مزید خبریں

ملک کی معاشی بہتری سرمایہ کاری میں اضافہ دہشت گرد ی کاخاتمہ کر ے گی

ملک کی معاشی صورتحال میں بہتری اوردوست ممالک کی جانب سے بھاری سرمایہ کاری کا فیصلہ ہوتے ہی دہشت گردی کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں جو معنی خیز ہیں۔ دشمنوں کو مستحکم پاکستان قابل قبول نہیں ہے اس لئے انھوں نے خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں اضافہ کردیا ہے۔ دہشت گردی کے ایک ہی واقعے میں پاک فوج کے پچیس جوانوں کی شہادت کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے اس واقعے نے پوری قوم کو سوگوار کردیا ہے۔ حکومت اور فوج کی جانب سے دہشت گردوں کو کچلنے کے لئے بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں جن میں مزید تیزی لانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ دہشت گرد ملک کو برباد کررہے ہیں۔

دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کرتے ہوئے انھیں جہنم واصل کرنا ضروری ہوگیا ہے ورنہ وہ پچیس کروڑعوام کے لئے مصیبت بنے رہیں گے اور کسی ترقیاتی منصوبے کو چلنے نہیں دینگے تاکہ پاکستان ایک مفلس ملک بنارہے۔ ٹی ٹی پی کی قیادت ایک پڑوسی ملک میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرکے ملکی سالمیت سے کھیل رہی ہے اورایسے واقعات کی مذمت سے کام نہیں چلے گا بلکہ عالمی برادری اور دوست ممالک کے ساتھ مل کر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں تباہ کاری سے افغانستان بھی محفوظ نہیں رہیگا اس لئے دونوں ممالک کی قیادت کو چائیے کہ مل بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالیں تاکہ خطے میں امن واستحکام اورترقی کا سلسلہ بلا روک ٹوک چلتا رہے۔

عالمی ادارے پاکستان میں الیکشن کے انعقاد میں غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں اور اس سلسلے میں باربار اپنی رائے کا اظہارکررہے ہیں اس لئے کسی بھی صورت میں الیکشن ملتوی نہیں ہونے چائیے اوران میں شفافیت کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے تاکہ الیکشن کے بعد سیاسی رسہ کشی میں کچھ کمی آجائے جس کے بغیر معیشت کو چلانا، اصلاحات کو جاری رکھنا اور ترقی کرنا مشکل ہوگا اور معاشی بحالی کے اہم منصوبے سیاسی مخالفت کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔ موجودہ حکومت نے معاشی استحکام کے لیے قابل قدر کام کئے ہیں تاہم اگر الیکشن کے بعد سیاسی عدم استحکام جاری رہا تو ملکی معیشت کو سنبھالنے کے لئے اٹھائے گئے تمام اقدامات بے نتیجہ ہوجائیں گے اور ملک دوبارہ بھیک مانگنے پر مجبور ہوجائے گا اور اسکا سارا بوجھ انہی لوگوں پر لادا جائے گا جو پہلے ہی زندہ درگور کئے جا چکے ہیں۔

ایک طرف سرمایہ کاری میں کمی اور دوسری جانب ترسیلات زر میں مسلسل کمی پر تشویشناک ہے کیونکہ یہ زرمبادلہ کمانے کا اہم زریعہ ہے۔ دیار غیرمیں مقیم پاکستانی دوبارہ ہنڈی کی مدد سے رقوم بھجوا رہے ہیں اس لئے انکے اعتماد کی بحالی کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ درآمدات میں کمی کی وجہ سے سال رواں میں پہلی بار کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے بجائے سرپلس میں چلا گیا ہے جو خوش آئند ہے۔ ترسیلات زر کے لئے بینکنگ چینلز کا استعمال کم ہو رہا ہے جسکی وجہ سے ترسیلات کا حجم کم ہو رہا ہے مگر اس سلسلہ میں کوئی انکوائری کی گئی نہ ہی وجوہات جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے جو افسوسناک ہے۔

جولائی سے نومبر تک ترسیلات زر11,044.7 ملین ڈالر رہ گئیں جو کہ گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 12,317.8 ملین ڈالر تھیں۔ترسیلات میں 10.3 فیصد کمی اہم ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔لاک ڈاؤن کے دوران ترسیلات زر میں اضافہ ہواکیونکہ لوگ اپنے اہل خانہ کو رقم بھیجنے کے لیے سرکاری چینلز کا استعمال کرنے پر مجبور ہوئے مگر اب ہنڈی کا کاوابار کرنے والے دوبارہ فعال ہو گئے ہیں۔

ڈالر کی قدر کو مصنوعی طور پر کنٹرول کرنے کی غلط پالیسی کی وجہ سے ترسیلات زر میں کمی آئی اور اس سے ہنڈی کے مردہ ہوتے کاروبار کو نئی زندگی ملی۔اس تباہ کن پالیسی کو آئی ایم ایف نے ختم کروا دیا مگر اسکے باوجود ترسیلات توقعات کے مطابق نہ بڑھ سکیں۔اس بات کی تحقیق کی زحمت بھی گوارا نہ کی گئی کہ ڈالر کی اسمگلنگ سمیت کرنسیوں کے غیر قانونی کاروبار کو روکنے کے لیے تمام انتظامی اقدامات کے باوجود ترسیلات میں اربوں ڈالر کی کمی کیوں آ رہی ہے ۔شاہد رشید بٹ نے کہا کہ ترسیلات زر کو راغب کرنے کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات کی ضرورت ہے، کیونکہ طویل غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا معیشت پر اعتماد اپنی کم ہو گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ نومبر میںکرنٹ اکاؤنٹ سرپلس میں چلا گیا جو حوصلہ افزاء ہے۔ نومبر میںکرنٹ اکائونٹ 9 ملین ڈالر سرپلس میں رہا جو پچھلے سال کے اسی مہینے میں 157 ملین ڈالر کے خسارے میں تھا۔ رواں مالی سال کے پانچ مہینوں کے دوران اشیا کی درآمدات 4 بلین ڈالر سے کم ہو کر 21.3 بلین ڈالر رہ گئی ہیںجس سے کرنٹ اکاؤنٹ پر مثبت اثر پڑا۔ رواں مالی سال کے اختتام تک کل کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 6 بلین ڈالر کے لگ بھگ رہنے کا امکان ہے جب کہ اسٹیٹ بینک کے گورنر کا دعویٰ ہے کہ خسارہ جی ڈی پی کے 1.5 فیصد سے تجاوز نہیں کرے گا۔

حکومت کی جانب سے حالیہ گیس کی قیمتوں میںاضافے پر عوام اور تاجر اور صنعتکار سخت تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ گیس کی قیمتوں میں اضافے کے سبب دیگر کے ساتھ ہوٹل انڈسٹری تباہی کے دھانے پر پہنچ گئی ہے عوام کو سستی روٹی فراہم کرنے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تا کہ لوگ بھوک سے نہ مریں حکومت عوام کے منہ سے نوالہ چھین رہی ہے جبکہ گیس اور بجلی کے تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے معیشت پر شدید منفی اثرات مرتب ہو ں گے انہوںنے کہاکہ اوگرا نے گیس پر صنعتی ، کمرشل اورگھریلو صارفین پر300فیصد اضافہ کرکے ہوٹل کے کاروبار کو تباہ کردیا ہے اب ہوٹل پر روٹی کی قیمتوں کو کنٹرل نہیں کیا جا سکتا ۔ عوام پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں گیس کی موجود ہ قیمتیں بڑھ جانے سے تندور کی روٹی کی قیمت پر بڑھ جائے گی عوام کی قوت خرید ختم ہو چکی ہے اس طرح کے اقدامات عوام دشمنی کے مترادف ہیں حکومت گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے کے بجائے اس کی چوری کو روکنے کیلئے سخت اقدامات کرے اور بجلی و گیس کے محکموں میں بد عنوان اور کرپٹ افسران اور عملے کے خلاف کریک ڈائون کیا جائے تا کہ عوام کو سستی بجلی اور گیس دستیاب ہو سکے سوال یہ ہے کہ کیا عوا م مہنگی روٹی نہیں خرید سکتے ہوٹل انڈسٹری کو حکومت ریلیف فراہم کرے تا کہ عوام کو سستی روٹی میسر ہو سکے انہوںنے کہاکہ سید عالم حسین جان نے کہاکہ گیس کی قیمتوں میں اضافہ عوام پر سراسر ظلم ہے کیونکہ گیس کی قیمتیں بڑھانے اور آئی ایم ایف کے دبائو سے کاروبار تبا ہ ہو رہے ہیں لیکن حکومت کی ایک ہی معیشت ہے کہ آئی ایم ایف کو شرائط کو عوام پر بم برسا پو را کیا جاسکتا ہے ۔

اس پالیسی کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان آگیا ہے اور عوام خود کشی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں
مہنگی بجلی عوام کے لئے مصیبت اورانڈسٹری کے لئے عذاب بن گئی ہے۔ عوام اور صنعتی شعبے میں بجلی کا استعمال مسلسل کم ہو رہا ہے۔ استعمال سے قطع نظر حکومت کو پاور پروڈیوسرز کو کپیسٹی پیمنٹ کرنا پڑتی ہے جس سے اس ناکارہ سیکٹر کے نقصانات میں اضافہ جبکہ ملکی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ بجلی کے نرخ کم نہ کئے گئے تو پیداوار، برآمدات، روزگار اور محاصل بری طرح متاثر ہونگے۔ بجلی کا اہم ترین شعبہ نااہلی کرپشن اور مسلسل ناکام تجربات کی وجہ سے غیر فعال ہو چکا ہے۔ اس کے نقصانات کھربوں روپے میں چلے گئے ہیں اور اس میں اصلاحات کی جائیں مسلسل نرخ بڑھانے کی پالیسی سے معیشت تباہ ہو رہی ہے برآمدی مارکیٹ میں پاکستان اپنے حریف ممالک سے مسابقت کرنے کے قابل نہیں رہا ہے کیونکہ ان ممالک میں بجلی پاکستان کے مقابلہ میں بہت سستی ہے

پاکستانی کمپنیوں کے غیر ملکی گاہک ہمارے پاور سیکٹر کی تباہ کاریوں کا بوجھ برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ مقامی صنعت کو برامدی مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کرنا پڑتا مگر چالیس فیصد تک مہنگائی کے بعد عوام کے پاس کھانے پینے کے سامان کے علاوہ کچھ خریدنے کی سکت نہیں رہتی اس لئے صنعتی شعبہ بھی متاثر ہو رہا ہے۔ مقامی ڈیمانڈ میں کمی کی وجہ سے صنعتی شعبہ اپنی پیداوار کم کرنے پر مجبور ہو گیا ہے جس سے بجلی اور گیس کے استعمال میں بھی زبردست کمی آئی ہے اور ان غلط پالیسیوں کا سارا بوجھ عوام پر ہی ڈالا جائے گا جس سے انکی حالت مزید پتلی ہو جائے گی۔ مقامی اور برآمدی منڈی کے لئے اشیاء تیار کرنے والی صنعتوں کی پیداوار کم ہونے سے لاکھوں افراد بے روزگار ہو رہے ہیں جبکہ پاور سیکٹر کے نقصانات بڑھ رہے ہیں سردیوں کے چار ماہ میں بجلی کی کھپت انتہائی کم ہو جاتی ہے ان مہینوں میں صنعتوں کو بجلی سستی دینے پرغور کیا جائے تاکہ بجلی کے کارخانوں کی پوری استعداد استعمال کی جا سکے۔ سال رواں کے ابتدائی پانچ ماہ میں ٹیکسٹائل برامدات میں 6.50 فیصد کمی آ چکی ہے اور مزید کمی متوقع ہے۔ سال رواں کے ابتدائی پانچ ماہ میں ٹیکسٹائل گروپ کی برامدات 6.883 ارب ڈالر رہیں جو گزشتہ سال انہی پانچ ماہ کے دوران 7.361 ارب ڈالر تھیں۔ نومبر کے مہینے میں ٹیکسٹائل برامدات میں 8.26 فیصد کمی آئی ہے جو پریشان کن ہے۔