مزید خبریں

امریکا اور یورپ حماس کی طاقت اور مزاحمت کی صلاحیت سے خوف زدہ ہیں

 

اسلام آباد ( رپورٹ :میاں منیر احمد) امریکا اور یورپ حماس کی طاقت اور مزاحمت کی صلاحیت سے خوف زدہ ہیں‘ فلسطین کا 2 ریاستی فارمولا بھی یہودی اور مغربی میڈیا کا پیدا کردہ ہے ‘ امریکا اور یورپ اپنے مفادات کی خاطر ہمیشہ اسرائیلی درندگی پر اپنی آنکھیں موند لیتے ہیں‘ حماس نے منصوبہ بندی کے تحت جنگ چھیڑی ‘مسلم حکمرانوں نے جہاد سے منہ موڑ لیا‘ صرف قراردادیں منظور کرانے میں مصروف ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز قانون دان اور سول سوسائٹی کے سینئر ممبر، انسانی حقوق سے متعلق سفارتی امور کے ماہر عامر رضا ایڈووکیٹ‘دانشور سفارتی امور کے تجزیہ کار اعجاز احمد اورتحریک انصاف کے افتخار احمد چودھری نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’امریکا اور یورپ غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی کی حمایت کیوں کر رہے ہیں؟ ‘‘عامر رضا ایڈووکیٹ نے کہا کہ اسرائیل کی و حشیانہ بمباری سے اب تک فلسطین میں21 ہزار سے زاید شہادتیں ہو چکی ہیں جس میں بڑی تعداد میں بچے اور خواتین شامل ہیں‘ اسرائیل نے جارحیت کی انتہا کر دی‘ چاروں اطراف موت کا رقص ہے‘ اسرائیلی طیاروں کی بمباری سے کوئی اسپتال اور رہائشی علاقہ محفوظ نہیں رہا ہے‘ امریکا کے ناجائز بچے کے جبر و تشدد کی داستان طویل ہوتی جا رہی ہے‘ قبلہ اول کو چاروں اطراف سے خطرات لاحق ہو چکے ہیں‘ دنیا بھر کا میڈیا طاغوتی
قوتوں کے نرغے میں ہے‘ اُمت مسلمہ جہاد کے فلسفے سے منہ موڑ چکی ہے‘ اسلامی ممالک کے حکمران خوبصورت الفاظ پر مبنی قراردادیں منظور کرانے کی دوڑ میں شریک ہیں‘یہودی لابی کو امریکا بہادر پوری طرح سپورٹ حاصل ہے‘ جو یو این او میں جنگ بندی کے حوالے سے واضح اکثریت سے منظور ہونے والی قرارداد کو بھی تسلیم کرنے سے انکاری ہے‘ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ یورپ نہیںچاہتا کہ اسرائیل کے خلاف کوئی بات کی جائے کیونکہ یورپ حماس سے خوف زدہ ہوچکا ہے لیکن دوسری جانب بے بس مسلمان خون کے آنسو رو رہے ہیں‘ ہم سب اس بات سے پریشان ہیں کہ پاکستان کے ایک حلقے میں یہ بات مسلسل کہی جا رہی ہے کہ ایک مضبوط ناقابلِ تسخیر فوج سے ٹکر لینے کی کیا ضرورت تھی؟ حالانکہ حقیقت یہ ہے گزشتہ17سال سے غزہ محاصرے میں تھا‘ فلسطین میں حماس کی فتح کے باوجود2006ء سے انہیں حکومت نہیں کرنے دی جا رہی تھی‘ ایسا محاصرہ کیا گیا کہ چاروں اطراف فوجی بیرکس بنا دی گئیں‘ فلسطینیوں نے جذباتی فیصلہ نہیں کیا، طویل منصوبہ بندی کے ساتھ میدان میں آئے ہیں۔ اسرائیل فلسطینیوں کو قتل کرنا اور گھروں اور زمینوں سے بے دخل کرنا چاہتا ہے‘ فلسطینی آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں‘ وہ اسرائیل کے ماتحت نہیں رہنا چاہتے‘ فلسطینی مایوس نہیں ہیں‘ اس کے مجاہد نوجوان ایمان کی دولت سے لبریز ہیں‘ حکمت عملی سے ان کے اربوں کے ٹینک تباہ کر رہے ہیں‘ فلسطین کی صورتحال جو بتائی جا رہی ہے سب ٹھیک نہیں ہے‘ میڈیا حقائق نہیں بتا رہا‘2 ریاستی فارمولا بھی مغربی میڈیا کا پیدا کردہ اور یہودی لابی کا منصوبہ ہے۔ قائداعظمؒ کا فرمان سب کے سامنے ہے‘ امن کی خاطر فلسطینیوں کو اسرائیلیوں کے ساتھ رہنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے‘ حماس کے لیے یہ قابل قبول نہیں ہے۔بھیڑیے کے ساتھ کیسے رہا جا سکتا ہے؟ دانشور سفارتی امور کے تجزیہ کار اعجاز احمد نے کہا کہ فلسطینیوں کو اوسلو میں مذاکرات کے 2 ریاستی حل کی راہ دکھائی گئی ہے‘ پاکستانی میڈیا فلسطینیوں کی آزادی کا ہمنوا بنے‘ فلسطینیوں کی جدوجہد کی داستان اور اسرائیل کے ظلم وستم کی کہانی نے ہمیں غمزدہ کر دیا ہے‘ اسرائیل دنیا بھر کے احتجاج کے بعد ایک دفعہ پھر عارضی جنگ بندی پر راضی ہے یہ حل نہیں ہے حماس کی جدوجہد کو نتیجہ خیز بننا ہے‘ فلسطین کو آزاد ہونا ہے، 21 ہزار سے زاید قربانیاں یقینا رنگ لائیں گی۔ افتخار احمد چودھری نے کہا کہ ابھی حال ہی میں 10 دسمبر کو پوری دنیا میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا گیا اور انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر یورپی رہنماؤں نے اپنے بیانات بھی جاری کیے کیونکہ یورپ انسانی حقوق کے معاملات پر بڑا واویلا کرتا ہے اور دنیا کو جتلاتا ہے کہ مغرب کے سوا پوری دنیا انسانی حقوق سے نا بلد تھی یہ مغرب ہی ہے جس نے دنیا کو انسانی حقوق کا ایک دن دے کر انہیں بھی اس دن کی اہمیت کا احساس دلایا ہے۔ یورپ اس دعوے کے ساتھ پوری دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے میں بھی مصروف ہے لیکن یورپی ممالک کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ کسی بھی ملک پر دباؤ ڈالنے کے لیے اسے انسانی حقوق کا دشمن قراردے دیتے ہیں‘ ہم عالمی سطح پر جائزہ لیں تو اقوام متحدہ بھی اب یورپی ممالک کی چاکری میں مصروف ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا انتہائی اہم اور موثر ترین ادارہ سلامتی کونسل ہے اور سلامتی کونسل وہ ادارہ ہے جس کا کوئی بھی فیصلہ مغرب کے 3 ممالک امریکا، روس اور برطانیہ کی مرضی یا منظوری کے بغیر نہیں ہوتا‘ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اور بھارت آئے دن انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں لیکن اقوام متحدہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر رہا‘ اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ اس لیے کوئی فیصلہ نہیں لے سکتا، کیونکہ اس فیصلے کو ویٹو کرنے کے لیے امریکا، فرانس اور برطانیہ موجود ہیں۔ اسرائیل 2 ماہ سے روزانہ غزہ پر بمباری کر رہا ہے‘ ہزاروں افراد شہید ہو چکے ہیں اور ان ہزاروں میں80 فیصد بچے شامل ہیں لیکن اس کے باوجود انسانی حقوق کی خلاف ورزی حماس کر رہا ہے اور یورپ جو خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن گردانتا ہے اور جہاں بھی دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے وہاں اس کے خلاف آواز بلند کرنا اپنا فریضہ سمجھتا ہے لیکن جب بھی اسرائیلی درندگی کی باری آتی ہے تویورپ اپنی آنکھیں موند لیتا ہے اور چپ سادھ لیتا ہے‘ فلسطین کے مسئلے پر نہ صرف اسرائیل کو اسلحہ مہیا کیا جا رہا ہے اور الٹا جن پر بمباری کی جا رہی ہے انہیں ہی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مجرم قرار دیا جا رہا ہے۔