سال تک قید، ایک لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ ہوسکتی ہیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس یہ آئینی اختیار ہے کہ وہ انتخابات کے انعقاد کے لیے کسی بھی سرکاری محکمے یا افسر کی خدمات لے سکتا ہے اس ضمن میں وہ سرکاری ادارہ یا افسر اگر اپنے فرائض سر انجام دینے میں غفلت کا مظاہرہ کرے یا نااہلی کا ثبوت دے، کسی ووٹر پر اپنا اثر ورسوخ استعمال کرے یا الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرے تو اسے دو سال کی قید یا ایک لاکھ روپے تک جرمانے یا دونوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔