مزید خبریں

سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی انتخابی مہم کی تشہیر اور رائے عامہ بنا رہی ہیں

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری)سیاسی جماعتیںسوشل میڈیا کے ذریعے اپنی انتخابی مہم کی تشہیر اور رائے عامہ بنا رہی ہیں‘ پی ٹی آئی نے آن لائن جلسہ کیا‘ روایتی سیاسی ریلیاں، کتابچے اور گھر گھر انتخابی مہم کادور گزر گیا ‘عوامی رویے کو سمجھنے، انتخابی حکمت عملی کے لیے مصنوعی ذہانت کابھی سہارا لیا جا رہا ہے‘ ملک میں 13 کروڑ لوگ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں‘ 2024 ء کا ووٹر ڈیجیٹل دور کا ووٹر ہے۔ان خیالات کا اظہار الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جوائنٹ صوبائی الیکشن کمشنر سندھ سردار نذر عباس، جماعت اسلامی پاکستان کے سوشل میڈیا کے ڈائریکٹر شمس الدین امجد، پیپلز پارٹی کے سوشل میڈیا کور ٹیم کی ممبر ملیحہ منظور، تحریک انصاف کی سیکرٹری اطلاعات، سوشل میڈیا ٹیم کی ممبر فلک الماس، مسلم لیگ ن متحدہ عرب امارات کے سوشل میڈیا کی سربراہ فرزانہ کو ثر اور پاکستان ترکی بزنس فورم کے بانی و صدر اور ماہر معاشیات محمد فاروق افضل نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’انتخابات 2024ء میںسوشل
میڈیا کس طرح انتخابی مہم پر اثر انداز ہو رہا ہے؟‘‘سردار نذر عباس نے کہا کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں انتخابات پر سوشل میڈیا کے اثرات نمایاں اور کثیر جہتی رہے ہیں‘ سوشل میڈیا کے اثرات کو بڑے شعبوں میں درج کیا جا سکتا ہے جس میں سیاسی بیداری میں اضافہ، سیاسی مہمات میں سہولت، معلومات کی ترسیل، سیاسی متحرک کاری، عوامی رائے پر اثر، غلط معلومات کا پھیلاؤ، مانیٹرنگ، اسکروٹنی اور نوجوانوں کی مصروفیات مجموعی طور پر سوشل میڈیا کے حوالے سے ہی ہوتی ہیں‘ سوشل میڈیا نے پاکستان میں انتخابات پر ایک تبدیلی کا اثر ڈالا ہے جس سے رائے عامہ بنانے اور عوام کو سیاسی طور پر متحرک کرنے میں مدد ملی ہے‘ اس نے سیاسی و معاشی معلومات تک رسائی میں اضافہ کیا ہے‘ عوامی گفتگو میں سہولت فراہم کی ہے اور شہریوں کو جمہوری عمل میں فعال طور پر حصہ لینے کا اختیار دیا ہے تاہم انتخابات پر سوشل میڈیا کے اثرات بھی چیلنجز کے ساتھ آتے ہیں، جیسے کے غلط معلومات کا پھیلاؤ، جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ انتخابات کے منصفانہ اور شفاف انعقاد کو یقینی بنایا جا سکے۔ شمس الدین امجد نے کہا کہ پاکستان میں لگ بھگ 13 کروڑ لوگ اس وقت انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں‘ سیاسی جماعتیں، میڈیا ہائوسز اور عام افراد اس کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کی رائے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس بنیاد پر سوشل میڈیا اس وقت بیانیہ بنانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ہر فرد اس میں صحافی، تجزیہ نگار اور کسی نہ کسی درجے میں انفلوئنسر کا کردار ادا کر رہا ہے۔ روایتی میڈیا بھی اس کا سہارا لینے پر مجبور ہے، بڑے صحافی و اینکرز بھی اپنی بات پہنچانے کے لیے اسی کا سہارا لیتے ہیں جبکہ سیاسی جماعتیں بھی زمین کے بجائے سوشل میڈیا کو میدان جنگ بنائے ہوئے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر سوشل میڈیا ٹیموں کے درمیان مقابلے کی کیفیت ہوتی ہے اور اسی سے کسی پارٹی کی تحرک کا اثر بنتا ہے‘ فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک بڑی ویب سائٹس ہیں جنہیں کروڑوں لوگ استعمال کرتے ہیں۔ ٹوئٹر ٹرینڈنگ، شارٹ وڈیوز، گرافکس، میمز، پوڈکاسٹ وغیرہ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنے کی کوشش ہوتی ہے‘ سوشل میڈیا ذہن سازی کا بہت بڑا ذریعہ ہے‘ سوشل میڈیا فوری رابطہ و اطلاعات کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ یہ انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کا بھی حصہ ہے‘ اس وقت ملک کی 64 فیصد شہری آبادی اور 36 فیصددیہی آبادی سوشل میڈیا کا استعمال کر رہی ہے‘ کچھ پابندیوں کے باوجود پوری دنیا میں سوشل میڈیا آزاد ہے بلکہ یہ پانی کی طرح اپنا راستہ خود تلاش کرتا ہے‘ یہ آزادی کے ساتھ اپنی بات آگے بڑھانے کا بہت آسان و موثر ذریعہ بھی ہے۔ ملیحہ منظور نے کہا کہ عصر حاضر میں نوجوانوں کی بڑی تعداد سوشل میڈیا صارف ہے اس لحاظ سے سیاسی جماعتیں اپنا منشور گھر گھر پہنچانے کا کام سوشل میڈیا سے لے رہی ہیں‘ پیپلز پارٹی کی سوشل میڈیا پر خصوصی توجہ ہے اور پیپلز پارٹی نے بلاول زرداری کے 10 نکاتی انتخابی منشور کی گھر گھر تک رسائی کو ممکن بنانے کے لیے سوشل میڈیا سے خصوصی استفادہ کیا ہے‘ آئندہ انتخابات میں سوشل میڈیا بہت اہم کردار ادا کرے گا۔ مثلاً ٹی وی پر نشر ہونے والے زیادہ تر سروے بھی سوشل میڈیا کے توسط سے موصول ہوتے دیکھے جاسکتے ہیں‘ کافی حد تک لوگ اپنے ووٹ کا فیصلہ ایسے سروے کے نتائج سے کرتے ہیں۔سوشل میڈیا سیاسی جماعتوں کے لیے اپنے منشور کی تشہیر اور عوام تک رسائی کا سہل اور کم خرچ ذریعہ ہے ‘آئندہ عام انتخابات میں سوشل میڈیا کا کردار اور اس کی اہمیت بڑھ رہی ہے۔فلک الماس نے کہا کہ سیاسی انتخابی مہم کے حوالے سے پی ٹی آئی واحد جماعت ہے جس نے سوشل میڈیا پر نوجوان نسل میں سیاست کی اہمیت کو اجاگر کیا، سوشل میڈیا اس ٹیکنالوجی کے دور میں ایسا واحد اور موثر ذریعہ ہے جس کے استعمال سے ہر عمر، رنگ و نسل اور ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے فرد تک باآسانی رسائی ممکن ہے‘ ماضی میں انتخابی مہم چلانے کے لیے سیاسی ورکروں کو گھروں کے دروازے تک جانا پڑتا تھا جبکہ سوشل میڈیا کے دور میں سیاسی جماعتیں اپنا منشور ہر گھر میں موبائل فون کے ذریعے پہنچا رہی ہیں جس کی زندہ مثال پی ٹی آئی کا حال ہی میں کیے جانے والا ”آن لائن جلسہ” تھا‘ سوشل میڈیا آزادی اظہارِ رائے کے لیے ایک بہترین پلیٹ فارم ہے‘ پی ٹی آئی کے لیے سوشل میڈیا کے نوجوان حقائق و سچائی کے فروغ کا ذریعہ ہیں‘ نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے خلاف جھوٹ اور پروپیگنڈا کرنے والوں کو بے نقاب کیا، ہم ایک جدید دور کے جہاد میں داخل ہوگئے ہیں یہ80 کی دہائی نہیں، ان شاء اللہ 8 فروری کو پی ٹی آئی کا ووٹر بڑی تعداد میں نکلے گا جس طرح پی ٹی آئی کے لیے ان حالات میں سیاسی مہم چلانا مشکل تر بنا دیا گیا ہے، ایسے حالات میں پی ٹی آئی اپنا منشور عوام تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہی ہے۔فرزانہ کوثر کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے عروج نے سیاسی مصروفیات کو نئی شکل دی ہے‘ ہر فرد کے پاس اسمارٹ فون ہے‘ ہم نے جو بات بھی عوام تک پہنچانی ہے اس کے لیے ہم سوشل میڈیا کا ہی استعمال کرتے ہیں کیونکہ ورکنگ ویمن سے لیکر گھریلو خواتین تک تمام خواتین کے پاس اسمارٹ فون موجود ہیں اور ان ہی کے ذریعے ہم پارٹی کا منشور ان تک پہنچانے کی پلاننگ کر رہے ہیں‘ مسلم لیگ ن کے لیے سوشل میڈیا انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سوشل میڈیا کی ٹیم میں مریم نواز خصوص دلچسپی رکھتی ہیں‘ مریم نواز نے ہرعلاقے میں جاکر وہاں کی سوشل میڈیا ٹیم کو ایکٹیو کیا اور آنے والے انتخابات کی بھرپور تیاری کے سلسلے میں رابطہ کے لیے واٹس ایپ گروپ ایکٹیو کیے ہیں‘ ہر پارٹی میٹنگ جلسہ اور ریلی میں اب سوشل میڈیا کی ٹیم کے لوگ ضرور موجود ہوتے ہیں جنہیں پارٹی ایجنڈے کے بارے میں مکمل بریفنگ دی جاتی ہے اور اسی بریفنگ کے ذریعے ہم سوشل میڈیا پر عوام کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ محمد فاروق افضل نے کہا کہ انتخابات میں34 روز رہ گئے ہیں اور تمام سیاسی جماعتیں الیکشن مہم میں مصروف ہیں‘ آج کے سوشل میڈیا دور میں الیکشن مہم کے روایتی طریقوں سے کہیں زیادہ سوشل میڈیا پر مہم چلانے کو ترجیح دی جا رہی ہے‘ انتخابی مہمات میں گہری تبدیلی آئی ہے‘ روایتی سیاسی ریلیاں، کتابچے اور گھر گھر مہم اب جدید ترین ڈیجیٹل سوشل میڈیا کی حکمت عملی میں تبدیل ہو چکی ہے‘ سیاسی جماعتوں کی جانب سے سوشل میڈیا کمپئین کا آغاز کردیا گیا ہے۔ مختلف موضوعات پر لائیوسٹریم کی جا رہی ہیں‘ جلسے جلوس بھی سوشل میڈیا پر براہ راست دکھائے جا رہے ہیں‘ جماعتوں اور امیدواروں نے اپنی توجہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مرکوز کر دی ہے‘ 2024ء کے انتخابات میں ڈیجیٹل انقلاب کے بنیادی پہلوؤں میں اہم پہلو ڈیٹا پر مبنی تجزیہ ہے‘ سوشل میڈیا کے عروج نے سیاسی مصروفیات کو نئی شکل دی ہے‘ فیس بک، ٹوئٹر/ایکس اور انسٹاگرام جیسے پلیٹ سوشل فارمز پر امیدوار ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مقابلہ کرتے نظر آ رہے ہیں‘ سیاسی جماعتیں ووٹروں کے رویے کو سمجھنے، انتخابی مہم کی حکمت عملی اور انتخابی نتائج کی پیش گوئی کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کی طاقت کا استعمال کر رہی ہیں‘ مختلف ڈیموگرافکس کے ڈیٹا سیٹس کی بڑے پیمانے پر باریک بینی سے جانچ پڑتال کی جا رہی ہے‘ اعداد و شمار کے تجزیات کے ذریعے سیاسی جماعتیں عوامی جذبات کو توڑ کر نئے سانچے میں ڈھال رہی ہیں جس سے وہ سیاسی منظر نامے میں ہونے والی تبدیلیوں پر فوری ردِ عمل دینے اور اس کے ادراک کے بھی قابل ہو گئی ہیں۔ 2024 ء کا ووٹر سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل دور کا ووٹر ہے‘ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے سوشل میڈیا کے ذریعے سیاسی مہم چلانا انتہائی اہم ہو چکا ہے۔