مزید خبریں

بدترین مندی

انڈیکس66ہزار ، 65ہزار،64ہزار،63ہزار اور62ہزار پوائنٹس سےنیچے چلا گیا؟

غیر یقینی صورتحال اور سیاسی افق پر ہر گزرتے دن کےساتھ تبدیلی کی کیفیت سرمایہ کاروں کے اعتماد کوٹھیس پہنچا رہی ہے
ان وجوہات کیےباعث سرمایہ کار نئی پوزیشن لینے سے گریزاں ہیں اور سرمایہ کاری سے بھی ہاتھ کھینچ رہے ہیں
جن کمپنیز کے حصص ا سٹاک مارکیٹ میں موجود ہوتے ہیں ان کمپنیوں کے حصص یافتگان مارکیٹ میں مندی کے باعث براہ راست متاثر ہوتے ہیں

آرمی چیف کے دورے کے دوران اسٹاک مارکیٹ میں جس تیزی کا آغاز کیا تھا مارکیٹ نامعلوم وجوہات کے باعث اب مندی سے دوچار ہے اور اس میں بہتری کے لیے عام آج بھی انتظار میں ہے۔ لیکن پاکستان اسٹاک مارکیٹ گذشتہ ہفتے شدید ترین مندی کے بعد کریش ہو گئی ،کے ایس ای 100 انڈیکس44400پوائنٹس گھٹ گیا۔ جن کمپنیوں کے حصص ا سٹاک مارکیٹ میں موجود ہوتے ہیں ان کمپنیوں کے حصص یافتگان مارکیٹ میں مندی کے باعث براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ دوسری طرف مارکیٹ میں مندی کی وجہ سے حکومت کی ٹیکس کولیکشن میں کمی آتی ہے جس سے ایک عام شہری بالواسطہ طورپر متاثر ہوتا ہے۔حکومت کی ٹیکس کولیکشن کم ہوگی تو شہریوں پر ٹیکس کم خرچ ہوگا‘۔ انہوں نے کہا کہ بازار حصص میں تیزی کا مطلب ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے روزگار کے مواقع بھی بڑھتے ہیں اور براہ راست ملکی معیشت پر اثرا نداز ہوتی ہے۔لیکن پاکستان ایسا کیوں نہیں ہو تا اس بارے میں کسی کو کچھ اس لیے معلوم نہیں ہو تا کہ عام طور پر تیزی میں کچھ ایسے لوگ سرمایہ کار سرمایہ کاری کر رہے ہوتے ہیں جن کا مارکیٹ سے براہ راست کو ئی سروکا رنہیں ہوتا ہے ۔

22دسمبر کو بدترین مندی سے انڈیکس66ہزار ، 65ہزار،64ہزار،63ہزار اور62ہزار پوائنٹس کی بالائی حدوں سے نیچے چلا گیا جس کی وجہ سے انڈیکس 66100پوائنٹس کی بلندسطح سے گھٹ کر 61700پوائنٹس کی پست سطح پر آگیا۔ کاروباری مندی سے مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کے 5 کھرب 96ارب روپے سے زاید روپے بھی خسار ہ ہو اجس کے نتیجے میں سرمائے کا مجموعی حجم 95 کھرب روپے سے گھٹ کر89کھرب روپے رہ گیا جبکہ64.16فیصد حصص کی قیمتیں بھی گھٹ گئیں۔پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں گذشت ہفتے4دن مندی کے بادل چھائے رہے اس دوران انڈیکس 4670.48پوائنٹس لوز کر گیا تاہم ایک دن کی تیز ی سے انڈیکس نے 245.56پوائنٹس ریکور تو کر لئے مگر مندی کے اثرات غالب رہنے سے مارکیٹ منفی زون میں زیادہ دیکھی گئی۔اسٹاک ماہرین کے مطابق عام انتخابات کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال اور سیاسی افق پر ہر گذرتے دن کے ساتھ بدلاکی کیفیت سرمایہ کاروں کے اعتماد کوٹھیس پہنچا رہی ہے جس کی وجہ سے وہ نئی پوزیشن لینے سے گریزاں ہیں اور سرمایہ کاری سے بھی ہاتھ کھنچ رہے ہیں جبکہ بعض مقامی انسٹی ٹیوشنز اور بروکریج ہا?سز فروخت کو بھی ترجیح دے رہے ہیں جس سے مارکیٹ مسلسل تنزلی کا شکار دیکھائی دیتی ہے۔ پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں گذشتہ ہفتے کے ایس ای 100انڈیکس میں 4424.92پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی جس سے انڈیکس 66130.02پ وائنٹس سے گھٹ کر6 1705.09پوائنٹس پر بند ہوا جبکہ 1482.02 پوائنٹس کی کمی سے کے ایس ای 30 انڈیکس 22043.85پوائنٹس سے کم ہوکر 20561.83پوائنٹس پر آگیا اسی طرح کے ایس ای آل شیئرز انڈیکس 44049.22پوائنٹس سے کم ہو کر41281.98پوائنٹس ہو گیا۔کاروباری مندی سے مارکیٹ کے سرمائے میں 5کھرب 96 ا رب 21ک روڑ 89ل اکھ 18ہ زار 980 روپے کی کمی واقع ہوئی جس کے نتیجے میں سرمائے کا مجموعی حجم 95 کھرب 43 ارب 42ک روڑ 17 لاکھ 83 ہزار 556 روپے سے کم ہو کر 89کھرب 47ارب 20 کروڑ 28ل اکھ 64ہ زار 576 روپے ہو گیا۔ پاکستا ن اسٹاک مارکیٹ میں گذشتہ ہفتے کاروباری تیزی سے ٹریڈنگ کے دوران ایک موقع پر 100انڈیکس 66586.62پ وائنٹس کی بلند سطح کو چھو گیا تھا تاہم مندی کی لہر آنے سے انڈیکس 61082.50 پوائنٹس کی پست سطح پر بھی ٹریڈ ہوتا دیکھا گیا۔گذشتہ ہفتے زیادہ سے زیادہ 24ارب روپے مالیت کے 1ارب 89 کروڑ 4 لاکھ24ہزار حصص کے سودے ہوئے جبکہ کم سے کم13ارب روپے مالیت کے 6کر وڑ71ل اکھ 50ہزار حصص کے سودے ہوئے تھے۔پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں گذشتہ ہفتے مجموعی طور پر 1839کمپنیوں کا کاروبار ہوا جس میں سے612کمپنیو ں کے حصص کی قیمتوں میں اضافہ ،1180میں کمی اور47کمپنیو ں کے حصص کی قیمتوں میں استحکام رہا۔کاروبار کے لحاظ سے ورلڈ کال ٹیلی کام ،کے الیکٹرک لمیٹڈ ،سنر جیکو پاک ،حیسکول پیٹرول ،بینک آف پنجاب ،پاک الیکٹرون ،فوجی فوڈز لمیٹڈ ،کوہ نور اسپننگ ،پی ٹی سی ایل ،پاک انٹر نیشنل بلک ،پاک پیٹرولیم ،پاک ریفائنری اور ایگری ٹیک لمیٹڈ سر فہرست رہے۔

15 دسمبر کو جب مارکیٹ بند ہوئی تو ابتدائی ٹریڈنگ کے دوران زبردست تیزی نظر آئی یہ تیزی 16نومبر سے اسٹاک مارکیٹ میں جاری ہے جو عالمی معاشی صورتحال سے مطابق نہیں رکھتی، گزرے ہفتے سے پیوستہ ہفتے کے دوران کے ایس ای-100 انڈیکس 679 پوائنٹس اضافے کے بعد 66100 پوائنٹس کی نفسیاتی حد عبور کر گیا، ٹریڈنگ کے دوران ایک موقع پر انڈیکس 66346 پوائنٹس تک بھی پہنچا تھا۔ اسٹاک ماہرین کے مطابق متعدد مثبت پیش رفت کی وجہ سے مارکیٹ میں اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے ممکنہ طور پر غیر ملکی سرمایے کو راغب کرنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ یہ غیر ملکی ہی مارکیٹ سے فرار ہونے میں دیر نہیں لگاتے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں کہا جارہا ہے مارکیٹ میں استحکام نظر نہیں آرہا۔ اس کی وجہ یہ ہے مارکیٹ کے سرمائے میں جس تیزی سے اضافے کی ضرورت ہے وہ نظر نہیں آرہی ہے۔

ساری دنیا میں حماس اسرائیل جنگ کی وجہ سے معیشت میں بہتری دور دور تک نظر نہیں ا?رہی۔ روس اور اوپیک پلس کے ممالک مسلسل اس بات پر عمل کر رہے ہیں کہ تیل کی پیداوار میں کمی کی جائے۔ اس طرح کی صورتحال میں یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے کے شکار عام ا?دمی کی زندگی پر اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کے مثبت اثرات پڑیں گے؟ اور عوام کی معاشی مشکل میں کیا فرق پڑے گا؟ کئی تجزیہ کار اس پر شک کا اظہار کرتے ہیں کہ اسٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ توڑ تیزی کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ لیکن بظاہر ایسا دور تک نظر نہیں آ رہا۔ اسٹاک مارکیٹ میں ڈھائی سے پونے تین لاکھ تک چھوٹے بڑے سرمایہ کار کام کرتے ہیں۔ چھوٹے سرمایہ کار کی تعداد بہت کم مالیت کے ساتھ ایک لاکھ بتائی جاتی ہے لیکن اس سے انکار مشکل ہے بڑے سرمایہ کار جو کچھ بھی مارکیٹ میں کام کرتے ہیں اس میں چھوٹے سرمایہ کاروں کا حصہ زیادہ ہو تا ہے۔ سوال یہی ہے کہ کیا موجودہ تیزی پاکستان کی معیشت بہتری کی نشاندی کر سکتی ہے؟ جس کا جواب مثبت نہیں دیا جاسکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں جب بھی اسٹاک مارکٹ میں مندی کا راج ا?یا ہے اس سے چھوٹے بڑے اور درمیانے سرمایہ کار تباہ ہو گئے۔

شاید یہ لکھنا درست ہو گا کہ امریکا کے اتحادیوں کے سب ہی ملکوں میں معیشت کا گراف اْوپر کی جانب نظر ا?رہا ہے۔ ایک سال سے ا?ئی ایم ایف کے ایجنڈے میں پاکستان دور دور تک نظر نہیں ا?رہا تھا لیکن اب ایسا نہیں۔ عمران حکومت کے دور میں پٹرول 150 روپے پر رک گیا تھا لیکن شہباز شریف نے 180 روپے لیٹر اور موجودہ عبوری حکومت نے پٹرول کو مہنگا کرنے کی تمام سرحدیں پار کر لی تھیں۔ حکومت پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے (ا?ئی ایم ایف) سے کامیاب مذکرات کے بعد 4برسوں جاری مندی میں بہت تیزی نظر ا?رہی ہے لیکن یہ سب کچھ اچانک ہونے کی وجہ سے شک سرمایہ بھوت ابھرتا نظر ا?رہا ہے۔ جس کے بعد پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ تاہم ایسے میں یہ سوال بھی ا?ٹھایا جا رہا ہے کہ اس تیزی کا عام ا?دمی کی زندگی پر کیا اثر پڑے گا اور اس کے ثمرات عام ا?دمی تک کب پہنچیں گے؟ اسٹاک ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے ملک کے ڈیفالٹ کے خطرات میں کمی اور معاشی بحالی کے اثرات نظرا?نے لگے ہیں، تاہم کچھ معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی ضرورت ہے۔

مارکیٹ ذرائع کہتے ہیں انڈیکس میں تیزی کے باوجود مارکیٹ کے مجموعی سرمایہ جمود کا شکا ر ہے۔ تقریباً ایک ماہ سے پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ میں تاریخی تیزی دیکھی جا رہی ہے اور مارکیٹ انڈیکس میں ایک ماہ میں 10 ہزار پوائنٹس کا اضافہ ہو چکا ہے۔ 16نومبر سے مارکیٹ مسلسل تیزی کی جانب گامزن ہے کو ستمبر میں 45 ہزار اور اکتوبر کے شروع میں 46 ہزار پوائنٹس پر کھڑی تھی۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ اضافے کی متعدد ٹھوس وجوہات موجود ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ اسٹاک مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں مزید اضافہ نہ کرنے کے امکانات روشن ہونے اور کارپوریٹ سیکٹرز کے منافع میں مسلسل اضافے جیسے اشاروں کے باعث مارکیٹ کی کارکردگی اچھی نظر ا?رہی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلسل دو ماہ سے شرح سود میں کمی نے مارکیٹ ہی نہیں پوری معیشت میں کچھ نہ کچھ بہتری کے ا?ثار نمایاں کر دیے، مارکیٹ میں 15 نومبر کے بعد سے بینک، فرٹیلائزرز، تیل اور گیس کے ذخائر تلاش کرنے والی کمپنیوں اور دیگر شعبوں میں بڑی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ پاکستان انویسٹمنٹ بانڈ کے حال ہی میں ہونے والے ا?کشن میں شرح منافع میں بڑی کمی ا?نے سے اس بات کے امید پیدا ہوئی ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ’’تیل اور گیس کے ذخائر تلاش کرنے والی کمپنیوں‘‘ میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود گیس کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹی فکیشن جاری کر کے کمپنیوں کے منافع کو بڑھایا گیا۔ مارکیٹ میں بہتری کا رحجان دیکھا گیا ہے کیوں کہ سرمایہ کار اس حوالے سے کافی عرصے سے غیر یقینی کا شکار تھے کہ ا?یا یہ اضافہ ہوگا یا نہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اضافے سے گیس کے شعبے میں چار سو ارب روپے کے گردشی قرضے کو کسی حد تک کم کرنے میں مدد ملے گی۔

اسٹاک تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آنے والے مہینوں میں افراطِ زر یعنی مہنگائی کم ہونے کی بھی امید ہے اور اس میں اسٹیٹ بینک کے پاس موقع ہو گا کہ وہ شرح سود مزید کم کردے جس سے کسی حد تک ملک میں کاروبار کرنے میں سہولت پیدا ہو گی۔ تاہم مشرق وسطیٰ میں جاری حماس اسرائیل جنگ کی وجہ سے تیل اور اجناس کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ لیکن فی الحال ایسا نہیں ہوا۔ لیکن اس کے باوجود ایک ماہ میں 10 ہزار پوائنٹس کے اضافے سے ایسا لگتا ہے کہ مارکیٹ اوور ہیٹ ہو رہی ہے اور ا?نے والے دنوں میں مارکیٹ میں ٹیکنیکل کریکشن جس کا مطلب ہوتا ہے کہ مارکیٹ کی حقیقی صورتحال کیا ہے جس میں اسٹاک مارکیٹ میں کچھ حد تک مندی بھی نظر ا?نے کا خدشہ ہے۔ یہ مندی اگر اگر طویل ہوئی تو اس سے مارکیٹ کے جھوٹے سرمایہ کا روں کو نقصان ہوگا۔ ایک جانب تجزیہ کاروں کو امید ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کی اب بھی کافی گنجائش موجود ہے کیوں کہ مارکیٹ میں لگایا گیا سرمایہ پچھلے برسوں کے مقابلے میں کافی کم ہے اور اسٹاک مارکیٹ میں بہتری اپنی جگہ مگر دوسری جانب ملک کے معاشی ڈھانچے میں موجود مسائل کو حل کرنے تک کسی ایسی بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔