مزید خبریں

…بچوں کے نام رکھنا

اللہ پاک جو اپنے نام سے ہی یکتا اور بے مثل ہے جس نے نہ صرف اس کائنات رنگ و بو کو پیدا فرمایا، بلکہ اس کائنات کو حسن و خوبصورتی کے سب سے اعلیٰ نمونے‘ انسان کو تخلیق (پیدا) فرمایا اور پھر اسے سب سے پہلے خوبصورت نام ’آدم‘ سے نوازا اور اس طرح کائنات ارضی کے ہر ذرے کی ابتدا نام سے ہوئی۔ انسانی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر چیز میں حسن و جمال کو پیش نظر رکھا جائے اس لیے اللہ پاک نے انسان کو بہترین ساخت عطا فرمائی: ’’ہم نے انسان کو عمدہ ساخت میں پیدا کیا‘‘۔ لہٰذا والدین کا فرض بنتا ہے کہ اپنے بچوں کی نگہداشت اور پرورش اچھے انداز میں کریں، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ بچوں کے نام بھی اچھے رکھیں۔ اچھے نام اچھی علامت کا مظہر ہوتے ہیں اور اچھے نام اللہ عزوجل کو پسند ہے۔ ہمارے آقا سیدنا محمدؐ نے اچھے نام رکھنے اور بْرے ناموں سے گریز کی بار بار تلقین فرمائی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ کو دو نام بہت پسند ہیں اور وہ ہیں عبداللہ اور عبدالرحمٰن۔ اس لیے یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ نام خوبصورت با معنی اور ہر لحاظ سے جامع ہو اور پکارتے وقت پورا نام پکارا جائے۔ اس لیے کہ نام ہی ایک انسان کو دوسرے انسان سے علیحدہ پہچان دیتا ہے۔ اور انسان کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔

اچھے ناموں کے اثرات
آج کل عام مزاج بنتا جا رہا ہے کہ بچوں کے ناموں میں جدت ہو، ایسا نام رکھا جائے کہ کسی اور کا نہ ہو، خواہ اس کا مفہوم و معنیٰ کچھ بھی نکلتا ہو، حالانکہ پیارے نبیؐ نے ارشاد فرمایا کہ انبیاء علیہ السلام کے ناموں پر اپنے بچوں کے نام رکھو۔ (ابو داؤد) اسی لیے نبی اکرمؐ نے اپنے آخری صاحبزادے کا نام ابراہیم رکھا تھا جو سیدہ ماریہؓ کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے تھے۔ ایک حدیث پاک میں نبیؐ کا پاک ارشاد ہے: قیامت کے دن تمہیں اپنے آباء کے نام سے پکارا جائے گا، لہٰذا تم اچھے نام رکھا کرو۔ (مسند احمد) اللہ کے رسول محسنِ کائناتؐ نے بھی سیدنا امام حسینؓ کی پیدائش کے بعد آپ کے کان میں اذان دی منہ میں لعابِ دہن ڈالا اور آپ کے لیے دعا فرمائی۔ پھر ساتویں دن آپ کا نام حسین رکھا اور عقیقہ کیا۔ حدیث پاک میں ہے رسولؐ فرمایا کہ سیدنا ہارونؑ نے اپنے بیٹوں کا نام شبّر اور شبیر رکھا اور میں نے اپنے بیٹوں کا نام انہی کے نام پر حسن اور حسین رکھا۔ (صواعق محرقہ، صفحہ 118) سریانی زبان میں شبّر اور شبیر اور عربی زبان میں حسن اورحسین دونوں کے معنیٰ ایک ہیں۔ احادیث میں اچھے نام جس سے عبدیت کا اظہار ہو اسے اچھا قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ عبداللہ اور عبد الرحمٰن اللہ کے نزدیک و رسولؐ کے نزدیک پسندیدہ نام ہیں۔ (مسلم شریف) والدین پر اولاد کے حقوق بہت ہیں۔ اچھا نام رکھنا یہ بھی حقوقِ اولاد میں سے ہے۔ جب بچہ پیدا ہو فوراً داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہے کہ ظل شیطان و اْم الصبیان سے بچے گا۔ ہر بچے کا نام رکھے۔ بْرا نام نہ رکھے کہ فالِ بد ہے۔ عبداللہ، عبدالرحمٰن، احمد وغیرہ نام رکھے۔ انبیاء کرام یا اپنے بزرگوں میں جو نیک گزرے ہوں ان کے نام پر رکھے کہ باعث برکت ہے۔ خصوصاً وہ نام جو نبی پاکؐ کے پاک نام ہیں۔ اس مبارک نام کی بے پایاں برکت بچے کی دنیا و آخرت میں کام آتی ہے۔

بُرے ناموں کو بدلنا
نبیؐ اچھے نام رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے۔ بلکہ نام کے معنیٰ میں اگر اچھائی نہ ہو یا اس میں شبہہ ہو تو اسے بدل دیا کرتے تھے۔ سیدہ زینب بنت ابی سلمہؓ کا نام ’’برہ ‘‘ تھا جس کے معنی نیکوکار ہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے ان کا نام اس لیے تبدیل فرما دیا کہ اس میں اپنی تعریف کا پہلو نکلتا ہے۔ اس کی وجہ سے نفس کہیں دھوکا نہ دے دے، لہٰذا آپ کا نام زینب رکھا۔ اسی طرح ایک صحابی کا نام ’’حُزن‘‘ تھا۔ اللہ کے رسولؐ نے ان کا نام اس لیے بدل دیا کہ اس کے معنیٰ سخت زمین کے ہوتے ہیں ’’سہل‘‘ نام رکھ دیا۔ جس کے معنیٰ نرم ہونے کے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ اچھے نا م سن کر خوش ہوتے تھے اور اس کے اثرات کے متمنی ہوتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر معاملہ الجھا ہوا تھا، قریش کی جانب سے ثالثی کے لیے سہیل آئے تو نبیؐ نے دریافت فرمایا کہ کون ہیں۔ بتایا گیا کہ سہیل ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے ہمارے معاملے کو آسان کر دیا اور پھر انہی کے ذریعے سے صلح حدیبیہ کا تاریخ سازمعاہدہ وجود میں آیا جس کو رب تعالیٰ نے فتح مبین سے تعبیر کیا۔
نبی اکرمؐ نے متعدد صحابہ کرامؓ کے نام تبدیل فرمائے ہیں تاکہ نئے نام اور اسلام لانے سے ان کے کردار میں ناموں کے معانی کے لحاظ سے تبدیلی اور برکت شامل ہو جائے اور وہ سر تاپا اسلامی رنگ میں ڈھل جائیں اور نیکی کا مرقع بن جائیں۔ سیرت کی کتابوں میں بہت سے واقعات موجود ہیں۔ چند ملاحظہ فرمائیں: ایک صحابیؓ کا نام اسود (کالا، گرد آلود، تاریک) سے بدل کر ابیض (سفید) رکھ دیا۔ اس طرح ایک صحابی کا نام الجبار (جبر و ظلم کرنے والا) سے بدل کر عبدالجبار (جبار کا بندہ) رکھ دیا۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا نام عبدالکعبہ (کعبے کا بندہ) سے تبدیل کر کے عبداللہ (اللہ کا بندہ) رکھ دیا۔ مشہور صحابی سیدنا ابوہریرہؓ کا نام عبدالشمس سے بدل کر عبدالرحمٰن رکھ دیا۔ اسی طرح آپؐ نے عاصی، عتلہ، حکم، غراب، حباب کے نام تبدیل فرمائے اور احرام کو زرعہ، عاصیہ کو جمیلہ اور برہ کو زینب سے بدل دیا۔ (سنن ابو دائود) سیدناعمرؓ کی ایک بیٹی کا نام عاصیہ تھا جسے آپؐ نے بدل کر جمیلہ رکھ دیا۔

نام رکھنے میں غلو کرنا
اکثر یہ بات مشاہدے میں آتی ہے کہ جب کسی کے یہاں بچہ یا بچی پیدا ہوتی ہے تو سب سے پہلے جس مرحلے میں والدین کا سابقہ پڑتا ہے وہ اس کا نام رکھنا ہوتا ہے جس کی روشنی میں بچہ سب کے لیے قابل محبت، قابل توجہ اور پرکشش بن سکے۔ اور اس کے نام سے خاندان کی عزت و وقار بڑھے۔ خاندان بھر میں ہر فرد اپنی اپنی مرضی کا نام تجویزکرتا ہے جو نام تجویز (Choice) ہوتا اس کے معانیٰ پر غور نہیں کیا جاتا حالانکہ کسی بھی نام کے اثرات اس کے معانیٰ کے اندر پوشیدہ ہوتے ہیں اور معنیٰ ہی شخصی کردار کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح اس کے نام سے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ بچہ یا بچی کس مذہب اورکس قوم سے تعلق رکھتا ہے اور یہ کہ اس کا نام شرعی اسلامی ہے یا نہیں؟ اور یہ نام اس کے لیے موزوں بھی ہے یا نہیں؟ اسی لیے اسلام نے معانیٰ کے اعتبار سے اچھا نام رکھنے کا حکم دیا تاکہ بچے کی زندگی کی پہلی اینٹ درست طور پر رکھی جائے۔ نام رکھنے میں غلو کی حد تک یکساں اوزان کا خیال رکھا جاتا ہے یعنی سارے بچوںاور بچیوں کا نام ہم وزن ہو، حالانکہ ناموں کے سلسلے میں یہ التزام غیر ضروری ہے۔کبھی کبھی اس کی پابندی معلوم ہونے لگتی ہے۔

نام بگاڑنا گناہ ہے
بچوں کے حقوق میں سے یہ ہے کہ ان کا نام اچھا رکھا جائے اوراچھے نام کو بلاتے وقت بھی ملحوظ رکھا جائے۔ اسی طرح نام بگاڑنا بھی گناہ کی بات ہے۔ قرآن پاک میں اسے بِئسَ لاِسمَ الفْسْوق کہا گیا ہے، لہٰذا کسی کے نام کو بگاڑ کر پکارنا نہیں چاہیے اس میں خود گھر والوں کی طرف سے کوتاہی ہوتی ہے، وہ پیار میں مْخفف (Short) کرتے ہیں اور پھر وہی نام بن جاتا ہے۔ اس سے پرہیز لازم ہے۔ نبیؐ نے ایک صحابی کا نام پوچھا صحابی نے کہا اصرم جس کے معنی کانٹے کے آتے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا تمہارا نام اصرم نہیں بلکہ زرعتہ ہوگا، جس کے معنیٰ کھیتی اور جود و سخا کے ہوتے ہیں۔ بعد میں وہ صحابی اس نام سے معروف ہوئے۔ لہٰذا ہمیں اچھے ناموں کا التزام کرنا چاہیے۔ مذہب اسلام یہ چاہتا ہے کہ اس کے ماننے والوں کی اولاد نیک اور مسلمان ہوں۔ بچوں کی پرورش بہتر طریقے سے کی جائے اور اولاد جو نعمتِ الٰہیہ ہے اس کی قدر کی جائے۔ تاکہ وہ بڑا ہو کر ملک و سماج اور خود والدین کے لیے نعمت ثابت ہو۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اولاد کی پرورش اور نام رکھنے میں اللہ اور رسولؐ کے حکم اور خوشنودی کا خیال ہمیشہ دل میں جاگزیں فرمائے اور تمام مسلمانوں کو اسلامی طرز زندگی گزارنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔