مزید خبریں

دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے پشتیبان

قاضی حسین احمد‘ ان تھک‘ سراپا حرکت‘ متحرک‘ جرائت مند‘ کروڑوں مسلمانوں کے محبوب اور ہر دل عزیز قائد‘ ایک نہائت شفیق بزرگ‘ ملت اسلامیہ کے عظیم المرتبت راہنماء‘ امت مسلمہ کے مخلص ہمدرد اور کشمیر‘ فلسطین‘ شیشان‘ بوسنیا‘ اور دنیا بھر میں اسلامی جہاد کے پشتی بان تھے‘ افغان جہاد کے آغاز سے روسی کی بدترین شکست کے بعد واپسی تک‘ جہاد افغانستان کے پشتی بان رہے‘ زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ میں آئے اور بعد میں جماعت اسلامی کے قافلہ راہ حق کا حصہ بنے‘1987 میں انہیں جماعت اسلامی پاکستان کا امیر منتخب کیا گیا اور2009 تک امارت کی ذمہ داری نبھاتے رہے‘ اس وقت شوری کی جانب سے جماعت اسلامی کے ارکان کی راہنمائی کے لیے تین نام دیے گئے تھے‘ جن میں جناب پروفیسر خوڑشید احمد‘ مولانا جان محمد عباسی اور قاضی حسین احمد کے نام شامل تھے‘ ارکان جمات نے قاضی حسین احمد کو جماعت اسلامی پاکستان کا امیر منتخب کیا‘ پوری زندگی اعلائے کلمتہ للہ‘ اور فریضہ حق کی ادائیگی میں صرف کی‘ بائیس سال تک جمات اسلامی پاکستان کے امیر رہے‘

گھٹنوں کی تکلیف کے باعث ذمہ داری سے معذرت کی‘ زندگی کی آخری سانس تک دعوت الی اللہ کا کام کرتے رہے‘1989 میں جب مقبوضہ کشمیر میں جہاد شروع ہوا‘ تو مجاہدین کے پشتی بان بنے اور جنوری1990 میں اہل اسلام اور ملت پاکستان سے اپیل کی کہ پانف فروری کو کشمیری مجاہدین کے ساتھ یک جہتی کے لیے یوم یک جہتی کشمیر منایا جائے‘ زامانہ بدل گیا‘ حالات بدل گئے ‘ کئی حکومتیں آئیں اور گئیں مگر یہ روائت آج تک جاری ہے‘ بوسنیا گئے‘ اماددی سامان متاثرہ مسلم گھرانوں اور افراد میں تقسیم کیا‘ فلسطین‘ کشمیر اور بوسنیا اور جہاں جہاں بھی مسلمان پریشان کن زندگی گزار رہے تھے ان سب کے لیے انہوں نے مسلم دنیا اور اقوام عالم کے ہر چھوٹے بڑے ملکوں میں گئے‘ رائے عامہ ہموار کی اور یوں جہاد اسلامی میں صروف قوتوں کے لیے قوت اور طاقت بنے‘ یہ غالباً 1988 کی بات ہے‘ جنرل ضیاء الحق محمود خان جونیجو کی حکومت برطرف کرچکے تھے‘ انہیں ’’کسی‘‘ نے اطلاع دی کہ انتخابات میں ملک کی دو بڑی اپوزیشن باہم حریف جماعتیں‘ جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی سیاسی اتحاد کر سکتی ہیں‘ اس طلاع پر جنرل ضیاء الہق پریشن ہوگئے اور انہوں نے اپنے ہم خیال قلم کاروں کی خدمات لیں اور اس متوقع یا ممکنہ اتحاد کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنا شروع کی اور خوب پیسہ بانٹا‘ یہ رقم کس کس کو ملی اس کی تفصیلات اگرچہ معلوم ہیں تاہم یہ موقع نہیں ہے کہ اس کا یہاں اظہار کیا جائے‘

بہر حال جس طرح یہ اطلاع غلط تھی اسی طرح جنرل ضیاء الحق کی مہم بھی صرف پیسہ بنائو مہم سے ذیادہ اور کچھ ثابت نہ ہوئی‘ اس مہم کا سیاسی جماعتوں میں جماعت اسلامی اور ذرائع ابلاغ کے میدان میں جسارت نشانہ بنا‘ جب1978 میں پاکستان قومی اتحاد نے ضیاء کابینہ میں جانے کا فیصلہ کیا تھا تو اس وقت جماعت اسلامی کی جانب سے جو نام دیے گئے ان میں قاضی حسین احمد‘ چوہدری رحمت الہی اور پرفسیر غفور احمد کے نام تھے لیکن ضیاء الحق نے افغانستان میں قاضی حسین احمد کی مصروفیت کے باعث کسی دوسرے نام پر اصرار کیا‘ یوں محمود اعظم فاروقی کابینہ کا حصہ بنے‘ ضیاء الحق نے کابینہ بن جانے کے کوئی دو ہفتے کے بعد جناب پروفیسر خورشید احمد کی پلاننگ ڈویژن میں ڈپٹی چیئرمین کے لیے خدمات لیں‘ قاضی حسین احمد‘ پاکستان میں ایک اسلامی اسلامی انقلاب پربا کرنا چہتے تھے جس میں ہر شعبہ زندگی کو اسٹیک ہولڈر بن کر اس کے ساتھ چلنا تھا اور اس راستے کی طاقت بننا تھا‘ اسی وجہ سے انہوں نے پاسبان بنائی‘ اسلامک فرنٹ تشکیل دیا‘ یہ دونوں تجربات آج بھی تجزیہ کے قابل ہیں اور انہیں یکا یک مسترد نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس میں سے بہتری کے لیے نئی راہ تلاش کی جاسکتی ہے‘ قاضی حسین احمد بلاشبہ ایک جرائت مند راہنماء تھے‘ نڈر اور بے باک سیاسی لیڈر تھے‘ ان کی بصیرت کے اپنے اور بیگانے بھی قائل تھے‘ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ شریف خاندان میں‘ شریف خاندان کے سربراہ میاں محمد شریف کی زندگی جب مشترکہ کاروبار کے حصہ الگ الگ کرنے کا تنازعہ اٹھا تو میاں شریف اور ان کے تمام بھائیوں نے قاضی حسین احمد کو ہی اپنا مشترکہ ثالث مقر ر کیا تھا‘ اور انہوں نے ہی شریف خاندان کے کاروبار کے تمام شراکت داروں میں انصاف کے ساتھ تصفیہ کرایا تھا‘

منصف بھی بہت اعلی تھے اور بزرگ بھی کمال کے تھے، یہی وجہ تھی کہ شریف فیملی نے اپنے مشترکہ کاروبارکی تقسیم کا جھگڑا انہی کے ذریعے حل کرایا میاں شریف کی خصوصی طور پر درخواست پر منصف بنے تھے اور شریف خاندان میں جائیداد کی تقسیم کا تنازعہ حل کرایا‘جہاد افغانستان سے متعلق یہ کہا جائے کہ یہ سارا معرکہ قاضی حسین احمد نے لڑا‘ تو یہ بات غلط نہیں ہوگی‘ روس جب افغانستان سے نکلا تو اس کے جسم پر زخموں کے جتنے بھی نشان تھے یہ سب مجاہدین کے لگائے ہوئے تھے افغان جہاد میں جہاں افغان مجاہدین کاکردار یاد رکھا جائے وہیں ایک کردار قاضی حسین احمد کا بھی ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا، روس نکلا تو قاضی حسین احمد دریائے آمور کے پار گئے اور کندھے پر کلاشنکوف لٹکائی ہوئی تھی، قاضی حسین احمد کا کردار آج بھی ملت اسلامیہ کے دشمنوں کو بھولا نہیں ہے، آج ان جیسا انسان اور پاکیزہ سیاست کا کردار پاکستان کی سیاست میں ڈھونڈھنے کو نہیں ملتا
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
معرکہ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

قبلہ قاضی صاحب اس شعر کی ایک مکمل تصویر تھے، امیرمینائی نے کہا تھا کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے، قاضی حسین احمد نے اپنے اجلے کردار سے یہ بات ثابت کی کہ مسلمان کا کردار کبھی محدود نہیں رہا مکہ کی وادیوں سے اٹھنے والا پیغام عرب دنیا کے لیے ہی نہیں تھا یہ سارے جہاں کے لیے تھا اور ہے،

جہاں جہاں مسلمان پس رہے تھے وہاں وہاں قاضی حسین احمد پہنچے، لاہور میں بھیلا بٹ نے ظلم ڈھایا تو داد رسی کے لیے قاضی حسین احمد ہی سب سے پہلے پہنچے، اور پھر پاسبان کی بنیاد رکھی، ’’ظالمو قاضی آرہا ہے‘‘ یہ اپنے وقت کا مقبول نعرہ بن گیا تھا جسے آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں اور اپنی محفلوں میں دہراتے رہتے ہیں، قاضی حسین احمد ؒ اسلامی جمیعت طلبہ میں شامل ہوئے، پھر وہاں سے فراغت ہوئی جماعت اسلامی کی صف میں آگئے، اور جماعت اسلامی کے پیغام کو گھر گھر پہنچایا، گلی گلی اور ہر بازار چوک چوراہے میں جماعت اسلامی سیاسی چوپالوں میں ہونے والی سیاسی گفتگو کا موضوع بن گئی، ملک میں جونیجو حکومت قائم ہوئی تو ملک بھر کے علماء نے متحدہ شریعت محاذ تشکیل دیا، مولانا سمیع الحق، قاصی عبدالطیف اور دیگر علماء اس کا حصہ بنے قاضی صاحب اس اتحاد کے سیکرٹری جنرل تھے کراچی میں لسانی تعصبات کے شعلے بلند ہوئے تو آپ نے پشاور سے ’’کاروانِ دعوت ومحبت‘‘لے کر پورے ملک کا دورہ کیا اور کراچی پہنچے اور پورے ملک کو محبت ووحدت کاپیغام دیا متعدد بار پسِ دیوار زنداں بھی رہے، آخری بار مشرف نے انہیں گرفتار کیا تھا،کاروان دعوت و محبت لے کر چلے تو پشاور سے کوئٹہ تک ملک کے ہر شہر، دیہات اور قصبے تک جماعت اسلامی کی آواز پہنچی،

اتحاد ملت پاکستان اور اتحاد امت مسلمہ کے لیے جو کام وہ کرگئے، یہ ہمیشہ یاد بھی رہے گا اور مشعل راہ بھی بنا رہے گا، انہوںنے اتحاد امت کے لیے اور مظلوم مسلمانوں پر ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔ درد ِ مشترک اور قدرِ مشترک ہی امت کے لیے ناگزیر عمل ہے۔قاضی صاحب مرحوم نے انتھک جدوجہد سے قومی سیاست پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، کوئی ان کے پائے کا لیڈر آج ملک کو… میسر نہیں ہے آج بھی ملت اسلامیہ کو ان جیسے رہنماء اورعلامہ اقبال اور مولانا مودودی کی فکر کے حقیقی شیدائی کی ضرورت ہے، مقبوضہ کشمیر کے مسلمان تو انہیں کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے کہ پانچ فروری کو یوم یک جہتی کشمیر منانے کا فیصلہ انہی کا تھا آج یہ دن ہمارا قومی دن بن چکا ہے، اس بات پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ لیکن یہ ذکر بار بار کرنے و دل کرتا ہے کہ پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر 1989 ء کو پہلی مرتبہ ریاستی سطح پر پاکستان میں منایا گیا یہ قاضی حسین احمد کی کشمیری عوام کی لازوال جدوجہد، انہیں حق خود ارادیت دلانے کی ایسی کوشش تھی جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا اور آج مقبوضہ کشمیر میں ناجائز بھارتی تسلط، قبضہ اور عوام… پر ظلم و بر بریت کے خلاف پوری دنیا میںمظلوم کشمیری عوام سمیت انسانی حقوق کی تنظیمیں کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کے لیے آواز بلند کرتی ہیں، اتحاد امت کے لیے انہوں نے ملی یک جہتی کونسل کی بنیاد رکھی یہ تنظیم آج ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کے لیے اپنا بھرپور کردار نبھا رہی ہے،

یہ کہنا سچ اور مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کی مانند سچ ہوگا کہ قاضی حسین احمدؒ کشمیر، فلسطین، روہنگیا، بوسنیا سمیت عالم جہاں میں مسلمانوں پر ظلم و بربریت پر مظلوموں کی آواز بن کر میدان عمل میں اترتے اور نہ صرف مسلم حکمرانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑتے بلکہ اقوا م عالم کوبھی للکارتے قاضی حسین احمد ظلم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ ہمیشہ کھڑے پائے گئے۔ پاکستان کے عوام ان سے بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔’’ہم بیٹے کس کے قاضی کے‘‘یہ نوجوانوں کا مقبول عام اور ولولہ انگیز جذبہ اظہار تھا۔ قاضی صاحب مرحوم ایک ایسی کرشماتی شخصیت کے مالک تھے کہ ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والا طبقہ ان کی طرف کھنچا چلا آتاتھا۔ نظریاتی اعتبار سے ان سے مخالفت رکھنے والے بھی انہیں اپنے درمیان پاکر ایسا محبت و احترام والا سلوک کرتے کہ اس پر رشک آتاہے، آج قوم مہنگی بجلی کا رونا روتی ہے یہ قاضی حسین احمد ہی تھے جنہوں نے آئی پی پیز کے خلاف سب سے پہلے اور ایک بڑا احتجاج منظم کیا تھا یہ کوئی سیاسی مصالحہ نہیں بلکہ ریکارڈ کی بات ہے،1996 بے نظیر بھٹو حکومت کی کرپشن کے خلاف دھرنا دیا تو مری روڈ پر پولیس کی فائرنگ سے چار کارکن شہید ہوئے اور خود قاضی حسین احمد زخمی ہوئے پولیس نے ان پر براہ راست لاٹھی چارج کیا تھا اور ان کے سر سے خوب بنہنے لگا جو رخسار اور داڑھی کو تر کرتا ہوا لباس پر بھی نشان چھوڑ گیا،

سیاسی کردار کے ساتھ ساتھ وہ ذاتی زندگی میں اللہ کا خوف رکھنے والے انسان تھے، نرم خو طبیعت کے مالک تھے، حالات جیسے بھی پریس کانفرنس میں جس قدر بھی تلخ سوال کیا گیا ہو انہوں نے ہمیشہ مسکراتے ہوئے شیریں زبان میں جواب دیا، یہ بات پوری دلیل کے ساتھ کی اور کہی جاسکتی ہے کہ قاضی حسین احمد نے ہمیشہ اپنی ایک ہی شناخت پر فخرواصرار کیا کہ ان کی حضوراکرم ﷺ کے امتی کی حیثیت سے شناخت ہے۔ انہوں نے ہمیشہ نبی اکرم ﷺ کے امتیوں کے اتحاد کی سعی کی، آج بھے افغان قوم کو قاضی حسین احمد جیسے ہمدرد کی ضرورت ہے۔