مزید خبریں

قول وفعل میں تضاد کے باعث عوام علما اور دانشوروں کو رول ماڈل نہیں بناتے

اسلام آباد (میاں منیر احمد)علما اور دانشوروں کے قول وفعل میں تضاد کے باعث عوام انہیں اپنارول ماڈل نہیں بناتے‘ مادہ پرستی کی دوڑ نے عوام کو رول ماڈل سے محروم کررکھا ہے‘معاشرے کو اچھے افراد نہیں مل پارہے‘ لبرل ازم اور تعلیمی نصاب بھی کردار سازی میں بڑی رکاوٹ ہیں‘نوجوانوں کو سبز باغ دکھا کر بہکایا اوربھٹکایا جاتا ہے ‘بے راہ روی اور پیسوں کی چمک دھمک بھی نوجوانوں کو نیک اور صالح افراد سے دور رکھنے میں اہم کردار ادا کررہی ہے‘سیاست میں جھوٹ فریب اور عیاریاں ‘مشکل معاشی حالات ‘بیروزگاری بھی معاشرے کو رول ماڈل فراہم کرنے میں ناکامی کی بڑی وجوہات ہیں‘بلاشبہ پاکستان میں عوام کی فلاح و بہبود کرنے میں ناکام سیاسی قیادت کی مسلسل ناکامیوں کے باوجود علام اور دانش ور ایک رول ماڈل کے طور پر سامنے نہیں آرہے اس کی بنیادی وجوہات میں دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے لبرل نظام کا تیزی سے تقویت پکڑنا‘ آزاد اور لبرل میڈیا‘تعلیمی نصاب ہے
جس میں علماء اور دانش ور کہیں بھی موجود نہیںہیں اور نہ انہیں بطور نصاب شخصیت پڑھایا جاتا ہے یہ وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں علماء کا کردار اور معاشرے پر ان کے کردار کی چھاپ بہت محدود ہے‘ ان خیالات کا اظہار پارلیمنٹ ہائوس کی مسجد کے خطیب مولانا احمد الرحمن، پاکستان مسلم لیگ(ض) کے سربراہ محمد اعجاز الحق‘دانش ور جاوید الرحمن ترابی‘ تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر فرخ‘کالم نگار تجزیہ کار مرزا عبدالقدوس نے جسار ت کے سوال علما اور دانش ور معاشرے کو رول ماڈل کیوں فراہم نہیں کر رہے؟ کے جواب میں کیا۔ مولانا احمد الرحمن نے کہا کہ کوئی دو رائے ہی نہیں کہ پاکستان میں عام آدمی بہت مشکل میں ہے، مہنگائی قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہے، لوگ جھولیاں اٹھا کر بددعائیں دے رہے ہیں۔ حکومت عام پاکستانی کی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے عام آدمی کے مسائل اور مہنگائی پر قابو پانا سیاسی قیادت کی ترجیحات میں نہیں ہے ملک میں یہ وہ ماحول ہے جس میں علما کو آگے آنا چاہیے تاکہ وہ عام آدمی کے لیے رہنمائی کر سکیں مگر ان کے لیے کوئی وسیع گنجائش موجود نہیں کہ لبرل سیاسی نظام نے پورا معاشرہ جکڑ رکھا ہے ہمارے ملک کے عوام بھی مسائل کے باوجود مصلحت سے کام لیتے ہیں اور لبرل سیاسی جماعتوں کی جانب ہی مائل رہتے ہیں عوام کرپشن پر تحفظات بھی ظاہر کرتے ہیں مگر قیادت کے لیے انتخاب بھی ایسے ہی لوگوں کا کرتے ہیں لوگوں سے جھوٹے وعدے کرنے اور انہیں سبز باغ دکھا کر حکومت میں آنے والوں نے اقتدار میں آ کر ووٹرز کو بڑے طریقے سے نظر انداز کیا ہے اس کے باوجود ووٹرز کی اکثریت ایک ہی رخ پر فیصلہ کرتی ہے۔ محمد اعجاز الحق نے کہا کہ آج کا بین الاقوامی میڈیا دیکھیں اور اسے پڑھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ دنیا میں کیا بات ہو رہی ہے، کون کیا لکھ رہا ہے اور کیا کہہ رہا ہے ہماری بیشتر سیاسی جماعتیں اور ان کے بعد عوام بھی غیر ملکی میڈیا کو بہت اہمیت دیتے ہیں‘ اس عالمی میڈیا کا اپنا ایجنڈا ہے‘ دوسری بات دیکھیں کہ عوام معاشی مسائل کا شکار ہے اور انہیں سمجھ ہی نہیں آتی کہ جس طرح کے مسائل کا شکار ملک بن رہاہے یا بن گیا ہے‘ اس کے حل کے لیے ہمیں دنیا سے معاشی تعاون چاہیے‘ اور یہ تعاون بھی کس قیمت پر ہی لیا جارہا ہے یہ قیمت بہت بھاری ہے پاکستان بڑھتی ہوئی دہشت گردی، کم ہوتی فی کس آمدنی اور تیس فیصد افراط زر کا شکار ہے، ایسے میں پاکستان کوکرشماتی لیڈر سنجیدہ قیادت کی ضرورت ہے۔ ہماری لبرل سیاسی جماعتیں اس لیے بھی کامیاب ہیں کہ وہ اقوام عالم سے تعلقات خراب نہیں کرتی ہیں اس لیے عالمی میڈیا انہیں سپورٹ بھی کرتاہے جس کے ہمارے ملک پر اثرات پڑتے ہیں ۔ دانش ور جاوید الرحمن ترابی نے کہا کہ یہ سب کچھ غیر سنجیدہ اور غیر حقیقی بیانیے کی وجہ سے ہوا ہے۔ بدقسمتی سے یہ سوچ صرف اندرونی طور پر ہی نہیں تھی بلکہ اس غیر حقیقی سوچ کا نقصان ہمیں بین الاقوامی اور سفارتی سطح پر بھی ہوا ہے۔ ایک مخصوص ٹولہ آج بھی پاکستان کو نقصان پہنچانے کے راستے پر ہے، یہ وہی لوگ ہیں جو ماضی میں جھوٹ کی سیاست کرتے اور پاکستان کے سادہ لوح، معصوم لوگوں کے جذبات بھڑکاتے اور ان کے مستقبل سے کھیلتے رہے ہیں۔ ظالموں کا یہ ٹولہ آج بھی مصروف عمل ہے۔ اب یہ فیصلہ پاکستان کے لوگوں نے کرنا ہے کہ انہوں نے تباہی کے راستے پر چلنا ہے یا پھر ملک کو مسائل سے نکالنے کے لیے تعمیر کا سفر شروع کرنا ہے اس سفر کے آغاز کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک کے علما آگے بڑھیں اور قیادت کریں ملک میں بہتر فیصلوں کے لیے مشاورت ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ نو مئی جیسے افسوسناک واقعات ہوئے، ملک کے نوجوانوں کو ورغلایا گیا، ان کی توانائیوں کو منفی انداز میں استعمال کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر فرخ نے کہا کہ جب تک آپ زبانی جمع خرچ، ہر وقت پگڑیاں اچھالنے، لوگوں کے جذبات بھڑکانے کی منفی سیاست سے باہر نہیں نکلیں گے ترقی کے خواب کو تعبیر نہیں ملے گی۔ سیاسی قیادت کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہو گا، علاقائی سیاست اور عالمی طاقتوں کے مفادات کو دیکھتے ہوئے اپنا راستہ بنانے کی حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی اور اسی کے ساتھ ملک میں تعمیری تبدیلی نظر آئے گی اور علماء کا کردار بھی اس تبدیلی لانے کا باعث بنے گا اس ملک کے مظلوم شہریوں نے بہت تکلیف دیکھی ہے۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ سیاسی قیادت ان مسائل کو حل کرنے اور پاکستان کے مفادات کی حفاظت کرنے کے لیے ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آئندہ عام انتخابات میں حصہ لے۔ پاکستان کو سیاسی و معاشی استحکام کی ضرورت ہے پاکستان کے شہریوں کو بھی عقل، سمجھ سے کام لیتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہیے۔ کالم نگار تجزیہ کار مرزا عبدالقدوس نے کہا کہ بائیس سال کی جدوجہد کے بعد حکومت میں آنے والوں میں نظام چلانے کی اہلیت ہی نہ تھی ہر دوسرا شخص اپنی بائیس سال کی بھوک مٹانے کی کوششوں میں مصروف رہا ان حالات میں عام آدمی کا کون سوچتا۔ یہ تلخ باتیں ہیں لیکن یہ حقیقت ہے۔ کاش قوم کی راہنمائی کے لیے علماء کی خدمات لی جاتیں تو آج یہ حالات نہ ہوتے۔پاکستان میں ہر دوسرا شخص روزانہ کی بنیاد پر سیاسی قیادت کو برا بھلا کہتا رہتا ہے پاکستان میں اخبارات میں لکھنے والے اور ٹیلی ویژن چینلز پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے والے بھی سیاسی قیادت یا حکمران طبقے کو خرابی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں لیکن تبدیلی پھر بھی نہیں آتی اس کی بجہ یہ ہے کہ لبرلز کے پاس پیسہ بھی بہت ہے اور ان کی لابی بھی بہت مضبوط ہے سیاسی قیادت یا حکمران طبقے پر تنقید کرتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انفرادی حیثیت میں پاکستان ہر دوسرا شخص اخلاقی طور پر اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ جھوٹ کی چلتی پھرتی دکان ہے‘برائیوں اور خرابیوں کے اس اتوار بازار میں ہم توقع یہ کرتے ہیں کہ قیادت ایماندار ہونی چاہیے، قیادت کو سچ بولنا چاہیے، قیادت کو میرٹ پر کام کرنا چاہیے، قیادت کو انصاف کرنا چاہیے، قیادت قانون کی پاسداری کرے، قیادت سادگی اختیار کرے، قیادت بدتہذیب نہ ہو، قیادت عاجزی کا مظاہرہ کرے ہم اتنے دوغلے ہیں کہ اپنے لیے اور معیار ہیں دوسروں کے لیے اور ہیں۔ ہم جھوٹے ہیں، مکار و عیار، بددیانت، کم ظرف اور بے رحم ہیں مسئلہ صرف تسلیم کرنے کا ہے۔ ہم تسلیم نہیں کرتے لیکن حقیقت یہی ہے۔ جب تک ہم اس حقیقت کو تسلیم نہیں کریں گے اس وقت تک بہتری ممکن نہیں ہے اب ایک مرتبہ پھر اسی بری حالت میں ہم عام انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کاش کہ ہماری سیاسی قیادت اور حکمران طبقہ بھی معاشرے میں پھیلی ان برائیوں اور خامیوں کو سمجھنا شروع کر دے۔ کاش کہ سیاسی قیادت قوم کی اخلاقی تعمیر پر توجہ دے۔ بہت وقت گذر گیا میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ پاکستان کا اصل مسئلہ معیشت، سیاست یا لاقانونیت نہیں بلکہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اخلاقی زوال ہے۔ باقی تمام خرابیاں اسی زوال سے نکلی ہیں جب تک ہم اخلاقی طور پر مضبوط نہیں ہوں گے ہمارے مسائل حل نہیں ہو سکتے اخلاقی معیار کو بلند کرنے اور اخلاقی طور پر مضبوط ہونے کے لیے ہمیں مذہب کی طرف جانا پڑے گا اس کام کے لیے ہمارے علماء آگے آئیں اور اپنا کردار نبھائیں۔