مزید خبریں

آزادانہ انتخابات ہوں گے‘ شفاف اور منصفانہ کی ضمانت نہیں

اسلام آباد (رپورٹ:میاں منیر احمد) آزادانہ انتخابات ہوں گے‘ شفاف اور منصفانہ کی ضمانت نہیں ہے‘ آزادانہ بھی اس طرح سمجھیں جائیں گے کہ جہاں جس کا زور چلے گا‘ آزادی کے ساتھ ٹھپے بھی لگائے گا اور دھاندلی بھی کرنے کی کوشش کرے گا‘ لگ بھگ سبھی سیاسی جماعتیں لیول پلیئنگ فیلڈ کی مانگ کرتی نظر آ رہی ہیں‘ تحریک انصاف اِس وقت کم و بیش اُسی طرح کے حالات کا شکار ہے جن کا سامنا گزشتہ عام انتخابات میں ن لیگ کو تھا،پی ٹی آئی پر تو کڑا وقت ہے لیکن دیگر سیاسی جماعتیں نجانے کس بنیاد پر ’’لیول پلیئنگ فیلڈ‘‘ نہ ہونے کا شکوہ کر رہی ہیں ۔ان خیالات کا اظہارپیپلزپارٹی کے نمائندے اور تاجر رہنماعمران شبیر عباسی، مسلم لیگ (ض) کے سربراہ محمد اعجاز الحق، تحریک انصاف کے رہنما افتخار احمد چودھری،فیڈریشن رئیلٹرز پاکستان کے مرکزی رہنما اسرار الحق مشوانی اورکالم نگار دانش ور جاوید الرحمن ترابی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا آئندہ انتخابات آزادانہ‘منصفانہ اور شفاف ہوں گے؟ عمران شبیر عباسی نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ذات، برادری کے علاوہ اب پیسہ بھی الیکشن کا اہم جز بن گیا‘ اور سیاسی جماعتوں کا منشور دیکھ کر ووٹ دینے کا کم ہی رواج رہ گیا ہے‘ جب ملک میں یہ ماحول بن جائے تو پھر سیاسی جماعتیں بھی ٹکٹ دیتے ہوئے اس بات کا جائزہ لیتی ہیں کہ کون سا امیدوار پیسے والا ہے اور اس کی برادری بھی اس کے ساتھ ہے یا نہیں کیونکہ ملک میں اس وقت یہ صورت حال ہے کہ اگر کسی امیدوار کے پاس پیسہ ہے اور اس کے اپنے دائرہ اختیار میں10 ہزار ووٹ بھی ہیں تو پارٹی ایسے ہی امیدوار کو ٹکٹ دینا ترجیح سمجھتی ہے‘ آزادانہ، منصفانہ اور شفاف الیکشن کامطلب یہ ہوتا ہے کہ عوام اپنی مرضی کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے منشور دیکھ کر ووٹ دیں اور ان پر کسی قسم کا دبائو نہ ہو‘ ضروری نہیں ہے کہ انتظامیہ ہی دھاندلی کرتی ہو‘ کسی بھی ووٹر پر اس کی برادری کا دبائو بھی دھاندلی کی ہی ایک شکل ہے لہٰذا ملک میں انتخابات تو ہوجائیں گے‘ باقی شرائط پوری ہوں گی یا نہیں اس کا کچھ پتا نہیں ہے۔ اعجاز الحق نے کہا کہ منصفانہ اور شفاف الیکشن ملک کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے حقیقی نمائندے قومی اسمبلی میں پہنچیں‘ پہلے تو انتخابات کے ہونے یا نہ ہونے کی بحث تھی لیکن اب عدالت عظمیٰ نے حلقہ بندیوں پر اعتراضات مسترد کرتے ہوئے انتخابات میں تاخیر کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ عدالت عظمیٰنے کہا ہے کہ ’’سمجھ نہیں آتی سارے کیوں چاہتے ہیں کہ الیکشن میں تاخیر ہو‘ ہم تاخیر نہیں ہونے دیں گے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایسا مائنڈ سیٹ موجود ہے جو بروقت انتخابات کے راستے میں روڑے اٹکانے کی کوشش کرتا رہا ہے‘ ایسی کوشش آزادانہ اور منصفانہ اور شفاف انتخابات کی راہ میں رکاوٹ ہی سمجھی جاتی ہے‘ اب عدالت عظمیٰکی طرف سے واضح طور پر یہ فیصلہ دے دیا گیا ہے کہ انتخابات بہر صورت 8 فروری کو ہوں گے‘ اس کے بعد انتخابات میں تاخیر یا التوا کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ بس دعا کرنی چاہیے کہ انتخابات منصفانہ بھی ہوجائیں۔ افتخار احمد چودھری نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے فیصلہ دیدیا ہے کہ انتخابات بہر صورت 8 فروری کو منعقد کیے جائیں‘ ابھی حال ہی میں آر اوز کو لے کر الیکشن موخر کرانے کی کوشش کی گئی تھی‘ نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے انتخابات پہلے ہی کچھ تاخیر کا شکار ہوچکے ہیں‘ ان پر اعتراضات کے لیے ایک مخصوص مدت مقرر کی گئی تھی‘ اس کے بعد کسی بھی شکایت کا کوئی جواز نہیں رہتا‘ عدالت عظمیٰ کی طرف سے انتخابات 8 فروری کو منعقد کرنیپر مزید کمٹمنٹ دکھائی گئی ہے‘ انتخابات کے حوالے سے کسی کو کوئی ابہام تھا تو وہ دور ہو جانا چاہیے‘ اور نگراں حکومت کو چاہیے کہ اب وہ ملک میں منصفانہ انتخابات کرائے جو اس کا اصل مینڈیٹ ہے‘ آئندہ سال8 فروری کو عام انتخابات کا انعقاد اب یقینی ہو چکا ہے‘ انتخابات کے انعقاد کو روکنے کی کوشش بھی دھاندلی ہی کہلاتی ہے اور لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنا بھی دھاندلی ہے‘ اگر یہی ماحول رہا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آزادانہ انتخابات اور منصفانہ چنائو ہوسکے ‘ اب جب کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد انتخابات کے التوا کی افواہیں بھی دم توڑ گئی ہیں‘حلقہ بندیوں کی آڑ میں انتخابات کے التوا کے لیے عدلیہ کا سہارا لینے کی کوشش کی گئی جو فاضل عدالتِ عظمیٰ نے ناکام بنا دی ‘نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے بھی انتخابات کے صاف شفاف ہونے کا یقین دلایا اور کہا کہ انتخابی ماحول میں الزامات تو معمول کی بات ہے۔ سیاسی جماعتوں کے دعوئوں کا فیصلہ عوام انتخابات میں اپنے ووٹ کے ذریعے کریں گے‘ دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ نگراں حکومت دھاندلی سے پاک الیکشن کرائے‘ اس میں کوئی2 رائے نہیں کہ تسلسل کے ساتھ انتخابات کا عمل جاری رکھ کر ہی جمہوری نظام کو مستحکم بنایا جا سکتا ہے اور جمہوریت کی گاڑی کو ڈی ریل ہونے سے بچایا جا سکتا ہے‘ اسی میں ملک اور سسٹم کی بقا ہے اور جمہوریت کے تسلسل سے بالآخر عوام کو بھی سلطان جمہور کے ثمرات ملنا شروع ہو جائیں گے‘ سیاسی جماعتیں انتخابات کے لیے یکسو اور پرعزم ہوں گی تو کسی کو بھی جمہوری نظام میں نقب لگانے یا خلل ڈالنے کا موقع نہیں مل سکے گا۔ اسرار الحق مشوانی نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات 2024ء کے لیے ضابطہ اخلاق جاری کر دیا جس کے مطابق سیاسی جماعتوں، امیدواروں اور انتخابی ایجنٹوںکو پابند کیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسی رائے کا اظہار یا کوئی ایسا عمل نہیں کر سکتے جو نظریہ پاکستان یا ملک کی خود مختاری، سالمیت اور سلامتی کے خلاف ہو، جس سے اخلاقیات یا امن و امان کو نقصان پہنچے، جس میں عدلیہ کی آزادی یا خود مختاری کو نشانہ بنایا جائے یا پھر اِس سے عدلیہ یا افواجِ پاکستان کی تضحیک کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔ جاری کردہ ضابطہ اخلاق کے مطابق صدر، وزیراعظم، سینیٹ کے چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی، نگراں وفاقی اور صوبائی وزرا اور مشیر، گورنر، وزرائے اعلیٰ، میئر، چیئرمین اور ناظم کسی بھی حلقے کی انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکیں گے تاہم ممبران سینیٹ و لوکل گورنمنٹ کو اِس مہم میں حصہ لینے کی اجازت ہو گی‘ اگر نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن اپنے کہے ہوئے پر عمل کرائیں گے تو انتخابات منصفانہ ممکن ہوںگے۔ جاوید الرحمن ترابی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے عام انتخابات2024ء کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ (مساوی مواقع) دینے کے احکامات جاری کیے ہیں‘ گزشتہ چند ماہ سے تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، ن لیگ، جے یو آئی ف، اور دیگر جماعتیں لگ بھگ سبھی سیاسی جماعتیں لیول پلیئنگ فیلڈ کی مانگتی نظر آ رہی ہیں۔ تحریک انصاف اِس وقت کم و بیش اُسی طرح کے حالات کا شکار ہے جن کا سامنا گزشتہ عام انتخابات میں ن لیگ کو تھا‘ پی ٹی آئی پر تو کڑا وقت ہے لیکن دیگر سیاسی جماعتیں نجانے کس بنیاد پر ’’لیول پلئینگ فیلڈ‘‘ نہ ہونے کا شکوہ کر رہی ہیں۔