مزید خبریں

مسلم دنیا میں مغربی تہذیب کیخلاف مزاحمت نہ ہونیکی وجہ فروعی اختلافات اور سازشیں ہیں

اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) مسلم دنیا میں مغربی تہذیب کے خلاف مزاحمت نہ ہونے کی وجہ فروعی اختلافات اور سازشیں ہیں‘ مغرب معیشت، تعلیم و صحت اور ٹیکنالوجی میں بہت آگے ہے‘ مسلم دنیا پسماندہ اور منتشر ہے ‘ استعمار تجارت سے منافع کماتا اور مسلم حکمرانوں کو زیرِ فرمان لا کر خراج وصول کرتا ہے ‘ غزہ میں اسرائیلی مظالم انتہا کو پہنچ گئے اور مسلم حکمران مفادات اور خوف کی چادر اوڑھے بیٹھے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار سابق سفارت کار اعزاز الدین چودھری، قومی کشمیر کمیٹی کے سابق ڈائریکٹر جنرل نسیم احمد ،کالم نگار عارف رانا ،تجزیہ کار، کالم نگار جاوید الرحمن ترابی اور مسلم کانفرنس یوتھ کے رہنما سردار محمد عثمان خان نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’مسلم دنیا میں مغربی تہذیب کے لیے مزاحمت کیوں موجود نہیں؟ ‘‘اعزاز الدین چودھری نے کہا کہ مسلم دنیا اقوام عالم میں اگرچہ ایک بڑی سیاسی قوت ہے تاہم کمزور معیشت اور باہمی اتحاد نہ ہونے وجہ سے مغربی دنیا سے اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں نہیں ہے‘ مغرب اس وقت معیشت کے میدان میں مسلم دنیا سے بہت آگے ہے‘ اس کا تعلیمی نظام اور صحت عامہ کا نظام بھی بہت بہتر ہے‘ اس لیے ہی بیشتر مسلم دنیا کے لوگ اور حتیٰ کہ حکمران بھی تعلیم اور علاج کے لیے مغرب کا رخ کرتے ہیں‘ مسلم دنیا کو چاہیے کہ وہ اپنے وسائل کا بہترین استعال کرکے سماجی‘ سیاسی اور ایک مضبوط معاشی نظام اپنے اندر پیدا کرے‘ اس کے بغیر مسلم دنیا مغرب کے خلاف کسی قسم کی مزاحمت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی‘ حیرت سے بھری21 ویں صدی کے ایک چوتھائی حصہ مکمل ہونے میں اب صرف ایک ہی سال رہ گیا ہے۔ ہر صدی کا پہلا کوارٹر کئی حوالوں سے بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے جس میں ترقی یافتہ اقوام صدی کے بنیادی تغیرات کو بھانپ کر اپنی اپنی سمت کا تعین کر لیتی ہیں اور پھر اس کی روشنی میں اپنے اہداف کی طرف پیش قدمی ان کا بنیادی مطمع نظر ہوتا ہے‘ اس صدی کی سب سے بڑی اور حیران کن تبدیلی انسانی مشینوں کا مارکیٹ میں آنا ہے جس کے حوالے سے بہت حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہونے جا رہی ہیں جو پچھلی صدی کے لوگوں کے لیے شاید ڈرامائی بھی ہوں اور ناقابل یقین بھی۔ انسانوں کے کرنے کے بیشتر کام اب روبوٹک مشینوں کے سپرد ہونے کو ہیں اور بہت سارے ترقی یافتہ ممالک میں اس کے کامیاب تجربے کے بعد اس پر عملی کام کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ مصنوعی ذہانت (AI) اب ہماری نئی نسل کے ہاتھوں میں آچکی ہے جس کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ اسے ایک طلسم کدہ کا نام ہی دیا جا سکتا ہے جس نے ہماری زندگی، حالات، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو براہ راست چیلنج کر دیا ہے‘ اب کوئی لفظ منہ سے نکالیں اور اس پر چند سیکنڈ میں بنا بنایا مواد آپ کے ہاتھوں میں پہنچ جاتا ہے۔ نسیم احمد نے کہا کہ ہمیں قومی شاعر اقبال کو پڑھنا چاہیے انہوں نے اہلِ مغرب کو ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے اور بتایا کہ اقوامِ مغرب کی چالوں میں اپنے آپ کو کس طرح قید کر لیتی ہیں؟ اقبال کی شاعری میں ہمارے لیے بہت رہنمائی موجود ہے‘ اہلِ مغرب اقوامِ مشرق کو زخم پر زخم لگائے جا رہے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ زخم لگانے والے بھی وہی ہیں، نشتر چلانے والے بھی وہی ہیں اور جس سوئی سے زخم لگاتے ہیں اس سے بھی ہمیں اچھی طرح آگہی ہے۔ ان کے لگائے ہوئے زخموں سے ہمارے بدن چور چور ہیں، ہمارے جسموں سے ان زخموں سے نکلنے والے خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں لیکن کیا قیامت ہے کہ ہم پھر بھی اِن فرنگیوں سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ یہ لوگ ہمارے زخموں کو رفو کر دیں گے اور ان سے خون نکلنا بند ہو جائے گا‘ اقبال یہاں اہلِ فرنگ کی اُس دسیسہ کاری کا پردہ چاک کر رہے ہیں جس کو اقوامِ مغرب نے تجارت اور سوداگری کا نام دے رکھا ہے۔ تجارت اور کامرس بظاہر ایک بے ضرر لین دین کا نام ہے۔ صدیوں سے یہ لین دین اقوامِ عالم کا ایک معمول ہے لیکن فرنگیوں نے اس تجارت کے پردے میں اقوامِ مشرق کے جسم پر جو زخم لگائے ہیں وہ بہت گہرے اور ہولناک ہیں‘ یہ لوگ تجارت سے منافع کماتے ہیں اور اس طرح مقامی حکمرانوں کو زیرِ فرمان لا کر ان سے خراج وصول کرتے ہیں‘ برطانوی تاجر جو 17 ویں صدی میں گوا کے ساحل پر اترے اور بظاہر گرم مصالحے کی تجارت سے کاروبار شروع کیا، وہ آہستہ آہستہ سارے ہندوستان پر قابض ہو گئے۔ سوداگر سے حکمران بننے کے اس حربے کو نہ صرف برصغیر میں بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی آزمایا گیا اور اہل یورپ نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی نوآبادیات کا وہ نظام وضع کیا جس کی باقیات آج بھی کئی ملکوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ عارف رانا نے کہا کہ ہمارے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر پاکستان کے نقطہ نظر کو اجاگر کرتے ہوئے امت مسلمہ کو درپیش اسلامو فوبیا جیسے پیچیدہ مسائل سے نمٹنے کے لیے او آئی سی کے پلیٹ فارم پر اجتماعی طور پر کاوشیں بروئے کار لانے کی ضرورت پر زور دیا ہے وزیراعظم نے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقی خطے کے مسلم ممالک کے سفیروں سے ظہرانے پر ملاقات کی۔ اس ظہرانے میں بحرین‘ مصر‘ عراق‘ اردن‘ کویت‘ لبنان‘ لیبیا‘ مراکش‘ عمان‘ فلسطین‘ سعودی عرب‘ شام‘ متحدہ عرب امارات اور یمن کے سفرا شریک ہوئے۔ وزیراعظم کاکڑ نے اس امر پر زور دیا کہ برادر مسلم ممالک کو مسلم امہ کو درپیش مسائل اجتماعی فہم و بصیرت کے ساتھ اپنے اپنے نمائندہ فورموں پر حل کرنے کی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔ جاوید الرحمن ترابی نے کہا کہ مسلم دنیا قدرت کے ودیعت کردہ وسائل سے بھی مالا مال ہے اور الحادی قوتوں کے مقابل اپنے دفاع کا ہر تقاضا نبھانے کی بھی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر مسلم دنیا کے تمام ممالک اجتماعی طور پر ایک دوسرے کے مفاد و دفاع کے لیے اپنی صلاحیت اور وسائل کو بروئے کار لائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کے آگے ٹھہر نہیں سکتی جبکہ اتحاد و یکجہتی کے ساتھ مسلم دنیا اقوام عالم میں ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھر سکتی ہے۔ اسلام دشمن الحادی قوتوں کو یقیناً اس حقیقت کا مکمل ادراک ہے اس لیے وہ مسلم دنیا کا اتحاد توڑنے اور اسے انتشار کا شکار کرنے کی سازشوں میں ہمہ وقت مصروف رہتی ہیں جبکہ مختلف فروعی اختلافات کے باعث مسلم ممالک خود بھی باہم الجھے اور ایک دوسرے سے برسر پیکار رہتے ہیں۔ ہماری ان کمزوریوں سے ہی الحادی قوتوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے چنانچہ وسائل سے مالا مال اور دفاعی صلاحیتوں میں یکتائے روزگار ہونے کے باوجود الحادی قوتیں مسلم دنیا کو اپنے زیرنگیں کرنے اور اپنی پالیسیاں ڈکٹیٹ کرانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں اور مسلم ممالک اپنے ہی وسائل ان کے پاس گروی رکھ کر اپنی ترقی کے سفر میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کشمیر اور فلسطین کے دیرینہ مسائل کا اب تک حل نہ ہونا مسلم دنیا کی کمزوریوں کا ہی عکاس ہے۔ یہ دونوں مسائل 7 دہائی قبل امریکا‘ برطانیہ‘ جرمنی اور ان کے اتحادی مغربی دنیا کے دوسرے ممالک نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے سے روکنے کے لیے ہی پیدا کیے تھے۔ محمد عثمان خان نے کہا کہ مسلمانوں کے خون کی ارزانی مسلم دنیا کے باہمی اختلافات کی وجہ سے ہے اس لیے مسلم دنیا میں مزاحمت نہیں رہی‘ مسلم دنیا کی باہمی چپقلشوں کے باعث ہی الحادی قوتوں کو مسلم ممالک بالخصوص پاکستان پر دہشت گرد ہونے کا لیبل لگانے اور مسلم دنیا کے خلافاسلامو فوبیا کو بھڑکانے کا موقع ملا ہے جو اسی کی آڑ میں توہین قرآن و رسالت سے بھی گریز نہیں کرتے اور اپنی صفوں میں بھی اتحاد قائم رکھتے ہیں۔ مسلم دنیا بے شک متحد ہو کر ہی ان آزمائشوں کا سامنا اور توڑسکتی ہے جس کے لیے مسلم دنیا کے پاس بھرپور وسائل بھی موجود ہیں مگر بدقسمتی سے مسلم دنیا او آئی سی‘ عرب لیگ اور اپنے دوسرے فورموں پر سوائے مذمتی قراردادوں‘ بیانات اور سوائے گفتند‘ نشستند‘ خوردن برخاستند کے اور کوئی بھی عملی قدم نہیں اٹھا پاتی۔ مسلم دنیا کے ساتھ چین اور روس جیسے طاقتور ملک بھی اسرائیل کے توسیع پسندانہ اقدام اور جارحیت کے سامنے پُل باندھنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ امریکا، برطانیہ اور اُس کے اتحادیوں کی اسرائیلی اقدامات کی بے جا حمایت اور مکمل پشت پناہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے آرٹیکل99 کے تحت ملنے والے حق کا استعمال حالات کی سنگینی کا عندیہ دے رہا ہے‘ بہتر ہو گا کہ امریکا اور اُس کے اتحادی عالمی امن میں ’’وِلن‘‘ کا کردار ادا کرنے کے بجائے غیر جانبداری کا مظاہر ہ کریں، اسرائیل اِس جنگ کو فلسطین کی سرحد سے نکال کر دوسرے ممالک تک پھیلانا چاہتا ہے۔ لبنان کے دارالحکومت بیروت پر بے دھڑک حملہ اِس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسرائیل کسی قسم کے بین الاقوامی دباؤ کو خاطر میں لانے پر تیار نہیں ہے، دنیا کو اپنے قدموں تلے روندنے کی خواہش میں مبتلا ہے۔ایسے وقت میں اسلامی ممالک مصلحت، مفادات اور خوف کی چادر اوڑھے بیٹھے ہیں، مذمت تو ہر کوئی کر رہا ہے لیکن عملی اقدامات کا فقدان ہے۔