مزید خبریں

مزاحمت کہ وجہ سے سامراج اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا

اسلام آباد ( رپورٹ :میاں منیر احمد) مزاحمت کی وجہ سے سامراج اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا‘ حماس کا پیغام ہے جہاد کی راہ اپنا کر ہی اسرائیل کو شکست دی جاسکتی ہے ‘7اکتوبرکو فلسطینی مزاحمتی تنظیم کے حملے نے دنیا بھر کے نہتے عوام کو حوصلہ دیا‘غزہ میں غذائی بحران سنگین ہو گیا‘فلسطینیوں کو امت مسلمہ سے مدد کی امید پوری نہیں ہوئی‘لیگ آف نیشنز کی طرح یو این او کی افادیت بھی ختم ہو رہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار عدالت عظمیٰ کے قانون دان اور انٹر نیشنل لا کے ماہر ڈپلومیٹک امور کے ماہر حسنین کاظمی‘ سن گلو کے چیئرمین مدثر فیاض چودھری‘ دانشور چودھری محمد شفیق، بلوچ دانشور، براہوی اکیڈمی کے چیئرمین ممتاز قانون دان اور پیپلزپارٹی کے رہنما ڈاکٹر صلاح الدین مینگل نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’حماس کی کامیاب مزاحمت کا پیغام کیا ہے؟‘‘ حسنین کاظمی نے کہا کہ حماس فلسطین کی ریاست کے لیے لڑ رہی ہے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے یہی تاریخی حقائق بھی ہیں لیکن پاکستان نے ایک جانب حماس کی حمایت کا عندیہ دے رکھا ہے اور دوسری جانب پاکستان مسئلہ فلسطین پر 2 ریاستی حل کا حامی ہے‘ اب یہ موقف کیا ہے؟ اس امر کو لازمی بنانے کی ضرورت ہے‘ حماس کی مزاحمت نے جو پیغام مسلم امت کو دیا ہے‘ اس پیغام کو اس کی حقیقی رو ح کے ساتھ سمجھا جائے یہ پیغام یہی ہے کہ جہاد کی راہ اپنا کر ہی سامراج کو شکست دی جاسکتی ہے‘ اس وقت صورت حال یہ بن گئی ہے کہ اگر غزہ میں بمباری بند نہ ہوئی تو پورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے، شاید پھر سرحدی بندش بھی ختم ہو جائے‘ بہتر یہی ہے کہ اسرائیل غزہ پر وحشیانہ بمباری فوری طور پر بند کرے‘ دنیا بھر میں احتجاجی مظاہروں کے باوجود اسرائیلی جارحیت تھمنے کا نام نہیں لے رہی‘ غزہ کے نہتے زخمی اور امداد کے منتظر فلسطینیوں پر بارود کی بارش جاری ہے‘ حالیہ بمباری سے جبالیہ پناہ گزین کیمپ کا پورا ریاستی علاقہ ملیا میٹ ہو گیا‘ خان یونس میں تازہ فضائی حملے کے نتیجے میں تباہ ہونے والی رہائشی عمارتوں کے نیچے درجنوں افراد کے دبے ہونے کی اطلاعات ہیں‘ دوسری جانب صرف حماس تنہا لڑ رہا ہے اور مسلم دنیا متحد نہیں بلکہ تقسیم ہے۔ مدثر فیاض چودھری نے کہا کہ اسرائیل کی جارحیت ختم نہیں ہو رہی ہے‘ حماس مسلسل مزاحمت کر رہا ہے‘ اسے مسلم دنیا کی حمایت کی امید تھی جو نہیں مل رہی ہے البتہ یمن کے حوثی کچھ آگے بڑھے ہیں‘ جنگ بندی ختم ہونے کے بعد سے اب تک 24 گھنٹے میں400 سے زاید حملوں میں 700 فلسطینی شہید جبکہ ایک ہزار سے زاید زخمی ہو چکے ہیں اور اب تک 100 سے زاید تاریخی و ثقافتی عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں‘ دوسری جانب یمنی حوثیوں نے بحیرہ احمر میں اسرائیلی، برطانوی اور امریکی جنگی و تجارتی جہازوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے جس کے بعد امریکا نے بھی جوابی کارروائی کی ہے۔ میری ٹائم ایجنسیوں کے مطابق اِن بحری جہازوں پر ڈرونز کی مدد سے حملے کیے گئے۔ چودھری محمد شفیق نے کہا کہ امریکا اور برطانیہ کھل کر باضابطہ طور پر اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں‘ برطانوی وزارت دفاع نے اعلان کیا ہے کہ قیدیوں کو بچانے کے لیے برطانوی طیارے مشرقی بحیرہ روم، غزہ اور اسرائیل کی فضائی حدود میں پرواز کریں گے‘ حماس نے اسلامی ممالک سے درخواست کی ہے کہ وہ غزہ میں اسرائیلی محاصرہ ختم کرانے کے لیے سرکاری وفود غزہ بھیجیں۔ واضح رہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کے بعد عارضی جنگ بندی ہوئی تھی جس میں 2 دفعہ توسیع ہوئی، یہ جنگ بندی 7 روز تک جاری رہی اور پھر اسرائیل نے دوبارہ غزہ پر حملے شروع کر دیے‘ ان حملوں کی شدت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ حماس نے عالمی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ غزہ میں مظالم کو روکنے کے لیے آگے بڑھیں۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ جیسے جیسے اسرائیل کے ظلم و تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے‘ ویسے ویسے دنیا میں تقسیم بھی بڑھ رہی ہے۔ ایک طرف روس، چین جیسے ممالک مسلم ملکوں کے ساتھ کھڑے ہیں‘ جنگ بندی کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں، مذاکرات کر رہے ہیں اور دوسری طرف انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کے دعویدار امریکا، برطانیہ اور یورپی ممالک ہیں جو اسرائیل کے ہر وحشیانہ اقدام کی حمایت میں کر رہے ہیںگو کہ ان ممالک کے عوام اپنی حکومت کی پالیسی سے اتفاق نہیں کرتے، وہ کھل کر فلسطینیوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور یورپ سمیت دیگر کئی ممالک میں مظلوم فلسطینیوں پر مظالم روکنے کے لیے تاریخی جلوس اور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں‘ ملین مارچ ہو رہے ہیں لیکن حکومتیں اپنے کان دبائے بیٹھی ہیں اور اسرائیل کو شہہ دے رہی ہیں۔ امریکا میں تو عوامی سطح پر ’’بائیڈن روکو مہم‘‘ شروع ہو چکی ہے جس کا مقصد انہیں اگلے صدارتی انتخابات میں امیدوار نامزد ہونے سے روکنا ہے‘ انہیں اسرائیل کی حمایت میں اپنے کردار کی وجہ سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ صلاح الدین مینگل نے کہا کہ اسرائیل اور اس کی پشت پناہ طاقتوں کی جانب سے انسانیت کے سارے ضابطے روند کر رکھ دیے گئے ہیں۔ 18 ہزار جانور مر جائیں تو دنیا میں کہرام مچ جاتا ہے یہ تو 18 ہزار جیتے جاگتے انسان تھے اور 50 ہزار زخمیوں میں سے کتنے ہیں جو معذور ہو گئے ۔ اسرائیلی ظالمانہ جبلت کو دیکھتے ہوئے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ فلسطینی مغویوں کیساتھ قید کے دوران کیا سلوک کیا جا رہا ہوگا۔ ایسے میں جنگ جاری رکھنے کی بات ہو رہی ہے، عزم و ارادے کا ایسے اظہار کیا جا رہا ہے جیسے یہ کوئی بہت بڑا کارِ خیر ہو۔ حماس کے مکمل خاتمے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ کیا آخری فلسطینی کے خاتمے کی یہ جنگ ہے؟ اقوام متحدہ کی طرف سے انسانیت کے اس وحشیانہ اور بہیمانہ قتل پر اپنے ضمیر پر بھاری پتھر رکھ لیا گیا ہے‘ لیگ آف نیشنز کی طرح یو این او کی افادیت بھی ختم ہو رہی ہے‘ کیا اقوام کسی اور عالمی ادارے کی تشکیل پر غور کریں؟ یہ عالم اسلام کے لیے لمحہ فکر ہونا چاہیے، آج ناٹو طرز کا اتحاد بنانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ تمام الحادی قوتیں مسلم دنیا کے خاتمے کے لیے متحد ہو چکی ہیں۔ اقوام متحدہ کے امدادی ادارے ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (آر ڈبلیو اے) نے کہا ہے کہ اسرائیل کا منصوبہ فلسطینیوں کو غزہ سے مصر میں دھکیلنا ہے۔ اسرائیلی فوج کی شمالی غزہ میں تباہی اس منصوبے کا پہلا قدم تھا۔ ایجنسی کا کہنا ہے کہ جنوبی غزہ سے فلسطینیوں کو انخلا کی دھمکی اس منصوبے کا اگلا قدم ہے‘ جنوبی غزہ میں 19 لاکھ فلسطینی بدترین حالات میں پھنسے ہیں۔ امدادی ایجنسی کے مطابق اگر یہی صورتحال رہی تو یہ دوسرا نکبہ ہوگا‘ غزہ کی سرزمین فلسطینیوں کی نہیں رہے گی۔ غزہ میں 23 لاکھ سے زاید فلسطینی پہلے ہی بے گھر اور دوسری جگہ پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ نکبہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی آفت یا تباہی کے ہیں، اور فلسطینیوں کے لیے پہلا نکبہ 1948ء میں ہوا تھا جب صہیونیوں کے ساتھ ہونے والی جنگ کے نتیجے میں تقریباً 7 لاکھ فلسطینیوں کو اپنے علاقوں سے ہجرت کرنا پڑی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ اور اس کے ذیلی اور معاون ادارے اس پوری صورتحال میں تماشائی بن کر دنیا کو صرف یہ بتا رہے ہیں کہ غاصب صہیونی کس طرح غزہ میں معصوم فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں جبکہ غزہ میں اسرائیلی حملوں کی شدت کے باعث غذائی بحران سنگین ہونے لگا اور بیشتر علاقوں میں امداد کی فراہمی ناممکن ہے‘ ایک بیان میں عالمی ادارہ خوراک نے کہاکہ غزہ میں 36 فیصد گھرانے شدید بھوک کا شکار ہیں‘سلامتی کونسل جیو اسٹرٹیجک تقسیم کی وجہ سے مفلوج ہوچکی ہے جس کے نتیجے7 اکتوبر سے جاری غزہ جنگ کی روک تھام کا حل نکالنا مشکل ہو گیا ہے‘ جنگ بندی کی قرارداد میں ناکامی سے سلامتی کونسل کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔
جسارت سے گفتگو