مزید خبریں

بھارتی انتخابات میں بی جے پی کی پوزیشن مضبوط ہے،اپوزیشن جماعتوں میں اتحاد کا فقدان ہے

کراچی (رپورٹ\ محمد علی فاروق) بھارتی انتخابات میں بی جے پی کی پوزیشن مضبوط ہے‘ اپوزیشن جماعتوں میںاتحادکا فقدان ہے‘ بی جے پی انتخابات میں اپنی کامیابی کے لیے زرد صحافت، ریاستی اداروں کو استعمال کرتی ہے‘ سوشل میڈیا پر مودی کو اوتار کی طرح پیش کیا جاتا ہے‘ بالا کوٹ جیسا ڈراما دہرایا جا سکتا ہے‘ اپوزیشن اتحاد سیٹ شیرنگ پر آمادہ ہوجائے تو بی جے پی سے مقابلہ ممکن ہے‘ جنوبی بھارت کی پارٹیاں حکمراں جماعت کے لیے سر درد ہیں۔ان خیالا ت کا اظہار برطانیہ میں مقیم معروف بھارتی دانشور فہیم اختر، جامعہ کراچی شعبہ سیاسیات کی چیئر پرسن پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ سعید اور معروف تجزیہ کار ڈاکٹر سید نواز الہدیٰ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’ کیا بھارت میں حزب اختلاف کی جماعتوں کا اتحاد بی جے پی کو شکست دے سکتا ہے؟‘‘ فہیم اختر نے کہا کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ بھارت میں حزب اختلاف کی جماعتوں کا اتحاد بی جے پی کو شکست دے سکتا‘ بی جے پی کے خلاف اتحاد کی ان کوششوں کے درمیان اس بات پر شکوک و شبہات ہیں کہ2 درجن سے زاید جماعتوں کے درمیان آپس میں بہت سے امور پر اختلافات ہیں اور ماضی میں یہ سب ایک دوسرے کی سخت حریف بھی رہ چکی ہیں‘ بھارت کی سیاست میں مقامی طور پر یوتھ بی جے پی کے ساتھ ہے جو بی جے پی کی طاقت ہے جبکہ حزب اختلاف کی جماعتیں آئندہ عام انتخابات میں ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بی جے پی سے مقابلہ کرنے کی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے اجلاس کر رہی ہیں‘ دیکھنا یہ ہے کہ عام انتخابات میں حزب اختلاف کتنی سیٹیں جیت سکتی ہے اور اس کا اثر کہاں تک ہوگا مجھے لگتا ہے کہ اگر حزب اختلافات سیٹ شیرنگ پر آمادہ ہوجاتی ہے تو پھر بی جے پی کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ڈاکٹر ثمینہ سعید نے کہا کہ بھارت 15اگست 1947ء کو ایک آزاد جمہوری ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرا‘ اس کے شہر یوں کو ووٹ کے ذریعے اپنے پارلیمانی نمائندوں کو منتخب کرنے کا حق دیا گیا‘ یعنی 26 جنوری 1955ء کو آئین نافذ کر کے قطع نظر ذات پات، رنگ و نسل، مذہب اور جنس کے سب کو حق رائے دہی کا اختیار دیا گیا‘ ووٹ کے حق کو استعمال کرتے ہوئے ایک جمہوری خود مختار ریاست بنانے کا اعلان کیا گیا‘ بھارت میں بالترتیب دفاقی اور ریاستی سطح پر ویسٹ منسٹر سسٹم کی طرز پر پارلیمانی نظام حکومت قائم کرکے عوام کو صدر اور وزیراعظم منتخب کرنے کا بھی اختیار دیا گیا‘ بھارت میں پائیدار جمہوری آزادی دنیا کی آزاد ریاستوں میں منفرد تھی‘ بھارت پہلے ایک لبرل ملک کے طور پر دنیا میں جانا جاتا تھا مگر جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے تب سے ہندو ازم بہت زیادہ بڑھتا دکھائی دیتا ہے‘ ہندو انتہا پسند کی جانب سے دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف کارروائیاں بڑھ رہی ہیں‘ خاص طور پر مسلمان اور عیسائی ان کے نشانے پر ہیں‘ مسلمان اگرچہ اقلیت میں ہیں مگر اب بھی ان کا ایک بڑا ووٹ بینک ہے جو کسی بھی جماعت یا اتحاد کو جتوا سکتا ہے‘ اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں حریت پسند رہنمائوں اور کارکنان کے خلاف انتہائی ظالمانہ کارروائیاں کی جا رہی ہیں جبکہ بھارت میں دیگر مسائل کی وجہ سے بھی بہت سی جماعتیں اور عام لوگ بی جے پی سے متنفر ہوگئے ہیں‘ اگرچہ یہ جماعت اب بھی ہندو ازم قائم کرنے کی کوشش کی وجہ سے قوت رکھتی ہے مگر عوام میں اس کے خلاف نفرت دکھائی دیتی ہے چنانچہ حزب اختلاف کی پارٹیوں نے ملکر ایک انڈیا کے نام سے اتحاد بنایا ہے جو اتحاد آنے والے نئے انتخابات میں بی جے پی کو ٹف ٹائم دینے کا اظہار کرتا ہے‘ بھارتی حزب اختلاف کو موجودہ انتخابی صورتحال میں بی جے پی کو ہرانے کے لیے کئی محازوں پر کام کر نے کی ضرورت ہے‘ کسی بھی پارٹی کی پہچان انتخابات میں صرف اس کی کارکردگی پر ہو تی ہے ناکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ کسی اور تسلیم شدہ جماعت یا گروہ کا حصہ ہے‘ اپوزیشن اتحاد کو بی جے پی حکومت سے چھٹکارا پانے کے لیے ایک منفرد چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا‘ اس کے لیے اتحاد میں شامل جماعتوں کو آپس میں چھوٹے چھوٹے اختلافات بھلا کر اتفاق وحدت، یگا نگت، سیاسی طاقت، سیاسی معاملات پر نظر رکھتے ہوئے سیاسی بصیرت سے کام لینا ہوگا اور عوامی امنگوں کے مطابق ان کی بہبود کے لیے منصوبہ بندی کو عوام کے سامنے پیش کرنا ہوگا جو اس اتحاد کے لیے عوامی مینڈیٹ کو زیادہ سے زیادہ بڑھا سکے‘ اسے ریاستی، ریجنل اور ڈسٹرک لیول پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہوگی‘ اپوزیشن اتحاد کو بی جے پی امیدواروں کے مقابلے میں اپنے ایسے امیدواروں کو سامنے لانا ہوگا جو عوام میں نہ صرف مقبول ہوں بلکہ وہ حقیقی معنوں میں عوامی بھلائی کے کاموں میں دلچسپی لینے کا جذبہ اور حوصلہ بھی رکھتے ہوں‘ اپوزیشن اتحاد کو ایک کامن مینو فیسٹو پر کام کرتے ہوئے اقتصادی اور کرپشن کے معاملات سے متعلق ترجیحی بنیادوں پر پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے‘ نیز اپنے نظریات میں شدت پسندی کے بڑھتے رجحانات کو قومی اور علاقائی سطح پر ختم کرنے کے لیے اپنی حکمت عملی وضع کر کے انتخابات سے پہلے عوام کے سامنے لانا ہوگی‘ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہیں آپس میں عہد بھی کرنا ہوگا کہ ان کا مقصد انتخابات میں صرف بی جے پی کو ہرانا ہے اور ہم عوام اور ملک کے بہترین مستقبل کے لیے متحد ہوئے ہیں‘ اگر حزب اختلاف میں شامل تمام جماعتیں اسی منشور پر کام کرتے ہوئے آگے بڑھیں گی تو یقینا کامیابی ان ہی کی ہوگی۔ سید نواز الہدیٰ نے کہا کہ بھارتی انتخابات 2024ء میں بی جے پی کی پوزیشن بہتر نظر آرہی ہے‘ اصل سوال یہ بنتا ہے کہ 2019ء میں حاصل ہونے والی سیٹوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے یا کم جائے گی‘ سوشل میڈیا نے پچھلے 15 سال سے انتخابات پر بہت زیادہ اثر ڈالاہے‘ برصغیرمیں اندھی تقلیدکا ثقافتی ورثہ ہے‘ بی جی پی نے اپنے انتہا پسند نظریات میں اس کو بھرپور طور پر استعمال کیا ہے‘ جھوٹے خواب کو پروپیگنڈا کے ذریعے اس حد تک پھیلایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کے جال میں جکڑے نئی اور پرانی نسل کو مودی ایک اوتار کی طرح نظر آتا ہے‘ بھارتی آئین کو سیکیولر، لبرل لبادہ اوڑھ کر چل رہا تھا‘ مودی نے اس لبادے کو اٹھا کر باہر پھینک دیا ہے‘ انتہا پسند بے لگام ہوچکے‘ کانگریس اور دوسری جماعتوں کا 28 رکنی اتحاد آپس میں بھروسے کے فقدان کا شکار ہے‘کسی بھی ملک کی ترقی کا اصل عکس وہاں آباد لوگوں کی خوشحالی سے لگایا جاتا ہے‘ خوشحالی کا تعلق فراخدلی کے ساتھ انتہائی گہرا ہوتا ہے‘ سوشل میڈیا پر پیڈ یوٹیوبرز اور مین اسٹریم میڈیا کی زرد صحافت بی جی پی کے طاقتور ہتھیار ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ غربت کی چکی میں پسی عوام کو نظر انداز کرکے اشرافیہ کی نمائش کے ذریعے ترقی کا جھوٹا ڈھنڈورا پیٹنے کا کام زرد صحافت کے کرداروں کے ذریعے اپنے انتہا پر ہے‘ مزید برآں بی جی پی کا اپنی مخالف پارٹیوں کے خلاف ریاستی اداروں کا استعمال اس کی سیاسی قوت کا سبب ہے کیونکہ اس کے ذریعے اپوزیشن اتحاد کو پریشان کن حالات میں مبتلا کیا جا رہا ہے‘ بی جے پی کی انتہا پسند نظریات کی حامل ریاستوں میں اس کی انتخابی کامیابی کا تناسب اپنے عروج پر ہے مگر اس کے ساتھ جنوبی بھارت کی پارٹیاں بی جی پی کی پریشانی کا سبب ہیں جس کے لیے بی جے پی مختلف چالیں چل رہی ہے‘ اس کے ساتھ پاکستان کے ساتھ بالا کوٹ جیسا کوئی ڈراما دوبارہ دہرا جا سکتا ہے کیونکہ بی جی پی کی حکمت عملی میں کچھ بھی ممکن ہے‘ دنیا کے حالات غیر یقینی کا شکار ہیں‘ فلسطین پر جاری مسلط جنگ جس میں یمن کسی حد تک ملوث ہوتا نظر آرہا ہے‘ اس کے پھیلائو سے بی جی پی کی عوامی حمایت میں کمی واقع ہوسکتی ہے‘ اس وقت فلسطین پر انسانیت سوز مظالم کی وجہ سے امریکی اور یورپی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ تسلسل کے ساتھ جاری ہے‘ مڈل ایسٹ کی عوام نے بھارت کی جانب سے اسرائیل کی جانبدارانہ حمایت میں مسلم دشمنی کا پہلو نکال لیا تو ذریعہ معاش کے لیے وہاں آئے بھارتی لیبر فورس کا بھی بائیکاٹ ہوسکتا ہے جس سے بھارتی معیشت کی اصل حقیقت واضح ہوجائے گی‘ جس کے نتیجے میں بھارتی اپوزیشن اتحاد بی جے پی کے مقابلے میں بہتر پوزیشن میں آسکتا ہے۔