مزید خبریں

!رزق میں بے برکتی

مال کی بے جا محبت، جمع کرنے کی ہوس، اس پر اترانا تو بے شک بہت بڑی برائی ہے اور اسلامی زندگی میں اس کا کوئی جواز نہیں، لیکن اچھے کاموں میں خرچ کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ حلال مال کمانا ایک پسندیدہ کام ہے، تاکہ معاشرے میں غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔ آج ہم اپنے مسائل کے حل کے لیے مشکل ترین دنیوی ذرائع استعمال کرنے کے لیے تو تیار ہیں، مگر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی عطا کردہ روزی میں برکت کے آسان ذرائع کی طرف توجہ نہیں کرتے، جو نہایت ہی افسوس کا مقام ہے۔ گھمبیر معاشی ومعاشرتی مسائل نے لوگوں کو بے حال کردیا ہے۔ شاید کوئی گھر ایسا ہو کہ جہاں حالات کا رونا نہ رویا جاتا ہو اور بے روز گاری وتنگ دستی تو گویا ایک بین الاقوامی مسئلہ بن چکی ہے۔ رزق میں برکت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے رزق میں بے برکتی کے اسباب تلاش کیے جائیں، تا کہ رزق میں بے برکتی کے اصل حقائق تک رسائی ہو۔ رزق کی بے قدری اور بے حرمتی سے کون سا گھر خالی ہے، بنگلے میں رہنے والے ارب پتی سے لے کر جھونپڑی میں رہنے والے مزدور ومحنت کش تک سب اس حوالے سے غفلت اور بے احتیاطی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ شادی ودیگر تقریبات میں قسم قسم کے کھانے ہوں یا گھروں میں برتن دھوتے وقت بچا کچھا کھانا… یہ جس طرح ضائع کیا جاتا ہے اس سے کون نا واقف نہیں؟

کاش رزق میں تنگ دستی کے اس عظیم سبب پر ہماری نظر ہوتی اور اصلاح کی کوشش کی جاتی تو بہت اچھا ہوتا، کیوں کہ یہ بیماری عام ہے، جس میں ہماری اکثریت مبتلا ہے۔ آج کل کئی دکان دار کاروبار میں بندش ختم کرانے کے لیے تعویذ، عملیات اور دعا کے ذرائع تو اپناتے ہیں، مگر روزی میں برکت کے زائل ہونے کے ایک بڑے سبب خرید وفروخت میں بے احتیاطی کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ آپؐ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ تجارت میں قَسم کی کثرت سے پرہیز کرو، کیوں کہ اس سے مال تو فروخت ہوجاتا ہے، لیکن مال میں برکت نہیں رہتی۔ جس طرح روزی میں برکت کے ذرائع موجود ہیں، اسی طرح اس میں تنگی کے اسباب بھی پائے جاتے ہیں، اگر ان سے بچا جائے تو روزی میں برکت ہی برکت ہوگی۔ ان شاء اللہ

!خوش حالی لانے والی سات چیزیں

قرآن پاک کی تلاوت کرنا، پانچ وقت کی نماز پڑھنا، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا، غریبوں اور مجبوروں کی مدد کرنا، گناہوں پر نادم ہو کر معافی مانگنا، ماں باپ اور رشتے داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، صبح کے وقت سورۂ یسین اور رات کے وقت سورۂ واقعہ پڑھنا۔ اگر آج ہم صدق دل سے بے برکتی والی چیزوں سے اجتناب کرنے اور برکت والی چیزوں کو اپنا نے کا تہیہ کر لیں تو ہمارے گھر سے بے برکتی کا خاتمہ اور برکت کا نزول ہوگا، ورنہ خسارہ ہی خسارہ رہے گا۔

باہمی تعلقات میں خرابی کی وجہ یہ ہے کہ ہم دوسروں سے غیر معمولی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں، مثلاً: اولاد، رشتے داروں، ازواج، دوست اور قریبی ساتھیوں کے متعلق اندازے اخذ کر لیتے ہیں کہ ہم سے وہ بہت اچھا رویہ اپنائیں گے یا فلاں موقع پر کچھ دیں گے یا کچھ کہہ دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ تو جب وہ ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتے تو ہم مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں، شک وشبہات پیدا ہوتے ہیں، ذہن میں طرح طرح کی کھچڑی پکتی ہے’’ایسا اس لیے ہوتا ہے یا یہ وجہ ہوگی وغیرہ وغیرہ‘‘ پھر اس مایوسی سے اجنبیت اور دوری ہونے لگتی ہے اور ہم لوگوں سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں، حالاں کہ اس کا زیادہ سبب ہم خود ہیں۔ خوش حالی کے دور میں ہمارے ملنے جلنے والے لوگ بڑھ جاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ سب ہم سے مخلص ہوں، بعض نام نہاد دوست صرف دولت کے ساتھ ہوتے ہیں، جن میں خلوص ہوتا ہے نہ درد مندی، دراصل جنہیں ہم سے محبت کرنا ہوتی ہے وہ ہمارے دنیاوی لوازمات (گھر، لباس، گاڑی، بنگلہ، زیور، بینک بیلنس) کے بغیر بھی محبت کرتے ہیں۔ اگر انسان کی تمام کوششیں صرف اپنی ذات کی خوشی حاصل کرنے کے لیے، اپنے آرام، اپنے کھانے پینے اور تفریح کے لیے ہوں تو کوئی اس کے ساتھ بیٹھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ انسان بڑے پیمانے پر لوگوں سے تعلقات رکھتا ہے اور ہر طرح سے دوسروں کو خوش رکھنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے تو بہت سی الجھنیں پیدا ہوتی ہیں اور عملی طور پر زندگی گزارنا بے حد دشوار ہوجاتا ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہم پر بھروسا کریں تو خود اپنے اہل خانہ، رشتے داروں کے ساتھ قابل اعتماد ہوجائیں، ایسا رویہ اپنائیں کہ وہ بلا تکلف اپنے حالات ہم سے کہہ سکیں، دوسروں کو اپنے سخت رویے اور حاکمانہ ذہنیت سے مرعوب کرنے کی کوشش نہ کریں اور نہ ہی یہ سمجھیں کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں یا کرنے والے ہیں وہ سب لوگ بے چوں چراں مان لیں گے اور ہماری بات سے کوئی اختلاف نہیں کرے گا۔ اپنے رویہ سے، اپنی گفتگو سے بے زاری اور عداوت کو ختم کریں، اگر اتفاق سے کسی کو تکلیف پہنچ جائے تو فوراً معذرت کرلیں۔ لوگوں کے مسائل کو دردمندی اور خیرخواہی سے سنیں، اچھے کاموں کی خوش دلی سے داد دیں، تاکہ دوسروں کی حوصلہ افزائی ہو۔