مزید خبریں

ایف پی سی سی آئی میں یو بی جی اور ملکی معیشت

یونائٹیڈ بزنس گروپ کے نوجوان رہنما مومن علی ملک نے کہا ہے کہ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے انتخابات میں یو بی جی اور بی ایم پی پروگریسیو الائنس کی کامیابی نے ثابت کردیا ہے کہ ایس ایم منیر اور افتخارعلی ملک کی قیادت میں مسلسل 5سال یو بی جی سے منتخب عہدیداران نے بزنس کمیونٹی کی بے مثال خدمت کی انکے مسائل حل کرائے ہیں ،اب جبکہ الیکشن ہوچکے ہیں اور یو بی جی نے ایک بار پھر بھرپور کامیابی حاصل کرلی ہے تو ہمیں تمام تر اختلافات کو بھول کرایف پی سی سی آئی کی مضبوطی کیلئے کام کرنا ہوگا
یو جی بی ایک طویل عرصے فیڈریشن میں اپنا کر دار ادا کر ہی ہے ۔اس بات میں بھی کو ئی دوسری رائے نہیں ہے کہ مشترکہ جدوجہد کے ذریعہ ایف پی سی سی آئی کو دنیا کی ایک مضبوط تجارتی انجمن کے طور پر دوبارہ سامنے لانا ہوگا۔ یو بی جی اور بی ایم پی پی الائنس کے امیدواروں ی100 سے زائد ووٹوں کی سبقت سے کامیابی فیڈریشن میں ایک تاریخی فتح ہے ۔ لیکن اب تاجروں کے سب بڑے فیڈریشن ہاؤس ی اولین ترجیح ملک کی ترقی کیلئے مشترکہ کام کرنااورملکی معیشت کو مضبوط بنانا ہے،ہم حکومت وقت کو مثبت تجاویز دے کر ملکی تجارت وصنعت کیلئے آسانیاں مہیا کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔
سال 2023 میں روپیہ ایک ڈالر کے مقابلے میں 56 روپے تک گرا۔ اس صورتحال کے باوجود ۔2023 ء میں ہوش ربا ٹیکسوں نے عوام اور بزنس کمیونٹی کی کمر توڑکر رکھ دی۔2023 ء میں بجلی اور گیس کے نرخ نے کاروبار کرنے کی لاگت کے بنیادی فرق کو ہی ہلا کر رکھ دیا۔جون 2024 کو ختم ہونے والے رواں مالی سال میں پاکستان کی معیشت کی شرح نمو صرف 2.1 فیصد رہنے کی توقع ہے معاشی ترقی کے لئے ملکی مصنوعات کا فروغ ناگزیر ہے ۔حکومت کو 2024 میں آئی ایم ایف پروگرام سے گریز کرنا چائیے ورنہ مزید مہنگائی ہوگی؛ ملکی خرچہ 14 ہزار ارب جبکہ آمدن 8 ہزار ارب کے قریب جس میں توازن لانے کی ضرورت۔ SIFC کو 2024 میں مزید جدت اور ٹیکس نظام میں شفافیت کی ضرورت ہے۔2024 ء میں ملکی برآمدات 50 ارب ڈالر پر لے کر جانا ہوگا۔پی بی ایف نے واضح کر دیا کہ بجلی کا موجودہ ٹیرف کم کرنا پڑے گا ورنہ معاشرے میں مزید بگاڑ پیدا ہوگا۔ 2024 پاکستان کی مالیاتی بہتری کا امتحان ہوگا روپے کی قدر کو 250 پر فکس کرنا پڑے گا، عام انتخابات کے بعد آنے والی حکومت عوام کو ریلیف دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی؛ 2024 میں نجکاری کے عمل کو تیز کرنا پڑے گا، کارپوریشنز چلانا حکومت کا کام نہیں۔ نو منتخب صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام معیشت کے حوالے سے قومی سطح پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے میں اپنا موثر کردار ادا کریں گے۔

پاکستان ایک زرعت سے مالامال ملک ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک میں یوریااور ڈی اے پی کھادکی کھپت میں دسمبر کے دوران سالانہ بنیادوں پر کمی کا سلسلہ جاری ہے۔ انڈسٹری اور عارف حبیب ریسرچ کے اعدادوشمارکے مطابق دسمبر 2023میں ملک میں 628000 ٹن یوریا کی کھپت ریکارڈکی گئی جودسمبر2022 کے مقابلہ میں 25فیصد کم ہے۔ دسمبر 2022 میں ملک میں 833000 ٹن یوریاکی کھپ ریکارڈکی گئی تھی۔کیلنڈر سال 2023 میں ملک میں 6642000 ٹن یوریا کی کھپت ریکارڈکی گئی جو سال 2022 میں 6616000 ٹن تھی۔اعدادوشمار کے مطابق اسی طرح دسمبر 2023 میں ملک میں 137000 ٹن ڈی اے پی کی کھپت ریکارڈکی گئی جو دسمبر 2022 کیمقابلہ میں 13 فیصد کم ہے۔ دسمبر 2022 میں ملک میں 158000 ٹن ڈی اے پی کھاد کی کھپت ریکارڈ کی گئی۔ کیلنڈر سال 2023 میں ملک میں 1575000 ٹن ڈی اے پی کھاد کی کھپت ریکارڈکی گئی جو کیلنڈر سال 2022کے مقابلہ میں 31 فیصد زیادہ ہے۔ کیلنڈر سال 2022 میں ملک میں 1206000 ٹن ڈی اے پی کی کھپت ریکارڈکی گئی تھی۔ سال 2023 میں 335000 ٹن ڈی اے پی کھاد کی درآمد ریکارڈکی گئی جو سال 2022 کیمقابلہ میں 67 فیصد زیادہ ہے۔ سال 2022 میں 201000 ٹن ڈی اے پی کی درآمد ریکارڈکی گئی تھی۔ ملک میں ہر سال ایسا ہی ہو تا ہے لیکن کھاد بنانے والی فیکٹریوں سے کو ئی پوچھنے والا نہیں ہے
نگران وزیر تجارت گوہر اعجاز کا کہنا ہے کہ بہت جلد برآمدات کو ماہانہ 3 ارب ڈالرز تک بڑھائیں گے لیکن یہ کیسے ہو گا اس بارے میں تفصیلات نہیں بتا رہے ہیں ۔ ملکی برآمدات کو ماہانہ 8 ارب ڈالرز تک پہنچانا اگلا ہدف ہے۔ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ برآمدات میں دسمبر 2022 کے مقابلے میں 22 فیصد اضافہ ہوا۔وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے تجارتی اعداد و شمار جاری کرنے کے بعد گوہر اعجاز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کی برآمدات میں اضافہ جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ دسمبر 2023 میں برآمدات 2 ارب 80 کروڑ ڈالرز سے تجاوز کر گئیں۔ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ برآمدات میں دسمبر 2022 کے مقابلے میں 22 فیصد اضافہ ہوا جبکہ دسمبر 2023 میں تجارتی خسارے میں 40 فیصد کمی ہوئی ہے۔نگران وزیر تجارت نے کہا کہ بہت جلد برآمدات کو ماہانہ 3 ارب ڈالرز تک بڑھائیں گے، ملکی برآمدات کو ماہانہ 8 ارب ڈالرز تک پہنچانا اگلا ہدف ہے اور اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کے تحت نئی صنعتی پالیسی کے ذریعے برآمدات کے اہداف حاصل کریں گے۔
نئے سال میں مہنگائی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور شرح سود میں کمی جبکہ کاروبار، روزگاراور جی ڈی پی میں اضافے کا امکان ہے۔ اگر الیکشن شفاف ہوئے تو سیاسی درجہ حرارت میں کمی آئے گی اور اگر غیر شفاف رہے تو سیاسی عدم استحکام جاری رہے گا اور نئی حکومت اصلاحات پرعمل درآمد کرنے سے قاصررہے گی۔ اس سال کے دوران علاقائی کشیدگی، موسمیاتی تبدیلی، اشیائے خوردونوش اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کا امکان بھی موجود ہے جس سے معاشی استحکام کی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پالیسی سازوں کو اکنامک ریکوری کی کوششوں کو تیزکرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام اور کاروباری برادری کے مسائل کم ہوسکیں۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ گزشتہ سال پاکستان کو اسکی تاریخ کے مشکل ترین حالات سے گزرنا پڑا اور مسائل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا جس سے نمٹنے کے لئے آئی ایم ایف اور دوست ممالک کے قرضوں اور اندرون ملک توانائی کی قیمتوں میں زبردست اضافے سے مدد لی گئی تاہم اس سلسلے کو مزید جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے کیونکہ پاکستان کے صنعت کاروں کی کاروباری لاگت میں بے تحاشہ اضافہ ہونے کے باعث وہ عالمی منڈی میں مسابقت سے محروم ہو گئے ہیں۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ ملکی مستقبل کا فیصلہ یہ بات کرے گی کہ حکمرانوں نے ماضی کے تجربات سے کچھ سیکھنے کی کوشش کی ہے یا نہیں کیونکہ اگر انھوں نے اپنا سابقہ طریقہ کار جاری رکھا تو پھر معاشی استحکام ایک خواب بن جائے گا۔ سال رواں کے دوران الیکشن کے علاوہ آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لینا بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا جس کے لئے بھرپور کوششوں اور نظر آنے والی اصلاحات پر عمل درامد کی ضرورت ہوگی جس کے بعد ہی آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں سے قرضے لینے کی راہ ہموار ہوسکے گی۔ ان قرضوں کے بغیر ماضی کے قرضوں کی ادائیگی اور دیگرادائیگیاں ناممکن ہونگی جبکہ درآمدات بہت مشکل ہوجائیں گی۔ اگر سیاستدانوں نے سمجھداری کا ثبوت دیا تو مالی ادارہ جاتی، ٹیکس اور دیگر اصلاحات ممکن ہونگی اور گورننس بہتر بنائی جا سکے گی جس سے ملکی حالت بہتر ہوجائے گی مگر اگر انھوں نے وہی کیا جو ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں تو ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔ اس بار نئی حکومت کو میرٹ پر فیصلے کرنا ہونگے اور معیشت کو سیاست سے الگ رکھنا ہوگا۔
کورنگی ایسو سی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کی قائم مقام صدر نگہت اعوان اور قائم مقام نائب صدر مسلم محمدی نے کووڈ انکریمنٹل پیکج سبسڈی کی ادائیگی میں تاخیر سے صنعتوں کو درپیش مشکلات پر تشویش کا اظہار کیا۔ نگران وفاقی وزیر برائے توانائی محمد علی کو تحریر کردہ خط میں ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے صنعتی شعبے کے لیے اضافی پیکج سبسڈی کا اجرا تاحال تاخیر کا شکار ہے۔ جو صنعتی شعبہ کیلئے مالی مشکلات کا باعث بن رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر صنعتیں بند ہونے کا امکان ہے۔انہوں نے کہا کہ دیگر شعبوں کو اس سبسڈی کی فراہمی کے باوجود کراچی کی صنعتوں کو مشکل مالیاتی صورتحال میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ کے الیکٹرک کو بھی منظوری کے باوجود تاحال سبسڈی جاری نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ متعدد کوششوں کے باوجود ان اہم فنڈز کے اجراء￿ کی طرف پیش رفت نہیں دیکھی۔نگہت اعوان نے کہا کہ اس سبسڈی کی مسلسل عدم موجودگی سے کراچی کی بہت سی صنعتوں کی بقاء￿ کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ صنعتی بندش کے درپیش خطرے کو روکنے کے لیے کووڈ انکریمنٹل پیکج سبسڈی کا فوری اجراء￿ اب ناگزیر ہے۔ جس کا مقامی معیشت اور روزگار پر گہرا اثر پڑے گا۔قائم مقام صدر نے وفاقی وزیر توانائی سے درخواست کی کہ صورتحال کی عجلت کو دیکھتے ہوئے اس سبسڈی کو جاری کرنے کے لیے فوری اور فیصلہ کن کارروائی کی جائے۔ یہ اقدام نہ صرف صنعتوں کے مالی استحکام کے لیے ضروری ہے بلکہ کراچی میں ممکنہ معاشی بدحالی کو روکنے کے لیے بھی اہم ہے۔