مزید خبریں

تزکیہ و تربیت کا مقصود

جماعت اسلامی از اوّل تا آخر ایک دینی تحریک ہے اور بجاطور پر اس کے فرائض اور ذمے داریوں میں یہ بات شامل ہے کہ اپنے جلو میں چلنے والوں کو نبی کریمؐ کے طریق دعوت اور آپؐ کے اسوئہ حسنہ سے بار بار آگاہ کرے، تذکیر اور یاد دہانی کا فریضہ انجام دے، اور مسلسل تعمیر سیرت اور کردار سازی کا کام انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی دائروں کے اندر بھی جاری رکھے۔ اسی مقصد کے پیش نظر جماعت اسلامی نے دعوت وتربیت کا ایک جال بچھایا ہے تاکہ چاروں طرف کے حالات میں غفلت کے جو عنوان پنہاں اور پوشیدہ ہیں، لوگ ان سے بچ سکیں اور اپنے رب کے ذکر قرآن پاک اور نبی کریمؐ کے اسوہ کی طرف چلیں اور اس

کے ذریعے ان راہوں کو پا سکیں جو منزل کی طرف لے جاتی ہیں۔
اس پورے کام میں جو چیز مطلوب ہے، قرآنِ پاک نے اس کا حوالہ دیا ہے:
’’مگر اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمھارے لیے دل پسند بنایا اور کفر وفسق اور نافرمانی سے تم کو متنفر کردیا۔ ایسے ہی لوگ اللہ کے فضل و احسان سے راست رو ہیں اور اللہ علیم و حکیم ہے‘‘۔ (الحجرات: 7-8)

یعنی اس تمام تربیت اور تزکیے سے ایک ایسا انسان مطلوب ہے جس کے دل و دماغ میں ایمان کی محبت پیوست ہوجائے، اور ایمان سے ہٹنے اور اس سے دْور جانے کا تصور بھی ذہن اور عمل کے اندر محال ہوجائے۔ قلوب کے اندر یہ محبت اس طرح رچ بس جائے کہ اس کے نتیجے میں ہر معصیت، ہر گناہ اور ہر نافرمانی انسان کو جیتے جی ایک عذاب سے دوچار کردے۔ یہ جو چاروں طرف گناہوں کا کاروبار نظر آتا ہے اور انسان کو اپنی طرف بلاتا اور بہلاتا پھسلاتا ہے، معصیت اور نافرمانی کے اَن گنت عنوانات دنیا کو بنانے، حالات کو بہتر کرنے، اور زندگی کو کل سے بہتر آج اور آج سے بہتر کل کی شکل دینے کے لیے موجود ہیں، اور پھر انسان کے جسم و جان کو راحت پہنچانے کے وہ تمام مراحل جو نافرمانی کے ذیل میں آتے ہیں، ان کے قریب جانے یا ان کا خیال آنے سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ یہ منزل مقصود ہے کہ انسان کے اپنے اندر ایک مربی و مزکی اور ایک محتسب موجود ہو، کوئی روکنے ٹوکنے اور اندر سے خبردار کرنے والا ہو جو ہاتھ پکڑ لے اور کہے کہ بھلے آدمی یہ تمھیں کیا ہوگیا ہے، یہ تم کیا کر رہے ہو۔

ہر شخص خود ہی اپنا جائزہ لے کر اپنے بارے میں حتمی راے دے سکتا اور فتویٰ صادر کرسکتا ہے کہ اس آیت کے اندر جو کیفیت بتائی گئی ہے، اس میں اس کیفیت سے کتنی قربت، اور طبیعت اور مزاج کے اندر کس قدر رچائو موجود ہے۔ اگر یہ کیفیت ہے اور اس کے اندر بڑھوتری ہے تو یہ مطلوب ہے، اور یہ عمل زندگی کے آخری سانس تک جاری رہنا ہے۔ دعوت و تربیت کے مختلف مراحل فی نفسہ ہمیں پوری زندگی کے لیے رہنمائی فراہم کرتے اور اس کے لیے تیار کرتے ہیں کہ ہم خود اپنے نگران اور مربی، اور ایک مدرس و مقرر کی حیثیت سے مسلسل اپنے اْوپر نگاہ رکھ سکیں، اور اس آیت کا مصداق بننے اور اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کے لیے کوشاں ہوں۔