مزید خبریں

ملازمین کی بے چینی ختم کی جائے

نگران وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں وفاقی نظامت تعلیمات کے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے 227 اساتذہ کو مستقل بنیادوں پر تعینات کرنے کی منظوری دے دی۔ 10 جنوری 2024 کونگراں وفاقی کابینہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں 227 ڈیلی ویج اساتذہ کو ریگولر کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق ان یومیہ اجرت پر کام کرنے والے اساتذہ میں وہ بھی شامل ہیں جنہوں نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا ٹیسٹ پاس کیا ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار 2008 سے2013 PPP سرکارنے وفاقی سرکاری محکموں میں کام کرنے والے تمام ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرنے کے لیے کیبنٹ کی سب کمیٹی برائے ریگولرائزنگ ان سروس بنائی گئی تھی۔ اس کمیٹی کے چیئرمین سید خورشید احمد شاہ تھے۔ کمیٹی نے اپنے اپنے من پسند اداروں میں کام کرنے والے من پسند ڈیڑھ لاکھ ملازمین کو مستقل کیا تھا، لیکن جو اصل حقدار تھے وہ توآج تک محروم رہ گئے۔ مختلف اداروں کے ڈیلی ویجز ملازمین امتیازی سلوک کی بنیاد پر اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کیا تھا۔ جون 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویڑن بنچ نے انٹرا کورٹ اپیلوں پر تاریخی تفصیلی فیصلہ دیا تھا کہ تمام ملازمین جو مختلف عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ ادارے/کمپنیاں (وفاق کے زیر کنٹرول) جس کے اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز یا بورڈ آف گورنرز ہیں، انہیں آزادانہ طور پراپنے سروس رولز کے مطابق حکومت پاکستان کی طرف سے مزید کوئی منظوری کے بغیرملازمین کے مستقلی کا فیصلہ کرنا ہے۔ یعنی اپنے سروس رولز کے مطابق آزادانہ طور پر ملازمین کی سروسز کو باقاعدہ مستقل کرنا ہے۔ مستقبل میں وہ ادارے کسی بھی شخص کو عارضی ملازمت پر نہیں رکھیں گے، اس تفصیلی فیصلے میں مزید ملازمین مستقلی کے لیے تین کیٹگریز بناتے ہوئے حکم دیا تھا کہ:
1۔ ایسے ملازمین جن کو کابینہ کی خصوصی کمیٹی (خورشید شاہ کمیٹی) نے مستقل کرنے کی سفارش کے بعد نوٹیفیکیشن جاری کردیا گیا تھا، ان کو 90 روز میں پوسٹنگ آرڈر جاری کیے جائیں۔
2۔ گریڈ1 سے15 تک کے زمرے میں آنے والے ملازمین کا معاملہ وفاقی کابینہ کو90 روز میں بھیج کر کابینہ سے منظوری لینے کے بعدملازمین کو مستقل کرنے اور تیسری کیٹگری میں:
3۔ گریڈ 16-17 یا اس سے اوپر والے ایسے ملازمین جن کو خورشید شاہ کی کمیٹی نے مستقل نہیں کیا، ان کے کیسز FPSC
بھجوانے کا حکم دیا تھا۔ پیشی کے دوران جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر 2011 کی ریگولرائزنگ پالیسی نہیں مانتے اور جواب بھی تسلی بخش نہیں دیتے، کیوں نہ وزیر اعظم پاکستان کو طلب کیا جائے؟ جسٹس عامر فاروق نے مزید کہا تھا کہ من پسند لوگوں کو مستقل کردیا جو باقی رہ گئے ہیں ان کو عدالت کے کندھے استعمال کر کے فارغ کرنا چاہتے ہیں۔ عمران خان کی تبدیلی پسند سرکار نے وفاق کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے عدالتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا تھا، لیکن مارچ2019 میں سپریم کورٹ نے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے وفاق کی اپیلیں مسترد کردی تھیں۔ اس کے باوجودبھی وفاقی سرکاری اداروں اور کارپوریشنز کے اندر ملازمین کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم کیبنٹ سے منظوری لے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کریں تا کہ ملازمین کی بے چینی ختم ہوجائے۔