مزید خبریں

ن لیگ اور ایم کیو ایم کا اتحاد کسی صورت کراچی کے عوام کے مفاد میں نہیں

 

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) (ن) لیگ اور ایم کیو ایم کا اتحاد کسی صورت کراچی کے عوام کے مفاد میں نہیں‘ متحدہ رہنمائوں نے کسی بھی اتحاد کے ساتھ مل کر عوام کی خدمت نہیں کی‘ اپنا ذاتی بینک بیلنس بڑھایا‘ ن لیگ کا متحدہ سے اتحاد منافقت ہے‘ کراچی کی نمائندہ پارٹی جماعت اسلامی ہے ‘ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن کے لیے اتحاد اہمیت رکھتا ہے ‘پی ٹی آئی کو اسپیس نہیں ملتا تو متحدہ کا ووٹر واپس آئے گا۔ ان خیالات کا اظہار بلدیہ عظمیٰ کراچی، سٹی کونسل میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر اور جماعت اسلامی کراچی پبلک ایڈ کمیٹی کے صدر سیف الدین ایڈووکیٹ‘ سینئر صحافی و تجزیہ کار مظہر عباس‘ قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر فرحان صدیقی اور پیپلز پارٹی سندھ کے ترجمان و سینیٹر عاجز دھامر ا نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’کیا ن لیگ اور ایم کیو ایم کا اتحاد کراچی کے مفاد میں ہے؟‘‘سیف الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ گزشتہ 34 برس کے دوران تقریباً ہر بار وفاقی حکومت کا حصہ رہی ہے اور متحدہ قومی موومنٹ اپنے قیام سے لے کر اب تک 3 بار مسلم لیگ ن کی اتحادی جماعت رہی اور تینوں ادوار میں اسے آپریشن کا سامنا کرنا پڑا اور ایم کیو ایم تحریک انصاف کی حکومت میں بھی شامل تھی اور جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو ایم کیو ایم نے تحریک انصاف کے بجائے اپوزیشن کا ساتھ دیا اور بعد میں وہ شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم کا حصہ بن گئی لیکن ایم کیو ایم نے کسی بھی اتحاد کے ساتھ مل کر کراچی کے عوام کے مفاد میں کچھ نہیں کیا ہے بلکہ ان رہنمائوں نے اپنے ذاتی بینک بیلنس میں اضافہ کیا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایم کیو ایم کا مسلم لیگ ن سے اتحاد کراچی کے لیے کتنا فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے‘ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن کا اتحاد کسی صورت کراچی کے عوام کے مفاد میں نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کی جب بھی مرکز میں حکومت رہی ہے اس نے کراچی کے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا ہے‘ ان جماعتوں کا اتحاد ذاتی مفاد کے گرد گھومتا ہے‘ عوام کے لیے ان کی سیاست نہیں ہے‘ ایم کیو ایم کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ مرکز میں بننے والی کوئی بھی جماعت ہو اس کی اتحادی بن جاتی ہے یا انہیں اس جماعت کے ساتھ ملوادیا جاتا ہے‘ ایم کیو ایم کو عوام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کی سیاست ان کی پارٹی کے لوگوں کے مفاد کے گرد گھومتی ہے‘ ایم کیو ایم کی قیادت بحران کا شکار ہے‘ اس پارٹی میں ان کے اندرونی دشمن مسلط ہوگئے ہیں اور عوام ایم کیو ایم سے شدید مایوسی کا شکار ہیں‘ کراچی میں عوام کی نمائندگی کرنے والی، ان کی ہم آواز بننے والی صرف جماعت اسلامی ہے‘ کراچی کے عوام نے جماعت اسلامی پر اعتماد کرتے ہوئے قومی اور صوبائی اسمبلی میں مینڈیٹ دیا تو کراچی پھر سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے‘ جماعت اسلامی کراچی کی مخلص اور دیانتدار قیادت ہے‘ کراچی کے عوام کو موجودہ بحران سے جو جماعت نکال سکتی ہے وہ کراچی کی واحد نمائندہ جماعت ،جماعت اسلامی ہے۔ مظہر عباس نے کہا کہ ایم کیو ایم کے پاس محدود آپشن ہیں اور وہ ایک کمزور پارٹنر ہے‘ اگر تحریک انصاف کو اسپیس نہیں ملتا تو اس بات کا امکان ہے کہ ایم کیو ایم کا ووٹر واپس آئے گا‘ ایم کیو ایم کی قیادت اس جماعت کی طرف جانا چاہتی ہے جس کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ ان کے بھی معاملات آگے جاکر ٹھیک ہو جائیں‘ 2016ء کے بعد کی ایم کیو ایم اپنے طور پر فیصلے لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے وہ جن حلقوں کی طرف دیکھ رہے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی جگہ انہیں واپس لایا جائے کیونکہ تحریک انصاف کو 8،10 نشستیں دلوائی گئی تھیں‘ اب تحریک انصاف خود اتنی نشستیں لے سکتی ہے کیونکہ آج کی صورتحال میں ان کے پاس وکٹم کارڈ موجود ہے‘ اگر انہیں اسپیس ملتا ہے تو ایم کیو ایم کے لیے مشکل ہوسکتی ہے۔ فرحان صدیقی کہا کہ اس اتحاد سے مسلم لیگ ن کو یہ فائدہ ہوگا کہ وہ یہ تاثر دے گی کہ وہ ایک قومی اور وفاقی جماعت ہے ناکہ پنجاب کی نمائندہ جماعت ہے‘ ایم کیو ایم کو یہ فائدہ ہوگا کہ آنے والی حکومت بنتی ہے تو وزارتوں میں حصہ ملے گا کیونکہ کراچی میں اب ایم کیو ایم کے لیے بلدیاتی انتخابات کے ذریعے دوبارہ کراچی کا حصول دشوار ہے‘ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی نے میئرشپ حاصل کرلی ہے لہٰذا وہ وفاقی حکومت کا حصہ بن کر کچھ وزارتیں لے سکتے ہیں‘ ایم کیو ایم کے لیے یہ اتحاد اس وجہ سے بھی اہم ہے کیونکہ کراچی کا مینڈیٹ اب تقسیم ہو گیا ہے‘ 2013ء میں تحریک انصاف کا مینڈیٹ ابھرتا دیکھا جو 2018ء میں مضبوط ہوا‘ اب ایم کیو ایم کا تسلط اس طرح کا نہیں رہا جو 2013ء یا اس سے قبل رہا ہے‘ اس لیے ایم کیو ایم کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ قومی سطح پر اس طرح کے اتحاد کر کے سیاسی طاقت حاصل کرے‘ نظر یہ آتا ہے کہ تحریک انصاف کا ووٹ موجود ہے، وہ ٹوٹا نہیں ہے، اس لیے ایم کیو ایم مسلم لیگ ن کے لیے یہ اتحاد اہمیت رکھتا ہے۔ عاجز دھامرا کاکہنا ہے کہ کراچی میں امن کا دعویٰ اور متحدہ سے اتحاد ن لیگ کی عجیب منافقت ہے‘ نواز شریف نے اسٹیل ملز کو خریدنے کے لیے اسے تباہ کردیا ہے‘ پیپلز پارٹی نے کبھی انتقام کی سیاست نہیں کی، سیاسی انتقام مسلم لیگ ن کا وطیرہ رہا ہے‘ مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کے اتحاد کا نقصان خود ان دونوں جماعتوں کو ہوگا کیونکہ جو سیاسی اتحاد خود بخود بنتے ہیں وہ اچھے طریقے سے سیاست کرسکتے ہیں لیکن جو اتحاد بنوائے جاتے ہیں تو وہ اتحاد میں شامل دونوں جماعتوںاور اتحاد بنوانے والوں کے لیے مشکلات کا سبب بنتے ہیں‘ ن لیگ جب بھی اقتدار میں آتی ہے تو سندھ کے کسان پانی کے لیے ترستے ہیں‘ نواز شریف کا بس چلتا تو وہ تھرکول منصوبہ ختم کردیتے‘ اگر مسلم لیگ ن نے پنجاب کے عوام کی خدمت کی ہوتی تو اس کی جماعت کے رہنمائوں کو آج انڈے، پتھر اور تھپڑ کھانے کی نوبت نہیں آتی۔