مزید خبریں

سال 2023 ء ملک دیوالیہ ،عوام پر مہنگائی کا بوجھ،کاروباری برادری کی چیخ و پکار

ملک میں جاری منفی معاشی صورتحال کے بعد اب کاروباری اداروں کا اعتماد بحال ہونا شروع ہوگیاہے اور تازہ ترین سروے کے مطابق گزشتہ سہ ماہی کے مقابلے میں کاروباری اعتماد میں 42فیصد اضافہ ہواہے۔ گیلپ بزنس کانفیڈینس انڈیکس 2023کی تیسری سہ ماہی کی رپورٹ کے مطابق 2023کی دوسری سہ ماہی کے مقابلے میں بہت کم کاروباری مالکان مستقبل کے حالات اور ملک کی سمت کے بارے میں مایوسی کا شکار ہیں۔سروے کے نتائج کے مطابق اگرچہ موجودہ معاشی اور سیاسی بحرانوں کی وجہ سے کاروباری عدم تحفظ برقرار ہے لیکن مستقبل کے بارے میں کاروباری ادارے زیادہ پُرامید ہیں۔ مہنگائی، یوٹیلٹی بلز اور سیاسی عدم استحکام کاروباری اداروں میں بڑھتی ہوئی تشویش کا باعث ہیں لیکن گزشتہ سہ ماہی کے مقابلے میں کم کاروباری اداروں نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

سال 2023 عوام اور کاروباری برادری کے لئے بہت مشکل سال رہا۔ اس سال کے دوران ملک کئی بار دیوالیہ پن کی دہلیز تک پہنچا مگرآئی ایم ایف کے قرضے اور سعودی عرب، چین، یو اے ای کی جانب سے قرضوں کی ادائیگی کو موخر کرنے کی وجہ سے ملک دیوالیہ پن سے بچ گیا۔ اس سال کے دوران مہنگائی کی وجہ سیعوام کی زندگی مشکلات کی تصویر بن گئی جبکہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے لئے کاروبار کرنا تقریباً ناممکن ہوگیا۔ سال رواں کے دوران ملک کو اپنی تاریخ کا بدترین معاشی بحران بھگتنا پڑا جبکہ اکانامک مینیجرز کے تجربات نے صورتحال کو مزید بگاڑ ڈالا۔ اس دوران روپیہ ٹشو پیپربن کررہ گیا، مہنگائی 39 فیصد کی شرح تک پہنچی اورعوام کی قوت خرید ختم ہوکررہ گئی۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں، بینک مارک اپ کی شرح میں بے تحاشہ اضافہ ہوا جسکی وجہ سے بہت سے کاروبار بند ہوگئے جبکہ پیداوار بری طرح متاثرہوئی اور برآمدات گر گئیں۔ جی ڈی پی کی شرح تشویشناک حد تک کم ہوگئی اورعوام ملکی مستقبل سے مایوس ہوگئی جسکی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ روزگار کی تلاش میں دیگر ممالک کا رخ کرنے لگے۔

ماضی کی حکومتوں نے سستی شہرت کے لئے جو اقدامات کئے تھے انکی وجہ سے اس سال کے دوران گردشی قرضوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا اور لوگ ضروریات زندگی کی اشیاء بیچ کر بل ادا کرنے پر مجبور ہوگئے اور بجلی کے بلوں نے کچھ افراد کوخودکشیوں پر مجبورکردیا۔ اس سال کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا درجنوں فوجی جوانوں نے جام شہادت نوس کیا جسکی وجہ سے پڑوسی ممالک سے تعلقات خراب ہوئے اورپاکستان میں غیر قانونی طور پرمقیم افراد کو نکالنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تاہم سیکورٹی کی صورتحال مخدوش ہی رہی جبکہ اسی سال کے دوران فوج نے معیشت کو بہتر بنانے کے لئے قابل تعریف اقدامات کئے جن میں ایس ائی ایف سی کا قیام شامل ہے۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان، نگران حکومت کا قیام، پی ٹی آئی کے خلاف قانونی اقدامات اور سابق وزیراعظم عمران خان کی سزا جبکہ نواز شریف کی واپسی اس سال کے اہم ترین سیاسی واقعات میں شامل ہیں۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ معاشی معاملات میں فوج کے کردار سے معاملات بہتر ہوئے ہیں، بیرونی دوست ممالک کی جانب سے بھاری سرمایہ کاری کا امکان بڑھ گیا ہے اور اس تکلیف دہ سال کے اختتام پرحالات میں بہتری آنا شروع ہوگئی ہے ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو بریک لگی ہیاور امید ہے کہ سیاسی و معاشی معاملات بہتری کی طرف جائیں گے۔

مستقبل کے کاروباری حالات کے متعلق توقعات کے حوالے سے سوال کے جواب میں حیرت انگیز طورپر 61فیصد کاروباری اداروں نے مثبت توقعات کا اظہار کیا ہے جبکہ 38فیصد نے حالات مزید خراب ہونے کے خدشے کا اظہار کیاہے۔ سروے کے نتائج کے مطابق مستقبل کے کاروباری اعتماد کانیٹ اسکور 42فیصد بہتری کے ساتھ 22فیصد مثبت رہا۔ ملک کی سمت کے بارے میں کاروباری اداروں کے تاثرات میں بھی گزشتہ 2 سہ ماہی کے مقابلے میں بہتری آئی ہے اور 26فیصد جواب دہندگان کے مطابق پاکستان درست سمت میں جارہاہے ۔ملک کی سمت کے بارے میںاعتماد کا نیٹ اسکورگزشتہ سہ ماہی کے مقابلے میں 30فیصد بہتری کے ساتھ منفی 47فیصد ہوگیا ہے ۔ تاہم 2022سے جاری معاشی بحران عروج پر ہونے کی وجہ سے کاروباری اداروں کا مجموعی اعتماد کم ہے ۔ اس سال کے آغاز سے ملک میں معاشی عدم تحفظ مزید بڑھ گیا ہے لیکن اس کے باوجود اس سہ ماہی میں کاروباری صورتحال کے اسکور میں 25فیصد بہتری آئی ہے۔ دوسری سہ ماہی کے سروے کے نتائج کی طرح اس سہ ماہی میں بھی زیادہ ترکاروباری اداروں کا مسئلہ مہنگائی ہے اور 10میں سے 3کاروباری ادارے چاہتے ہیں کہ حکومت قیمتوں میں اضافے کا مسئلہ حل کرے۔

سروے کے نتائج کے مطابق تیسری سہ ماہی میں زیادہ تر جواب دہندگان سیاسی عدم استحکام کے بارے میں فکر مند ہیں۔ ایک طرف گزشتہ سہ ماہی کے مقابلے میںروپے کی قدر میں کمی اور ایندھن کی قیمتوں کے بارے میں تشویش میں کمی آئی ہے جبکہ دوسری طرف کاروباری ادارے اب ملک میں ٹیکسز اور لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے زیادہ فکر مند ہیں ۔ ملازمین کی چھانٹی کے بارے میں پوچھے گے سوال کے جواب میں10میں سے 4شرکاء نے اثبات میں جواب دیا کہ کاروباری حالات کی وجہ سے گزشتہ سہ ماہی کے مقابلے میں ان کی افراد قوت 11فیصد کم ہوئی ہے۔ سروے میں شامل نصف سے زائد کاروباری اداروںنے بتایاکہ کہ ان کی پیداوری قیمتوں میں اضافہ ہواہے اور گزشتہ سہ ماہی میں زیادہ کاروباری اداروں نے پیداواری قیمتوں میں اضافہ کیا جبکہ اس کے مقابلے میں اس سہ ماہی میں کم کاروباری اداروں نے اپنی پیداواری قیمت میں کمی کی ہے۔ کاروباری اداروں کی اکثریت 73فیصد کوامید نہیںہے کہ نگران وزیرِ اعظم انوارالحق کاکڑ کی نگران حکومت کاروباری مسائل حل کرے گی جبکہ 25فیصد کاروباری ادارے پُر امید ہیں کہ نگران حکومت ان کے کاروباری مسائل حل کرے گی۔

لوڈ شیڈنگ کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں اس سہ ماہی میں 38فیصد کاروباری اداروں نے مثبت جواب دیا جوکہ گزشتہ سہ ماہی کے مقابلے میں 31فیصد کمی کو ظاہر کرتاہے۔
گیلپ پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور گیلپ بزنس کانفیڈنس انڈیکس پاکستان کے چیف آرکیٹکٹ بلال اعجا ز گیلانی نے کہاکہ گیلپ بزنس کانفیڈنس کی اس سہ ماہی رپورٹ میں یہ مثبت خبر ہے کہ ملک میں کاروباری جذبات میں مسلسل کمی دیکھنے کے بعد بہتری آرہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ اور مستقبل کا کاروباری اعتماد بہتری کی جانب گامزن ہے اور ملک کی سمت کے حوالے سے کاروباری برادری کے نقطہ نظر میں نمایاں بہتری دیکھی گئی ہے۔

بلال اعجاز گیلانی نے کہاکہ ہمیں امید ہے کہ اسٹاک ایکسچینج انڈیکس کی کارکردگی ، کرنٹ اکائونٹ خسارے میں بہتری، آئی ایم ایف کے قرض کی قسطوں کے مثبت نتائج اور اسمگلنگ کے حوالے سے پالیسی میں نسبتاًمستقبل مزاجی وہ بنیادی عوامل ہیں جو آنے والی سہ ماہی میں کاروباری اعتماد میں بہتری کا باعث بن سکتے ہیں۔ موجودہ سروے کاروباری اعتماد کا گیارہواں سروے ہے جوکہ گیلپ پاکستان نے ملک بھر میں کیاہے۔ بزنس کانفیڈنس انڈیکس ایک اہم بیرومیٹر ہے جو کسی بھی ملک میں کاروباری برادری کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اور اسے پوری دنیا میں پالیسی ساز ادارے استعمال کرتے ہیں ۔یہ سروے 2023کی تیسری سہ ماہی میں پاکستان بھر کے تقریباً530کاروباری اداروں کے ساتھ کیا گیا۔

حماس اسرائیل جنگ کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر پورے عالم کی طرح پاکستان بھی متاثر ہو رہا ہے سالٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ایس ایم اے پی) نے فریٹ چارجز میں بے پناہ اضافے اور بحیرہ احمر میں سیکورٹی کی خطرناک صورتحال کے باعث سالٹ انڈسٹری پر مرتب ہونے والے تباہ کن اثرات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے فوری مداخلت اور صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے مو ¿ثر اور بروقت اقدامات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ پاکستان کی نمک کی صنعت کو تباہی سے بچایا جاسکے۔ایس ایم اے پی کے قائم مقام چیئرمین قاسم یعقوب پراچہ نے اس نازک صورتحال کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ نمک کے برآمد کنندگان ایک غیر معمولی بحران سے گزر رہے ہیں۔بحیرہ احمر میں رکاوٹوں نے بحری جہازوں کے اہم راستے بدلنے پر مجبور کردیا ہے جس کے نتیجے میں جہاز رانی کے اخراجات میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے اور سالٹ کے بزنس پر بہت زیادہ بوجھ پڑ رہا ہے نیز معاشی اثراتسے ہزاروں لوگوں کی روزی روٹی اور نمک کی برآمدی صنعت کے استحکام کو شدید خطرات لاحق ہیں۔انہوں نے نمک کے برآمدکنندگان کو درپیش کثیر جہتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جامع حکومتی ردعمل کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے فریٹ چارجز کو ریگولیٹ اور مستحکم کرنے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ فریٹ چارجز کے اخراجات کو مستحکم کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

مجوزہ تجویز میں عارضی سبسڈیز پر بات چیت، شپنگ ریٹس یا متبادل راستے شامل ہیں تاکہ برآمدکنندگان بلاکسی رکاوٹ اور تاخیر اپنی سرگرمیوں کو یقینی بناسکیں۔انہوں نے اخراجات کو مستحکم کرنے کے علاوہ نمک کے برآمد کنندگان کے لیے ہدفی مراعات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ لاگت کے فرق کو پْر کرنے، صنعت، اس سے منسلک ملازمتوں کے تحفظ اور برآمدی نمو کو تیز کرنے کے لیے فریٹ چارجز میں چھوٹ یا عارضی ٹیکس ریلیف جیسے اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔قاسم پراچہ نے پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن ( پی این ایس سی)کے اہم کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہماری نیشنل شپنگ لائنز اپنے بیڑے میں مزید جہازوں کو شامل کرکے اور اس روٹ پر عارضی طور پر کام کر کے مذکورہ بحران سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔

دنیا بھر میں امریکا اور اسرائیل کی تباہ کن جنگ نے عالمی معیشت کو ایک مرتبہ پھر تباہ کن صورتحال سے دو چار کر دیا ہے اور اب یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ یہ جنگ مزید 6سے 8ماہ تک جاری رہ سکتی ہے اس کے منفی اثرات صر ف اور صرف دنیا بھر کے غریب عوام پر پڑیں گئے جس سے نجات کے حکومتی سطح پر ضروری اقدامات کی ضرورت ہے۔
nn