مزید خبریں

انتخابات پہلے ہی چوری ہوتے دکھائی دے رہے ہیں،پورا انتخابی عمل داغ دار ہوچکا

اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) انتخابات پہلے ہی چوری ہوتے دکھائی دے رہے ہیں‘ پورا انتخابی عمل داغ دار ہوچکا‘ طاقت کا کھلا کھیل اور ہیر پھیر کے انتخابات ملک کو مزید دلدل میں دھکیل دیں گے‘ 8 فروری کے قریب آنے کے ساتھ پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن میں شدت آجائے گی‘ سیاسی جماعتیں ابھی تک متحرک نہیں ہوئیں‘ خراب معاشی حالات، عدم مساوات اور آبادی میں اضافے جیسے مسائل پر خاموش ہیں۔ ان خیالات کا اظہارفیڈریشن آف چیمبرز آف پاکستان کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق ایگزیکٹو ممبر اور تاجر رہنما عمران شبیر عباسی، تعمیراتی بزنس سے وابستہ کاروباری شخصیت چودھری محمد شفیق،پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی نواب زادہ افتخار احمد خان،عدالت عظمیٰ کے سینئر قانون دان ڈاکٹر صلاح الدین مینگل، سول سوسائٹی کے نمائندے ذوالفقار علی شاہ، پی ایف یو جے( ڈیمو کریٹس) کے رہنما شیراز خان ،تحریک انصاف کے رہنما افتخار چودھری ، ہائی کورٹ کے سینئر وکیل عامر رضا، تاجر رہنما مدثر فیاض چودھری اور فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان کے مرکزی رہنما اسرار الحق مشوانی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’فروری میں الیکشن ہوں گے یا سلیکشن؟‘‘ عمران شبیر عباسی نے کہا کہ اختلافِ رائے رکھنے والوں پر ظلم و ستم کے حالیہ الزامات کے ساتھ نئے سال کا اچھا آغاز نہیں ہوا‘ انتخابات میں ایک ماہ سے بھی کم عرصہ باقی رہ گیا ہے لیکن انتخابات پہلے ہی چوری ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ چودھری محمد شفیق نے کہا کہ بڑے پیمانے پر تحریک انصاف کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے سے انتخابات کی قانونی حیثیت متاثر ہوئی ہے‘ پورا انتخابی عمل داغ دار ہوچکا ہے‘ سابق وفاقی وزیرِخارجہ شاہ محمود قریشی کو پولیس وین میں دھکے دے کر لے جانے کے مناظر پی ٹی آئی کے رہنماؤں پر جاری جبر کی جھلک پیش کرتے ہیں‘ ایسا لگتا ہے کہ گویا 8 فروری کے قریب آتے آتے کریک ڈاؤن میں بھی شدت آجائے گی۔ یہ اس دہشت کی ایک اور مثال ہے جو سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے اختیار کی گئی ہے۔ نواب زادہ افتخار احمد خان نے کہا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ایک وڈیو پیغام میں گرفتاری سے بچنے کے لیے مفرور جمشید دستی نے جو کچھ کہا اس کی تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے ‘ ان انتخابات میں جس طرح سوشل میڈیا کا استعمال ہو رہا ہے اس سے سچ اور جھوٹ میں اب کوئی فرق کرنے کو نہیں مل رہا‘ ایسی وڈیوز آنے سے سچ بھی چھپ کر رہ جاتا ہے اور غیر سنجیدگی کا عمل بڑھ جاتا ہے‘ سیاسی اسٹیج پر ہونے والا تماشا ملک میں سیاسی استحکام نہیں لا سکتا۔ ڈاکٹر صلاح الدین مینگل نے کہا کہ بات صرف پی ٹی آئی کے امیدواروں کی نہیں ہے‘ اختر مینگل سمیت کئی بلوچ سیاست دانوں کے کاغذاتِ نامزدگی بھی معمولی وجوہات کی بنا پر مسترد کر دیے گئے لیکن اختر مینگل کو بعد میں الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی‘ کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کا بنیادی مقصد پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنا ہے‘ ان حالات میں الیکشن ٹریبونلز کی جانب سے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی امید بھی کم ہے۔ ذوالفقار علی شاہ نے کہا کہ اس سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی آزادی اور غیر جانبداری پر سوالات اٹھتے ہیں‘ کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی سے ’بلے‘ کا انتخابی نشان واپس لینے کے فیصلے سے ان الزامات کو تقویت ملتی ہے جو پشاور ہائی کورٹ کے حکم پر واپس مل گیا ہے ‘اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ پتے کس کے ہاتھ میں ہیں۔کسی مخصوص جماعت کو نشانہ بنانے کے اقدامات وفاق کو کمزور کریں گے‘ انتخابی بدانتظامی سے انتخابی نظام کی تباہی کا عمل تیز ہوجائے گا‘ پورا سیاسی نظام اس وقت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اپنے ذاتی مفادات کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلنے میں مسلم لیگ (ن) اور کچھ دیگر مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کا کردار بھی اچھا نہیں ہے۔ شیراز خان نے کہا کہ اقتدار کے کھیل کی ہماری تاریخ کو دیکھتے ہوئے‘ اس سیاست سے کوئی حیران نہیں ہوتا‘ بظاہر اقتدار میں واپسی کی یقین دہانی اور ایک بڑے مدمقابل کے محدود ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی قیادت اب مستقبل کی مخلوط حکومت کی تشکیل میں مصروف ہے لیکن پارٹی نے ملک کو درپیش بہت سے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ابھی تک کوئی ٹھوس منصوبہ پیش نہیں کیا ہے۔ پارٹی کا پورا بیانیہ اس کی ماضی کی کارکردگی کے گرد بنایا گیا ہے۔ عامر رضا نے کہا کہ انتخابات سے قبل ہی سیاسی جماعتوں میں ٹکٹ جس طرح تقسیم کیے گئے ہیں‘ یہ سیاسی جماعتوں کی سطح پر بھی سلیکشن ہوئی ہے اور وہاںکیا معیار دیکھا گیا یہ تو کسی کی سمجھ میں نہیں آیا‘ مسلم لیگ (ن) کے ممکنہ انتخابی امیدواروں کی فہرست میں پرانے چہرے شامل ہیں جن میں شریف خاندان کے افراد کا غلبہ ہے‘ کوئی نیا چہرہ سامنے نہیں آیا جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پارٹی اپنے ماضی سے باہر نہیں آئی ہے اور تبدیلی کی کوئی امید بھی نہیں ہے‘ پارٹی قیادت کے لیے ان نوجوان ووٹرز کو متحرک کرنا انتہائی مشکل ہوگا جو ووٹنگ لسٹ کا تقریباً 65 فیصد ہیں۔ افتخار چودھری نے کہا کہ پی ٹی آئی کی پہلی اور دوسرے درجے کی قیادت کی اکثریت یا تو سلاخوں کے پیچھے ہے یا زیر عتاب ہے اس کے باوجود نوجوانوں میں پی ٹی آئی کی حمایت میں کوئی کمی نظر نہیں آرہی‘ اس کے حامیوں کے خلاف مسلسل کریک ڈاؤن کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے لیکن انتخابی عمل اپنی سیاسی حرکیات پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے نتائج کو مکمل طور پر مینیج کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ ظاہر ہے کہ انتخابی معرکہ کسی پروگرام یا نظریے سے منسلک نہیں بلکہ اقتدار اور جمود کو برقرار رکھنے کے لیے ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ پولنگ میں صرف چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں اور مرکزی دھارے کی جماعتیں ابھی تک عوام میں نہیں گئی ہیں۔ مدثر فیاض چودھری نے کہا کہ ہم نے اب تک جو کچھ دیکھا ہے وہ کچھ عوامی نعرے اور ناقابل حصول وعدے ہیں‘ درحقیقت بڑی سیاسی جماعتوں میں مسائل کی سنگینی کا کوئی ادراک نہیں ہے‘ بگڑتی ہوئی معاشی حالت، بڑھتی ہوئی عدم مساوات، موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات اور آبادی میں اضافے جیسے مسائل ان کی گفتگو میں بھی شامل نہیں ہیں۔ اسرار الحق مشوانی نے کہا کہ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر بات تک نہیں ہو رہی‘ ان سیاسی جماعتوں نے طویل عرصے سے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے معاملات فوج پر چھوڑ رکھے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ملک خود کو ایک جہتی راستے پر پاتا ہے۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ سویلین سیاسی طاقت میں انتشار مزید عدم استحکام کو ہوا دے سکتا ہے‘ اس کے علاوہ ایسا نظام بڑے گورننس اور معاشی مسائل کو حل نہیں کر سکتا‘ یہ دیکھنا باقی ہے کہ انتخابات کے بعد مستقبل کی سویلین انتظامیہ کتنی طاقت حاصل کر سکتی ہے۔طاقت کا کھلا کھیل اور ہیر پھیر کے انتخابات ملک کو مزید دلدل میں دھکیل دیں گے۔ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے ہی صورتحال پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ آنے والے طوفان کی سنگینی کے حوالے سے بہت کم لوگوں کو آگہی ہے۔