مزید خبریں

مسلم حکمراں امریکا کے سامنے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں‘ ان میں فلسطینیوں کی مدد کا حوصلہ نہیں

کراچی ( رپورٹ /محمد علی فاروق ) مسلم حکمراں امریکا کے سامنے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں‘ ان میں فلسطینیوں کی مدد کا حوصلہ نہیں ‘پاکستان اور سعودی عرب پر جہاد فرض ہوگیا‘ فوجی حکمران اور شاہی خاندان اپنی بقا کے لیے مغرب پر انحصار کرتے ہیں‘ مسلم ممالک ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں‘ مسلم حکمرانوں کی جائداد اور کاروبار یورپ اور امریکا میں ہیں‘ مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی مدد وہی لوگ کر سکتے ہیں جو امریکا کے غلام نہ ہوں۔ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان ، سابق رکن قومی اسمبلی مولانا عبد الاکبر چترالی اور جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی چیئرپرسن ،ماہر عالمی امور ،پروفیسر ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’امت مسلمہ کے حکمراں مظلوم فلسطینیوں کی مدد میں کیوں ناکام ہیں؟ ‘‘ محمد ابراہیم خان نے کہا کہ امت مسلمہ کے حکمران مظلوم فلسطینیوں کی مدد میں اس لیے ناکام رہے ہیںکہ وہ امریکا سے مرعوب ہیں اور امریکا اسرائیل کا پشت پنا ہ ہے‘ برطانیہ نے امت مسلمہ کے سینے میں اسرائیل کا یہ ناسور زدہ خنجر پیوست کر دیا ہے‘ اس سے قبل فرانس اور برطانیہ اس کی پشت پر تھے‘ اس کے بعد امریکا بھی اس اتحاد میں شامل ہوگیا ہے ‘ مسلم حکمران امریکا کے سامنے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں‘ وہ جرأت، غیرت اور حمیت سے عاری ہیں‘ ان کے اندر یہ حوصلہ نہیں ہے کہ اپنے وسائل پر گزارا کر سکیں اور اپنے ملک کو ترقی دیں بلکہ وہ اپنے ممالک کی دولت لوٹ کر امریکا اور یورپ کے بینکوں میں رکھے ہوئے ہیں اور اپنے ممالک سے باہر کاروبار کر تے ہیں‘ عیش وعشرت کے لیے امریکا کے سامنے جھولی پھیلائے کھڑے ہیں‘ امریکی ڈالر ان حکمرانوں کو بھیک میں ملیں یا قرض کی صورت یہ اس دولت سے اپنے عیش وعشرت میں اضافہ کرتے ہیں اور اس نظام سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ امریکا کی وفاداری بھی نہیں چھوڑ سکتے‘ یہ امریکا کی غلامی کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھتے ہیں‘ مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی مدد وہی لوگ کر سکتے ہیں جو امریکا کے غلام نہ ہوں‘ امریکا کے سامنے ان کی جھولی نہ پھیلی ہو ئی ہو اور نہ ہی وہ کشکول لیے کھڑے ہوں بلکہ وہ اپنے وسائل پر گزر بسر کرنے والے ہوں‘ جرأت اور غیرت و حمیت سے بھرپور امریکا، برطانیہ ، فرانس اور یورپ سب کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو‘ اس بات کی ضرورت ہے کہ پاکستان، ایران، افغانستان اور ترکی مل کر فلسطینیوں کی مدد کے لیے پہنچیں‘ اسماعیل عبد السلام احمد ہنیہ فلسطین کے سابق وزیر اعظم اور مزاحمتی تحریک حماس کے موجودہ سربراہ ہیں‘ انہوں نے مجلس اتحاد امت پاکستان کے زیراہتمام اسلام آباد کے جناح کنونشن سینٹر میں حرمت اقصیٰ کانفرنس سے ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان ایک مضبوط ملک ہے‘ اگر پاکستان اسرائیل کو دھمکی بھی دے تو جنگ رک سکتی ہے‘ پاکستان سے ہمیں بہت سی امیدیں ہیں‘ پاکستان اسرائیل کو پسپائی پر مجبور کر سکتا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں میں یہ جرأت نہیں ہے‘ اس وقت مظلوم فلسطینیوں کی مدد کے لیے کسی بھی اسلامی ملک کا حکمران عملی قدم اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مولانا عبد الاکبر چترالی نے کہا کہ مسلم ممالک کے حکمران امریکا کو ہی سپر پاور تسلیم کرتے ہیں‘ پاکستان سپر پاور ہونے کے باوجود بھی اپنے آپ کو ان کا مقروض و محکوم سمجھتا ہے‘ یہاں آئی ایم ایف اور ڈالر کا مسئلہ ہے‘ مسلم حکمران اللہ پر ایمان لانے کے بجائے ڈالر پر ایمان رکھتے ہیں‘ سپر پاور کو انہوں نے حقیقت عملاً خدا سمجھ رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ ناکام ہوئے ہیں‘ فلسطینیوں کی مدد کے لیے پاکستان صرف اتنا ہی کہہ دے کہ مسجد اقصیٰ فلسطینیوں کا ہی نہیں بلکہ امت مسلمہ اور دنیا میں موجود 2 ارب سے زاید مسلمانوںکا ہے‘ ہم اس کے دفاع کی پالیسی بنا رہے ہیں‘ ہم ہر حالت میں اس کا دفاع کریں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد اسرائیل جہاں پہنچ چکا ہے‘ وہاں رک جائے گا مگر ہمارے حکمرانوں سے یہ توقع نہیں ہے‘ اس ہی لیے تو اسرائیل نے ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے‘ غزہ میں فلسطینی عوام کو برہنہ کر کے اذیت دی جارہی ہے‘ اس کے نتیجے میں ان کی شہادت ہو رہی ہے‘ بچے، بوڑھے، جوان اور خواتین سب اس میں شامل ہیں جبکہ مظلوم فلسطینیوں کی مدد مسلمانوں پر فرض ہے‘ بالخصوص سب سے پہلے پاکستان اور سعودی عرب پر جہاد فرض ہے مگر ان دونوں ممالک کے حکمران اپنی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے امریکا کی چاپلوسی کر رہے ہیں اسی وجہ سے امت مسلمہ کے حکمران مظلوم فلسطینیوں کی مدد نہیں کر رہے۔ طلعت عائشہ وزارت نے کہا کہ دنیا کے مسلم حکمران تو فلسطینیوں کی مدد نہیں کر رہے مگر مسلم دنیا کے عوام فلسطینیوں سے بہت زیادہ محبت کرتے اور مدد کے لیے بھی تیار ہیں جبکہ امت مسلمہ کے عوام فلسطینیوں کے کارناموں پر فخر کر تی ہے ، جہاں تک مسلم حکمرانوں اور حکومتوں کا تعلق ہے وہ ہاتھ پر ہاتھ دہرے بیٹھے ہیں‘ کبھی کبھار کوئی بیان دے دیتے ہیں اس کے بعد وہ منظر عام سے غائب ہوجاتے ہیں‘ مسلم دنیا کے رہنما اپنے عوام کی صحیح معنوں میں نمائندگی نہیں کرتے‘ مسلم ممالک میں ڈکٹیٹر شپ، یا سیمی ڈیموکریسی اور بادشاہت ہے‘ ان ممالک کا انحصار اپنے وسائل اور لوگوں پر نہیں بلکہ وہ اپنی بقا کے لیے مغربی ممالک کی جانب دیکھتے ہیں‘ وہ اپنے عوام کی جانب نہیں دیکھتے کیونکہ ان حکمرانوں کو پاور میں رکھنے کی طاقت مغربی ممالک کے قبضے میں ہے‘ مسلم دنیا میں واقعی جو مسلمانوں کی ہمدرد لیڈر شپ تھی اس کو مغربی ممالک نے مختلف ذرائع استعمال کرکے راستے سے ہٹا دیا ہے، یہ عجیب طرح کا طریقہ کار ہے جو مسلم دنیا اور ترقی یافتہ ممالک میں چل رہا ہے یہ انتہائی خطرناک صورت حال ہے‘ اس وجہ سے مسلم ممالک کی حکومتیں اپنے لوگوں کو محفوظ کرنے کے بجائے دوسرے ممالک کے مفادات کی امین بن جاتی ہیں ‘ اپنے ملک کے عوام کو بے سہارا چھوڑ دیتے ہیں‘ مسلم حکمرانوں کی جانب سے امت مسلمہ پر مظالم کا کسی قسم کا کوئی بھی رد عمل نہیں آتا‘ مصر کے فیلڈ مارشل انور سادات نے جب اسرائیل سے تعلقات قائم کیے تو ایک ماہ بعد ہی6 اکتوبر کو قاہرہ میں یوم فتح پریڈ کے موقع پر فوجی خالد اسلامبولی نے انہیںقتل کر دیا ‘ اگر مسلم حکمرانوں کی جانب سے امت مسلمہ پر مظالم پر سخت ردعمل کا اظہار کیا جاتا تو آج امت مسلمہ کی صورت حال یکسر تبدیل نظر آتی‘ مسلم حکمران اپنے حالات اور مفادات کو مدنظر رکھتے ہیں وہ شاید اپنی ہی ذات میں اتنے مصروف ہوچکے ہیں کہ انہیں امت مسلمہ کے لیے سوچنے سمجھنے اور لائحہ عمل تیار کرنے کا موقع نہیں ملتا‘ مسلم حکمرانوں سے سوال نہیں کیا جاتا کہ وہ امت مسلمہ کے لیے کیوں کچھ نہیں کر رہے‘ شاید عوام کو بھی حکمرانوں نے ایسے مسائل میں پھنسا دیا ہے کہ انہیں ذاتی پریشانیوں کی وجہ سے حکمرانوں سے پوچھ گچھ کرنے کا وقت ہی میسر نہیں ہے جبکہ طاقت ور حکومتی اداروں کو حکمرانوں سے یہ سوال پوچھنا چاہیے تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ انفرادی سطح پر عوام پریشانیوں کا شکار ہیں ‘مسلم ممالک میں اتحاد کا فقدان ہے بلکہ مسلم ممالک ایک دوسرے کو زیادہ دشمن سمجھتے ہیں جبکہ ان کا مشترکہ بڑا دشمن اسرائیل اور امریکا ہے‘ مسلم حکمران انہیں اپنا دوست اور مسلم ممالک کو اپنا دشمن تصور کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں‘ بہت سے ایسے مسلم حکمران جویہ سمجھتے تھے کہ امریکا ان کا دوست ہے مگر جب بھی مفادات کا ٹکرائو ہوا تو دیکھا گیا کہ امریکا نے انہیں اپنے راستے سے ہٹا دیا ، بین لاقوامی سطح پر یہ بات عیاں ہے کہ جب بھی اسرائیل اور بھارت کو مفادات کا مسئلہ درپیش آیا تو امریکا کا جھکائو ہمیشہ ان کی جانب رہا ہے‘ مسلم ممالک کے دشمنوں سے امریکا نے ہمیشہ تعلقات بڑھائے ہیں‘اس ضمن میں ایسی قوت ہونی چاہیے جو مسلم ممالک کے درمیان کم ازکم یوتھ کو منظم کرنے اور ان کے اقدار کو بڑھانے اور ایک دوسرے ممالک کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کام کرے‘ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کا ماضی میں ایک پروگرام ہوا کرتا تھا جس میں مسلم دنیا کے نوجوان افراد جمع ہو کر امت مسلمہ کو درپیش مسائل و مشکلات پر بحث کرتے تھے جس سے ایک دوسرے کے درمیان ہم آہنگی کی فضا پیدا ہوتی تھی لیکن شاید اب وہ بھی ختم ہو چکا ہے‘ اگر مسلم حکمران اپنے ممالک کے عوام کے درمیان ہم آہنگی کی فضا قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو کافی حد تک مسلم دنیا کے حالات تبدیل ہو جائیں گے۔