مزید خبریں

کراچی میں قیام امن ،معیشت اورانتخابات

ملک کے سب ستے بڑے تجارتی اور معا شی شہر کر اچی میں میں ایک مرتبہ پھرامن و امان کی صورتحا ل تباہی سے دو چار ہے اور اس سلسلے میں کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر افتخار احمد شیخ نے اعلان کیا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل پاکستان رینجرز سندھ میجر جنرل اظہر وقاص کے تعاون اورسپورٹ کی بدولت کراچی چیمبرکے احاطے میں ’’رینجرز مانیٹرنگ اینڈ کمپلینٹ سیل‘‘ کو دوبارہ فعال کر دیا گیا ہے جہاں دو رینجرز اہلکار ہر روز صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک تاجر برادری کو امن و امان کے مسائل سے نمٹنے میں سہولت فراہم کرنے کے لیے دستیاب ہوں گے۔
صدر کے سی سی آئی نے الائنس آف آرام باغ مارکیٹس ایسوسی ایشن کے چیئرمین آصف گلفام کی قیادت میں ملنے والے وفد سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ رینجرز سیل کو دوبارہ فعال کرنا کے سی سی آئی کی قیادت کی بھرپور کوششوں سے ممکن ہوا جنہوں نے ڈی جی رینجرز، ایڈیشنل آئی جی پی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں و دیگر حکام کے ساتھ کراچی کے ہر کونے اور گوشے میں فول پروف محفوظ اور پرامن ماحول کو یقینی بنانے کے مقصد کے تحت مسلسل بات چیت کرکے کراچی میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو بہتر بنانے میں بروقت اور فوری اقدام اٹھایا۔
حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں اس پوری صورتحا ل سے عارضی امن تو قائم ہو گیا لیکن لیکن یہ صورتحا ل مستقل بنیاد اور طویل مدتی ہو نا ضروری ہے ۔ گھر کے باہر سے اور رروڈو پر موٹر سائیکل چوری ہو گئی اور چھینے جا نے جانے کی وارداتیں عام ہیں اور اس سلسلے میں گم اور موٹر سائیکل چوری کا ملنا اب تو شہر کر اچی میں ناممکن ہو تا جارہا ہے ۔کراچی کی سٹیزن پولیس لیزان کمیٹی کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2021 سے لے کر جنوری 2024 تک70ہزار سے زائد افراد موٹر سائیکلوں سے محروم ہوئے جن میں سے زیادہ تر چوری ہوئیں۔پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے وسائل پہلے ہی محدود ہیں جبکہ کئی ایسے علاقے ہیں جہاں پبلک ٹرانسپورٹ چلتی نہیں ہے۔ ایسے میں3 کروڑ سے زائد آبادی والے اس شہر میں ملازمت یا تعلیمی اداروں تک جانا ہو یا تفریح کے لیے باہر نکلنا ہو، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی عوام کا زیادہ تر انحصار موٹر سائیکل جیسی سواری پر ہی ہے۔کراچی میں موٹرسائیکلوں کی کتنی تعداد ہے اس کے اعداد و شمار تو دستیاب نہیں مگر موٹر سائیکل ڈیلرز ایسوسی ایشن کے مطابق روزانہ 700 سے ایک ہزار کے درمیان نئی موٹر سائیکلیں سڑک پر آتی ہیں۔محکمہ ایکسائز کے ریکارڈ کے مطابق کراچی میں رجسٹرڈ موٹر سائیکلوں کی تعاد 32 لاکھ ہیں جبکہ ملک بھر میں رجسٹرڈ موٹر سائیکلیں بھی سڑکوں پر موجود ہیں۔کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کے بعد اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور دہشت گردی و ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں تو نمایاں کمی آئی ہے لیکن سٹریٹ کرائم ابھی بھی بے قابو ہے، جس میں موبائل و گاڑیاں چھیننا اور موٹر سائیکلوں کی چوری سرفہرست ہے۔
کراچی میں انسداد جرائم فورس یعنی اینٹی وائلنٹ کرائم سیل نے گذشتہ ماہ خالد مکرانی بلوچ نامی ملزم کو گرفتار کیا، پولیس کے مطابق ملزم نے اعتراف کیا کہ دس سے پندرہ سرقہ شدہ کاریں اور دس سے پندرہ سرقہ شدہ موٹر سائیکلیں انھوں نے بلوچستان کے علاقے پنجگور میں فروخت کیں۔چھینی گئی موٹرسائیکلوں کی مارکیٹ دو تین قسم کی ہے یہ بلوچستان ، سندھ کے دیہی علاقوں اور پنجاب تک فروخت ہوتی ہیں ہر گینگ کا اپنا گاہک ہے لیکن زیادہ تر بلوچستان میں سپیئر پارٹس میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
اس کے علاوہ ’کراچی کی بھی ا سپیئر پارٹس کی بڑی مارکیٹ ہے، موٹر سائیکل گھنٹوں میں پارٹس میں تبدیل ہو جاتی ہے اور پارٹس کسی ایک مقام پر نہیں ہوتے بلکہ تقسیم ہو جاتے۔ان کا کہنا ہے کہ ’پولیس نے ا سپیئر مارکیٹس میں ایکشن لیا ہے اور مزید اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔حکومت سندھ نے دہشت گردی، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کے مثبت نتائج آنے کے بعد اسٹریٹ کرائم کے خلاف بھی ٹارگٹڈ آپریشن کا آغاز کیا ہے۔
اس بارے میںکو ئی دوسری رائے نہیں ہے کراچی ایک بڑا شہر ہے جہاں عادی مجرم بھی ہیں، پولیس کے پاس عادی مجرموں کا جو ریکارڈ موجود ہے اس کے مطابق گیارہ ہزار ملزم ہیں۔ ہو سکتا ہے ا سٹریٹ کرائم میں ملوث افراد کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ۔ ان میں سے تقریباً تین سے ہزار سے زائد ہیں جیل میں باقی ضمانت پر ہیں یا بری ہو چکے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پانچ سے سات ہزار لوگ اب بھی سرگرم ہیں۔ایسے حالات میں کراچی سے جرائم کیسے ختم ہو سکتے ہیں ۔ہاں یہ ممکن ہے کچھ عرصے کے لیے مجرموں کو یہ کہا جائے کہ وہ روپوش ہو جائیں
کے سی سی آئی میں پہلے سے آپریشنل پولیس چیمبر رابطہ کمیٹی (پی سی ایل سی) کے ساتھ رینجرز مانیٹرنگ سیل پریشان حال تاجروں و صنعتکاروں کی ایک بڑی تعداد کو یقیناً کسی حد تک راحت فراہم کرے گا جنہیں ایک بار پھر بھتہ خوری کی پرچیاں ملنا شروع ہو گئی ہیں۔تاجروں، دکانداروں اور صنعتکاروں سمیت دیگر شکایت کنندگان کو کے سی سی آئی کے صدر افتخار احمد شیخ نے مشورہ دیا کہ اگر انہیں دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں تووہ فوری طور پر مدد کے لیے رینجرز مانیٹرنگ سیل سے رجوع کریں جن کی شناخت کو صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔کے سی سی آئی کے صدر افتخار احمد شیخ کو شاید اس بات کا علم نہیں ہے شناخت کو صیغہ راز میں رکھا بہت مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ۔
کراچی میں کاربار کر نا آج کل کاروبار کرنے کی مجموعی صورتحال بالکل بھی اچھی نہیں کیونکہ تاجر برادری کو ٹیکسیشن، انفرااسٹرکچر، امن و امان کی ابتر صورتحال اور توانائی کے انتہائی زیادہ ٹیرف وغیرہ سے متعلق بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔تاجروں نے متعدد مرتبہ یہ کو شش کی ہے کہ ان کو سازگار کاروباری ماحول فراہم کیا جا ئے اس سلسلے میں وہ تمام دستیاب پلیٹ فارم پر ہمیشہ سخت جدوجہد کرتے رہے ہیں۔کراچی چیمبر مشکل کی اس گھڑی میں تمام تاجر، دکانداروں و صنعتکاروں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے اور ہم بھتہ مافیا کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر تا رہا ہے ساتھ ہی دیگر مسائل کے حل کے لئے بھی باقائدگی سے اور پوری سنجیدگی سے متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر کام کا سلسلہ جاری ہے ۔ لیکن ہر تین سے چار ماہ کے بعد امن و امان کی صورتحال تباہی سے دور چار ہو جاتی ہے ۔
آرام باغ مارکیٹس ایسوسی ایشن کے چیئرمین الائنس آصف گلفام صدر کے سی سی آئی سے گفتگو میں بتایا کہ دکاندار معاشی بحران کی وجہ سے پہلے ہی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن اب یہ مشکلات مزید شدت اختیار کر گئی ہیں کیونکہ اسٹریٹ کرائمز میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور بھتہ مافیا بھی عام انتخابات سے قبل دوبارہ سر اٹھانے لگا ہے جو کہ واقعی تشویشناک ہے لہٰذا محفوظ ماحول کو یقینی بنانے کے لیے کراچی کی تمام تجارتی مارکیٹوں میں پولیس اور رینجرز کے دستے تعینات کیے جائیں تاکہ تاجر اور دکاندار بغیر کسی دھمکی یا حملے کے خوف کے اپنے کاروبار کو جاری رکھ سکیں۔انہوں نے کئی دیگر مسائل باالخصوص اردو بازار، آرام باغ اور دیگر قریبی مارکیٹوں میں اسٹریٹ لائٹس کی تنصیب کے لیے کے سی سی آئی سے تعاون بھی طلب کیا لیکن اس میں کامیابی بہت کم ہو ئی ہے۔واردتیں کر نے والے مجرم آزادانہ لوٹ مار کرتے ہیں اور اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر باآسانی فرار ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے یہ شکایت بھی کی کہ مقامی پولیس افسران کسٹمز انٹیلی جنس کا کام غیر قانونی طور پر انجام دے رہے ہیں جو مال کی آمدورفت، لوڈ کرنے یا اتارنے کے دوران مال کی قانونی حیثیت اور دستاویزات کے بارے میں بے جا پوچھ گچھ کرکے دکانداروں اور تاجروں کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں۔اگرچہ ایسوسی ایشن کی طرف سے رابطہ کرنے پر محکمہ پولیس کے اعلیٰ افسران تعاون کرتے ہیں لیکن مسئلہ برقرار ہے جس پر کے سی سی آئی کو مداخلت کرنے کی ضرورت ہے۔
چیئرمین خصوصی کمیٹی برائے اسمال ٹریڈرز مجید میمن نے کہا کہ کراچی چیمبر تاجر برادری کا حقیقی نمائندہ ہے باالخصوص چھوٹے تاجروں اور دکانداروں کو جنہیں کے سی سی آئی کے امور کی ذمہ داری نبھانے کا موقع بھی فراہم کیا گیا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تنویر باری جو چھوٹے تاجروں میں سے ہی ہیں انہیں کے سی سی آئی کے نائب صدر کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ انہوں نے چھوٹے تاجروں کو کے سی سی آئی کے ساتھ رابطے میں رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے متعلقہ اجلاسوں میں زیادہ سے زیادہ شرکت کی درخواست کی تاکہ بہت سے مسائل کو فوری منظر عام پر لایا جا سکے اور خوش اسلوبی سے حل کیا جا سکے۔