مزید خبریں

!!صرف سال بدلا ہے‘صورتحال نہیں

پیارے وطن کے لاکھوں باصلاحیت نوجوان 30 سال سے سرکاری محکموں میں یومیہ اجرت پر کام کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی اعلیٰ معیار کے مطابق کام کرنے والے لاکھوں نوجوان اپنی 60 سال کی عمر پوری کرنے کے بعد کم از کم اجرت پر خالی ہاتھ ریٹائر بھی ہو رہے ہیں۔ جب وہ 60 سال مکمل کرنے کے بعد خالی ہاتھ گھر لوٹتے ہیں تو اس کے پورے خاندان پر اثرات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ مزدوروں کے ایسے طبقے کو یونین بنانے کا حق نہیں ہے کہ وہ ریفرنڈم میں صحیح طریقے سے ووٹ دے کر اپنا قانونی حق لے سکیں اور نہ ہی تنظیم کے اندر یونین کو اجازت ہے کہ مزدور اپنے حقوق کی قانونی حدود میں رہ کر زندگی گزار سکیں۔ سماجی اقدار سے کٹے ہوئے یہ ہنرمند نوجوان اپنی آنے والی نسل کو کیا احساس دلائیں گے کہ یہ اپنی جگہ ہے، لیکن یہ محنت کش اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو اپنی آمدنی
بتاتے ہوئے شرم سے سر جھکا لیتے ہیں۔
صنعتی مزدور پوچھتے ہیں کہ کیا 32ہزار روپے ماہانہ میاں بیوی، ان کے بچوں، رہائش، بجلی، گیس اور پانی کے بل، تعلیم، صحت، غم و خوشی میں شرکت وغیرہ کا خرچہ آئے گا؟ کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے ساتھ ساتھ گارمنٹس، بُنائی، سلائی، اسکول، اسپتال اور بنگلوں کا کام کرنے والی لاکھوں محنت کش خواتین۔ ان کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ اگر ہوئی بھی ہے تو وہ کاغذوں میں ہیں۔ ملکی سطح پر مزدور تنظیموں کا وجود ختم ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اداروں میں
نوجوانوں کو ان کی نوکریوں کا یقین نہیں اور پھر ٹھیکے کے نظام کے تحت روزانہ کی بنیاد پر مزدوروں کو رکھا جا رہا ہے۔ 30 سال سے کام کرنے والے مزدوروں کو ان کی اجرت نہیں دی جا رہی۔ ٹریڈ یونینوں اور سیاسی مزدور تنظیموں کے حقیقی باشعور رہنما یا تو ریٹائر ہو چکے ہیں یا وہ اس فانی دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔نئی نسل سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کے بنائے ہوئے کالے قوانین میں جکڑی ہوئی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 25 کے مطابق ملک میں رہنے والے تمام شہریوں کے حقوق قانون کی نظر میں برابر ہیں۔ ایسے شعبوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو تمام تر سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے ملک میں محنت کشوں کے لیے بنائے گئے تمام قوانین پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ محکمہ محنت کا عملہ سرمایہ داروں کے سامنے بے بس نظر آتا ہے۔ اس نے جان بوجھ کر اس اہم محکمے کی ساکھ کو داغدار کیا ہے۔ پرائیویٹ کمپنیوں کی شکایات محکمہ لیبر میں جمع کرائی جا سکتی ہیں۔ لیکن اگر سرکاری اداروں کے اندر قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو کارکنان کس کے سامنے انصاف کا مطالبہ کریں؟ جہاں سرکاری محکموں میں بیٹھے سرکاری افسران عمل نہ کریں وہاں ایسے برے عمل کی چیخیں مزدور طبقہ کس کوسنائیں۔ ہمارے ملک پاکستان خصوصاً سندھ کے محنت کش 1886 کے حالات سے بھی زیادہ بھگت رہے ہیں۔ آج کے ہنرمند کو مزدوری نہیں بلکہ غلامی کی صورتحال کا سامنا ہے۔ دو صدیاں گزرنے کے باوجود 1886 میں مزدوروں کی دی گئی قربانی کا ثمر اکیسویں صدی (2023) میں بھی سندھ کے مزدوروں تک نہیں پہنچا۔ اس لیے صرف سال بدلا ہے، لیکن ہمارے حالات نہیں بدلے۔