مزید خبریں

! خیانت سے بچیں

اس وقت ہم مسلمانوں کی زندگی کے تمام شعبوں میں دینی اعتبار سے اضمحلال، کمزوری اور دراڑ پیدا ہو چکی ہے، ہر شعبے میں پانی مر رہا ہے۔ عقائد، اعمال، اخلاقیات، معاملات، لین دین، معاشرتی زندگی اورآپس کے رہن سہن… ہر شعبے میں تنزلی ہے، ہم عقائد کے اعتبار سے بھی پیچھے، اعمال کے اعتبار سے بھی پیچھے، اخلاق بھی ہمارے بہت زیادہ کمزور ہو چکے ہیں، بداخلاقی عام ہے، معاملات ہمارے بہت ناصاف ہیں، معاشرے کو تو پوچھنا ہی نہیں ہے کہ وہ کیسا ہے۔
ہماری زندگی میں جو خرابیاں اور برائیاں ہیں ان خرابیوں اور برائیوں میں سے ایک بہت بڑی برائی اور خرابی’’ امانت میں خیانت کرنا‘‘ بھی ہے۔

امانت عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’امن‘‘ سے مشتق ہے، اس کے معنی کسی شخص پر کسی معاملے میں اعتماد اوربھروسہ کرنے کے ہیں، پس امانت کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص کوئی مال یا کوئی چیز اس بھروسے اور اعتماد کے ساتھ دوسرے شخص کو سپرد کر دے کہ وہ شخص اس سلسلے میں اپنے فرض اور ذمے داری کو صحیح طور پر بجالائے گا اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرے گا، بالفاظ دیگر یوں کہیے کہ اگر کسی شخص کا حق ہم پر عائد ہو رہا ہو تو اس کے حق کو نفس کی خوشی کے ساتھ اس کے حوالے کر دیا جائے، اسی کا نام امانت ہے۔

جن اچھی صفات اور اخلاق کو اختیار کرنا چاہیے ان میں سے امانت ایک عمدہ وصف ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے۔ مفہوم آیت ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات کا حکم دے رہے ہیں کہ تم امانتوں کو اہل امانت کے حوالے کر دو، (سورۃ النساء: 58) اس آیت کا مخاطب ہر وہ شخص ہے جو کسی امانت کا امین ہے، اس میں عوام بھی داخل ہیں اور حکام بھی۔
امانت کا مفہوم بہت وسیع ہے ، ہر قسم کی امانت کو محیط ہے، اگرچہ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ امانت سے مراد وہ مال ہے جو ایک شخص سے دوسرے شخص کے پاس امانت کے طور پر رکھا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ زندگی کے ہر شعبے میں ہر قسم کی ذمے د اری سے متعلق ہے۔

امانت کی ساری قسمیں ہیں، جس طرح ایک تاجر کے حق میں امانت سے مراد لین دین میں سچ بولنا اور دین داری اختیار کرنا ہے، اسی طرح آجر کے حق میں امانت یہ ہے کہ وہ اجرت کے حقوق کی صحیح اور بروقت ادائی کرے، ملازم کی امانت اپنی ڈیوٹی اور فرائض کو صحیح طور پر ایمان داری سے ادا کرنا ہے اور صنعت کار کی امانت اس کی صنعت کاری میں دیانت داری ہے، غرض امانت کا تعلق زندگی کے ہر شعبے سے ہے۔
آپؐ نے امانت ادا کرنے کی بڑی تاکید فرمائی ہے، سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے، نبی پاکؐ فرماتے ہیں: ’’جو کوئی تمہارے پاس کوئی چیز امانت رکھے تو تم اس کو واپس کر دیا کرو اور جو تم سے خیانت کرے تم اس سے خیانت نہ کرو‘‘۔
سیدنا انسؓ فرماتے ہیں کہ نبی پاکؐ نے جب کبھی بھی خطبہ دیا اس میں یہ ضرور فرمایا: اس شخص کا ایمان معتبر نہیں جو امانت میں خیانت کرتا ہے اور اس شخص کا دین معتبر نہیں جو اپنے وعدے کو پورا نہیں کرتا ہے۔ (مسند احمد :135)

نبی پاکؐ نے خیانت کرنے کو نفاق کی علامت فرمایا ہے اور خیانت سے بچنے کی سخت تاکید فرمائی ہے، قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اے ایمان والو! تم جانتے بوجھتے اللہ اور رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کے مرتکب بنو‘‘۔ (سورۃ االانفال: 27)
دوسری جگہ فرمایا: ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا ہے‘‘۔ (ایضاً)

امام بخاریؒ نے بخاری شریف کے اندر مختلف ابواب کی مناسبت سے مختلف مقامات پر ایک روایت ذکر کی ہے اور حدیث کی تمام کتابوں میں یہ روایت ملے گی کہ: تین خصلتیں جس شخص کے اندر ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا۔ جبکہ اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے، اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، اورجب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ (صحیح مسلم)
خود آپؐ نے امانت داری کا ایسا کامل مظاہرہ پیش فرمایا کہ مشرکین مکہ آپؐ پر ایمان نہ لانے، آپؐ کی دشمنی میں پیش پیش ہونے اور آپ کی نبوت ورسالت کا انکار کرنے کے باوجود آپ کی امانت ودیانت، راست بازی، حسن اخلاق اور پاکیزہ کردار کی بنا پر آپؐ کو ’’صادق وامین‘‘ کے لقب سے یاد کرتے تھے اور اپنی امانتیں آپؐ ہی کے پاس رکھتے تھے۔ ہجرت مدینہ کے موقع پر بھی آپؐ کے پاس بہت سی امانتیں جمع تھیں، آپ نے وہ سب امانتیں سیدنا علیؓ کو سپرد کرکے فرمایا کہ یہ سب امانتیں لوگوں تک پہنچا کر مدینہ چلے آنا۔

اللہ تعالیٰ نے ہم کو پیدا کیا، اس نے ہم سب کو کچھ کرنے کے احکام عطا فرمائے اور کچھ باتوں سے منع فرمایا، اوامر پے عمل کرنا اور منہیات سے اپنے آپ کو بچانا جن کا تعلق پروردگار ِ عالم سے ہے جنہیں’’حقوق اللہ‘‘ کہا جاتا ہے یہ بھی امانت ہیں، ان کا ادا کرنا اور ان کو بجالانا امانت کو صحیح طور پر ادا کرنا ہے اور اس میں کوتاہی کرنا، کمی بیشی کرنا خیانت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو انسانی اعضا سے مزین فرمایا اور یہ اعضا وجوارح اس کی امانت ہیں، اس کا انعام ہے، زبان سے غلط نہ بولے، آنکھ سے غلط نہ دیکھے، ہاتھ سے غلط چیز کو نہ کپڑے، پیر سے غلط نہ چلے، غرض ان ساری چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے بطور امانت کے دیا ہے، ان کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے ذریعے غلط کاموں کا استعمال نہ کیا جائے، اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات وفرمودات کے تحت استعمال کیا جائے، ایسے کاموں ایسی چیزوں کے اندر ان کا استعمال کیا جائے جن سے اللہ اور اس کے رسولؐ راضی اور خوش ہوں اور ایسے کاموں سے کلی طور پر اجتناب کیا جائے جو ان کی ناراضگی اور غصے کا موجب ہوں، اگر ہم اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابق اپنے اعضا وجوارح کا استعمال نہیں کررہے ہیں تو گویا ہم امانت میں خیانت کر رہے ہیں، ناشکری کر رہے ہیں۔

اْن اوامر ومنہیات میں کچھ ایسے احکام ہیں جن کا تعلق انسان کو انسان سے ہوتا ہے، جنہیں’’حقوق العباد‘‘ کہا جاتا ہے، یہ بھی ایک طرح سے امانت ہیں، ان کا بجالانا، ان کا ادا کر دینا امانت کو صحیح صحیح طور پر ادا کرنا ہے۔
حقوق العباد میں امانت کے تعلق سے چند چیزیں ایسی ہیں، جن کی طرف عام طور پر لوگوں کا ذہن نہیں جاتا اور وہ ان امانتوں میں خیانت کر بیٹھتے ہیں اور انہیں کسی معصیت کا خیال بھی نہیں ہوتا، حالانکہ شریعت کی نظر میں ان چیزوں میں بھی خیانت قبیح اور موجب گناہ عمل ہے، جس سے ہر مسلمان کا بچنا نہایت ضروری ہے، مثلاً:
حق تلفی کرنا یعنی کسی کا حق ہماری جائیداد سے متعلق ہو، کسی کا قرض ہمارے ذمے ہو، اس کو ادا نہ کرنا یہ امانت میں خیانت ہے، نااہل کو عہدہ سپرد کرنا، یہ بھی امانت میں خیانت ہے، ایک موقع پر جناب رسول اللہ نے فرمایا:
’’جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمے داری سپرد کی گئی اور پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض تعلق اور دوستی کی بنا پردیا تو اس پر اللہ کی لعنت ہے، نہ اس کا فرض مقبول ہے نہ اس کی نفل، یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہو جائے‘‘۔ (جمع الفوائد)

اسی طرح قاضی یا جج کا انصاف سے فیصلہ نہ کرنا، ان کی ذمے داری ہے کہ سیاسی دباؤ اور ذاتی مفادات سے بلند ہو کر عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کریں، اسی طرح ملازمت کے اوقات میں ذاتی کام کرنا، ناپ تول میں کمی کرنا، مجالس کی گفتگو کو دوسروں سے کہنا، غلط مشورہ دینا، راز کی بات ظاہر کرنا، فون پر دوسروں کی باتوں کا سننا یعنی کسی کی ٹوہ میں رہنا وغیرہ… یہ سب امور خیانت میں داخل ہیں، ایسے امور سے بالکلیہ اجتناب لازم اور ضرور ی ہے۔
اِنَّ اللَّہَ یَامْرْکْم الخ یہ آیت نہایت چشم کشا ہے، امانت داری کے مفہوم کو بالکل واضح کرنے والی ہے جس کے دائرے میں عبادات سے لے کر معاملات زندگی کے تمام شعبے داخل ہو جاتے ہیں، سچا پکا مومن وہی ہے جو کسی بھی شعبے میں اپنی امانت داری پر آنچ نہ آنے دے، دنیا خواہ کتنی ہی اخلاقی پستی میں پہنچ گئی ہو، مگر آج بھی امانت دار کو لوگ عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتے اور قدر ومنزلت کرتے ہیں، آخرت میں بھی وہ پروردگارِ عالم کی بارگاہ میں عزت ووقار پائے گا، اس کے بالمقابل خیانت کرنے والا دنیا میں بھی ذلیل ورسوا ہوتا ہے اور آخرت میں بھی بے عزت اور جہنم کا ایندھن بنتا ہے۔