مزید خبریں

معیشت کی بہتری کیلیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے‘بجلی اورگیس کی قیمتیں اور تجارتی خسارہ کم کرنا ہوگا

کر اچی (رپور ٹ : قاضی جاوید) معیشت کی بہتری کیلیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے‘بجلی اورگیس کی قیمتیں اور تجارتی خسارہ کم کرنا ہوگا‘ تاجر برادری کی مثبت تجاویز پر عمل کیاجائے گا‘ موجودہ پالیسی میں معمولی تبدیلی کی ضرورت ہے‘ اسٹاک مارکیٹ کا انڈیکس ایک لاکھ پوائنٹس سے تجاوز کر سکتا ہے‘ مہنگائی کی وجہ سے 2023 ء عوام اور کاروباری برادری کے لیے مشکل سال رہا‘ روپیہ ٹشو پیپر بن کر رہ گیا۔ ان خیالات کا اظہار ایف پی سی سی آئی کے سابق صدر، یونائیٹڈ بزنس گروپ کے صدر زبیر طفیل‘ما ہر اسٹاک مارکیٹ، صحافی تلقین پاشا زبیری‘سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین ‘سابق وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا اور تحریک انصاف کے معاشی امور کے ترجمان مزمل اسلم نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’کیا نیا سال ملکی معیشت کے لیے گزشتہ سال سے بہتر ہوگا؟‘‘ زبیر طفیل نے کہا کہ معیشت کی بہتری کے لیے موجودہ پالیسی میں معمولی تبدیلی کی ضرورت ہے جس کے بعد ہی نیا سال ملکی معیشت کے لیے پچھلے سال سے بہتر ہوگا‘ مارک اپ کی شرح میں کمی کو یقینی طور پر ممکن بنایا جائے‘گیس اور بجلی کے مسلسل بڑھتے ہوئے ٹیرف، درآمدات اور برآمدات کے درمیان بڑا فرق پیدا ہو چکا ہے جس کو کم کر نے کی ضرورت ہے۔اس فرق کی روک تھام کے لیے تاجر برادری کی قابل عمل تجاویز پر عمل کرنا ضروری ہے‘ نگراں حکومت مہنگائی کو کم سے کم کرنے کے اقدامات کر رہی ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس وقت صنعتی شعبہ شدید مسائل میں گھرا ہوا ہے‘ سابق ادوار میں جو کچھ معیشت کے ساتھ ہوتا رہا ہے‘ اس کا خمیازہ عوام اور کاروباری برادری کو بھگتنا پڑا ہے‘ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ملکی معیشت کو مضبوط تر بنانے کے لیے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرے۔ تلقین پاشا زبیری نے کہا کہ اسٹاک مارکیٹ میں آئندہ سال بھی تیزی کا رحجان متوقع ہے‘ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں ہو نے والی سرمایہ کاری مضبوط اور مقامی ہے‘ ملکی سرمایہ کاری میں اس بات کا خدشہ کم رہتا ہے کہ سرمایہ کار اپنا منافع سمیٹ کر فرار ہو جائے گا‘ ملکی سرمایہ کاری ان خدشات سے آزاد رہتی ہے ‘ اسٹاک مارکیٹ کا انڈیکس ایک لاکھ پوائنٹس سے تجاوز کر سکتا ہے۔ زاہد حسین نے کہا کہ 2023 ء عوام اور کاروباری برادری کے لیے بہت مشکل سال رہا لیکن اب آئندہ سال بہتر ی کا امکان ہے ‘ حکومت ایسے اقدامات کر رہی ہے جس سے معیشت پر مثبت اثرات نمایاں ہوں گے‘ گزشتہ سال کے دوران ملک کئی بار دیوالیہ پن کی دہلیز تک پہنچا مگر آئی ایم ایف کے قرضے اور سعودی عرب، چین، یو اے ای کی جانب سے قرضوں کی ادائیگی کو موخر کرنے کی وجہ سے ملک دیوالیہ پن سے بچ گیا‘ مہنگائی کی وجہ سے عوام کی زندگی مشکلات کا شکار ہوئی جبکہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے لیے کاروبار کرنا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے‘ گزشتہ سال ملک کی تاریخ کا بدترین معاشی سال تھا جبکہ اکانامک مینیجرز کے تجربات نے صورتحال کو مزید بگاڑ ڈالا۔ اس دوران روپیہ ٹشو پیپر بن کر رہ گیا‘ مہنگائی 39 فیصد کی شرح تک پہنچی اور عوام کی قوت خرید ختم ہوکر رہ گئی‘ بجلی اور گیس کی قیمتوں، بینک مارک اپ کی شرح میں بے تحاشا اضافہ ہوا جس کی وجہ سے بہت سے کاروبار بند ہوگئے جبکہ پیداوار بری طرح متاثرہوئی۔ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ گزشتہ حکومت کی معاشی گروتھ کے اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ رواں مالی سال میں بہتری کا امکان ہے‘ اس میں ملکی معیشت کی رفتار 6 فیصد تک رہنے کی توقع ہے تاہم مالیاتی دباؤ اور بیرونی شعبے کی کارکردگی کی وجہ سے اگلے سال میں یہ گروتھ برقرار نہیں رہ سکتی۔ پاکستان اکانومی اوور ہیڈ ہے یعنی یہ اپنی استعداد اور گنجائش سے زیادہ ترقی دکھا رہا ہے جو کہ پائیدار نہیں ہے‘ معیشت ایسی ہوتی ہے جس میں پیداوار سے زیادہ اس کی کھپت ہوتی ہے اور موجودہ کھپت مہنگائی کو بڑھاتی ہے اور معیشت کے لیے خطرناک ہوتی ہے‘ اگرچہ ملک کی معاشی ترقی کی رفتار میں اضافہ نئی ملازمتوں کے پیدا کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہیتاہم یہ معاشی گروتھ ایک ایسے ملک کے لیے مسائل بھی پیدا کرتی ہے جس کا توانائی اور صنعت کے لیے درآمدی خام مال پر انحصار ہوتا ہے۔ مزمل اسلم نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کی سابق معاشی پالیسی کی وجہ سے رواں سال جو معاشی گروتھ ہے‘ اس کے پیچھے زرعی اور صنعتی شعبوں میں ہونے والی ترقی نظر آ رہی ہے ‘ پیداوار ہوئی تو یہ گروتھ بڑھی اور نیا سال ملکی معیشت کے لیے پچھلے سے بہتر ہوگا ‘ وفاقی حکومت کی سالانہ پلان کوآرڈی نیشن کمیٹی کی جانب سے آئندہ مالی سال کے لیے معاشی شرح نمو کا ہدف5فیصد رکھا گیا ہے۔ موجودہ مالی سال میں معاشی شرح نمو 6 فیصد تک رہنے کا امکان ہے‘ سب سے پہلے گروتھ کی ساخت کو سمجھنے کی ضرورت ہے‘معاشی خسارے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا میں اجناس اور تیل کی قیمتیںبڑھی ہیں۔ سابق “ن” لیگ کی حکومت بلند شرح سود کو کم کرنے اور توانائی کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر رہی جس کی وجہ معیشت کی ترقی میں اضافہ ممکن نہیں لگتا۔