مزید خبریں

ایرانی پیٹرول، ڈیزل ، چھالیہ اور گٹکے کی اسمگلنگ میں پولیس کے ملوث ہونے کا انکشاف

 

کراچی (رپورٹ: محمد علی فاروق) ایرانی پیٹرول، ڈیزل، چھالیہ اور گٹکے کی اسمگلنگ میں پولیس افسران کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ شہر قائد میں اسمگل شدہ 20 فیصد سے زائد ڈیزل اور پیٹرول کے استعمال سے حکومت کو کروڑوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ ذرائع کے مطابق حساس اداروں کی جانب سے اعلیٰ حکام کو لکھے گے ایک مراسلے میں کہا گیا ہے کہ کراچی پولیس کے سینئر افسران اپنے ماتحتوں کے ذریعے شہر قائد میں ایرانی پیٹرول، ڈیزل، چھالیہ، گٹکے اور متفرق اشیاء کی اسمگلنگ سے ہر ماہ کروڑوں روپے کمارہے ہیں، اعلی افسران اپنے ماتحتوں کے ذریعے آئل ٹینکر سے فی کس 30 سے 50 ہزار روپے اور مسافر کوچ سے فی کس 10 سے 15 ہزار روپے رشوت وصول کرتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ رپورٹ میں کراچی کے داخلی راستوں پر موجود تمام تھانوں کے ان راشی افسران اور ان کے ماتحتوں کے نام بھی شامل کیے گئے ہیں اور پولیس کے اعلیٰ افسران کے بارے میں مزید لکھا گیا ہے کہ وہ پولیس کے کانسٹیبل اور ہیڈ کانسٹیبل کے ٹرانسفر اور پوسٹنگ پر بھی ہزاروں روپے رشوت وصول کرتے ہیں۔ اعلیٰ افسران نے اپنے علاقوں میں امن و امان کی صورت حال کو کنٹرول میں دکھانے کیلیے بھی اپنے ماتحتوں کو یہ ہدایت جاری کر رکھی ہے کہ وہ اس وقت تک کسی بھی تعزیراتی جرم کا مقدمہ نہ درج کریں جب تک کہ ان سے اجازت نہ لی جائے۔ ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پولیس کی سرپرستی میں کراچی اور بلو چستان میںچلنے وا لی لوکل بسوں اور مسافر کوچز میں لوڈ تیل زبردستی مختلف خفیہ ڈپو پر اتارا جاتا ہے جس کے باعث مسافر گھنٹوں انتظار کرتے ہیں۔ پولیس اور دیگر اداروںکی رشوت وصولی کی وجہ سے لوکل بسیں، کوسٹرز اور مسافر کوچز تیل بردار گاڑیاں بن گئی ہیں، بسوں اور کوسٹرز میں اکثر بچے، خواتین اور بوڑھے، مریض بھی ہوتے ہیں یہ لوگ سفر کے دوران کوچز عملے کے رویے کے باعث پریشانی اور تکالیف کا سامنا کرتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کی تمام تر ذمہ داری پولیس، ڈی سی، کسٹم ایکسائز اور کوسٹ گارڈ پرعاید ہوتی ہے جبکہ اسمگل شدہ پیٹرول، ڈیزل، چھالیہ،گٹکا اور متفرق اشیاء اکثر بلوچستان کے راستے ہی سندھ کے سرحدی علاقوں پر قائم چیک پوسٹوں اور شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر رشوت کے عوض کراچی کے مختلف علاقوں میں فروخت ہوتا ہے۔ مسافر گاڑیوں میں غیر قانونی ایرانی پیٹرولیم مصنوعات اسمگل کرنے کے باعث اس سے پہلے بھی افسوسناک واقعات رونما ہوئے ہیں۔