مزید خبریں

سقوط مشرقی پاکستان… ۵۲ برس میں کیا سیکھا؟

باون سال قبل‘ مشرقی پاکستان ہم سے الگ نہیں ہوا ‘بلکہ یہ ملا قادر شہید کی سرزمین تھی‘جب ہمارا ’’مشرقی پاکستان‘‘۔ بنگلہ دیش کہلایا۔ اس وقت ’’25 مارچ 1969ء سے 20 دسمبر 1971ء تک فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان کے جانشین فوجی آمر جنرل محمد یحییٰ خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان تھے اورسانحہ سقوط ڈھاکہ کے بعد ’’قائد ِ عوام‘‘ اور ’’فخرِ ایشیاء‘‘ کہلانے والے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو، جنرل محمد یحییٰ خان کے نائب، وزیراعظم اور وزیر خارجہ بنے تھے‘ پاکستان ٹوٹنے پر دل گرفتہ دل فگارہونا فطری امر ہے۔سقوط مشرقی پاکستان کی یاد آج نصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود انگاروں پر لٹا دیتی ہے۔ کہا جاتا ہے وقت زخموںکا مرہم ہوتا ہے مگر سقوط مشرقی پاکستان اور پاکستان کے دو لخت ہونے کا زخم بھرنے کا نام تک نہیں لیتا۔یہ صدمہ بھولے نہیں بھولتا۔ اس زخم اور درد کی ٹیسیں آج بھی اس سانحہ کے رونما ہونے کے پہلے روز کی طرح اٹھتی ہیں۔کاش یہ المیہ رونما نہ ہوتا اور قائد و اقبال کا دیا ہوا پاکستان تا قیامت سالم و ثابت موجود رہتا۔اب بہت کچھ کاش میں بدل گیا ہے۔دسمبر میں جو کچھ بھی ہوا یہ سب کچھ بھارتی خفیہ ایجینسی را کا کیا دھرا تھا‘ پاکستان کے حامیوں کی پھانسیاں بھی را کی سازش اور منصوبہ بندی تھی‘ بھارت کی خفیہ ایجنسی راور بھارتی دفتر خارجہ میں ایک خاص گٹھ جوڑ تھا‘ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی منصوبہ بندی یا پالیسی بھارتی ماہر کوٹلیہ نے تیار کی جو چانکیہ سے متاثر تھا‘ چانکیہ کی کتاب ارتھ شاستر نے بھی اہم کردار ادا کیا‘ ساری کتاب ہی مکر و فریب کی کہانیوں پر مشتمل ہے‘ چانکیہ کا اصول یہ تھا کہ’’ جب ملک کمزور ہو تو دوسروں کے ساتھ امن کے ساتھ رہا جائے اور جب ملک کو طاقت مل جائے تو کسی کو بھی امن کے ساتھ نہ رہنے دیا جائے جب بھی کسی دوسرے ملک کی مدد کرو تو دہرا معیار دکھائو‘‘ بھارت کے خفیہ ادارے اور بھارتی دفتر خارجہ کے ماہرین آج تک اسی پالیسی عمل پیرا ہیں‘ ثقافتی یلغار کے لیے بنگلا اور شلپ کلا اکیڈمی بنائی گئی اور نوجوانوں کو ٹارگٹ بنا کر کام کیا گیا‘ میڈیا میں ریڈیو‘ ٹی وی اور اخبارات کے لیے حکمت عملی اختیار کی گئی اور بھارت کی مرضی کا راگ الاپا گیا‘ را نے ان ا خبارات میں اپنے ایجنٹ بھرتی کرائے‘ جن کے ذریعے داریے لکھوائے گئے‘ تجزیہ اور تبصروں کی بھرمار کی گئی‘ ہفت روزہ بچترا اور آنند بچترا کی مثال دی جاسکتی ہے‘ ان میں بھارتی اداکاروں کی تصاویر شائع کی جاتی تھیں‘ عریانی پھیلائی جاتی ہے‘ لڑکیوں میں مقابلہ حسن کرایا جاتا ہے جن کی خبریں نمایاں شائع کی جاتیں‘ ان کے مقابلے کے لیے صرف ایک اخبار تھا روزنامہ سنگرام‘ جس کے پاس وسائل کی شدید کمی تھی‘ اور آج بھی پاکستان میں یہ صورت حال ہے‘ ہر وہ میڈیا آزاد اور عریانی پھیلا رہا ہے جس کے پاس وسائل بے شمار ہیں‘ اور اسے نظریہ پاکستان اور پاکستان کے اسلامی تشخص کی کوئی پرواہ نہیں ہے اور نہ حکومت ہی اس بات کی پرواہ کرتی ہے‘ تعلیمی دارے بھی را کا ٹارگٹ رہے‘ کے جی کلاس سے لے کر اعلی تعلیم تک کے طلبہ کو بھارتی اشاعتی اداروں کی شائع شددہ کتابیں پڑھائی جاتی تھیں‘ اور سب سے اہم سوال یہ کہ جب اتنا کچھ ہورہا تھا تو اس وقت پاکستان میں جو بھی حکومت تھی‘ جو بھی بااختیار تھے وہ کیا کر رہے تھے ؟ بلاشبہ پاکستان کی تاریخ میں 1971ء کی پاک بھارت جنگ کی کہانی سیاہ حروف میں لکھی جائے گی جس میں بھارتی تربیت یافتہ دہشت گرد تنظیم مکتی باہنی نے مشرقی پاکستان میں بے گناہ پاکستانیوں کا قتل عام کیا۔جنگ میں پاکستان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے جھوٹے، من گھڑت اور بے بنیاد الزامات لگائے گئے۔ اتنا ہی نہیں دہشتگرد تنظیم نے بے گناہ اور نہتے پاکستانیوں پر مظالم اور قتلِ عام کیا جس کا الزام اس نے پاکستان آرمی پر لگایا۔ آج ہی کے دن 9 سال قبل 16 دسمبر 2014ء کو ہمارے سفاک دشمن بھارت نے ہم پر اوچھا وار کیا اور اپنے تربیت یافتہ ننگ انسانیت دہشت گردوں کے ذریعے آرمی پبلک ا سکول پشاور کے دوسو کے قریب بے گناہ و معصوم بچوں اور انکے اساتذہ بشمول پرنسپل کو اپنے جنونی انتقامی جذبات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ان معصوموں کے خون سے رقم ہونیوالی ہماری یہ تاریخ انتہائی کربناک اور دل ہلا دینے والی ہے اور گھنائونی بے رحم سازشوں کے مقابل ہمہ وقت الرٹ رہنے کی متقاضی ہے ۔ آج سے52سال قبل 16 دسمبر کا بدنصیب و سیاہ دن 71ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران مکتی باہنی کی گھنائونی سازشوں سے پاکستان کے دولخت ہونے پر منتج ہوا اور ہمیں مشرقی پاکستان میں جنرل اے اے کے نیازی کی زیرکمان پاک فوج کے سرنڈر ہونے اور بھارتی فوجی جرنیل اروڑہ کے آگے ہتھیار ڈالنے کی انتہائی تکلیف دہ ہزیمت بھی اٹھانی پڑی۔ یہ ہماری قومی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے جو ملک کی سلامتی کے تحفظ و دفاع کے حوالے سے ہماری حکومتی‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں سے آئندہ ایسی کسی سفاک غلطی کا اعادہ نہ ہونے دینے کا ہمہ وقت متقاضی رہتا ہے۔ بھارت نے اس سانحہ کے ذریعے پاکستان کو دولخت کرکے اسے کمزور کرنے کے مقاصد پورے کئے‘بے شک اس ہزیمت اور شکست خوردگی کے ماحول میں بھی اس وقت کی سیاسی اور عسکری قیادتوں نے دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کیلئے ملک کو ایٹمی قوت سے سرفراز کرنے کی کوششوں کا آغاز کرکے قوم کی مایوسیوں کا ازالہ کیا اور پھر ذوالفقار علی بھٹو نے جنگی قیدی بنے‘ اس وطن عزیز کے 90 ہزار فوجی جوان و افسران اور سویلینز کو اپنی کامیاب سیاسی اور سفارتی حکمت عملی کے تحت دشمن کے تسلط سے آزاد کرایا اور اس کے زیر قبضہ پاکستان کے علاقے بھی اس سے چھڑوانے کی سرخروئی حاصل کی اور ان کے بعد کی قومی قیادتوں نے ملک کو ایٹمی قوت سے ہمکنار کرکے عملی طور پر ملک کا دفاع مضبوط اور ناقابل تسخیر بنایا مگر شروع دن سے ہماری سلامتی کے درپے ہمارا سفاک دشمن بھارت ہماری سلامتی کے خلاف آج پہلے سے بھی زیادہ گھنائونی سازشوں میں مصروف ہے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جو مکتی باہنی کے متشدد رکن ہونے کے ناتے پاکستان اوراسلام دشمنی کا ٹریک ریکارڈ رکھتے ہیں‘ بلوچستان اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات کو پاکستان سے الگ کرنے کی اپنے ذہن میں سمائی سازشوں کا اعلانیہ اظہار کرتے رہتے ہیں اور اس اظہار کا اعادہ انہوں نے گلگت بلتستان کے انتخابات کے موقع پر بھی ان انتخابات کو متنازعہ قرار دلانے کی کوششوں کے ذریعے کیا۔ وہ اپنی ان سازشوں کی بنیاد پر ہی پاکستان میں اپنے نیٹ ورک کے ذریعے دہشت گردی پھیلا کر اسے انتشار کا شکار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے قائم کردہ اس نیٹ ورک کے ذریعے ہی بھارتی دہشت گردوں کو افغان دھرتی پر تربیت دے کر اور ان کی فنڈنگ کرکے افغان سرحد کے راستے پاکستان بھجوایا جاتا ہے جنہیں پاکستان میں بھارتی فنڈنگ پر پلنے والے سہولت کار دستیاب ہوتے ہیں جن کی معاونت سے وہ دہشت گردی کیلئے بھارتی متعین کردہ اپنے اہداف تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ پانچ اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے اس پر شب خون مارنے کا مودی سرکار کا مقصد بھی درحقیقت پاکستان کی سلامتی پر اوچھاوار کرنے کی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنایا تھا مقبوضہ وادی کے بارے میں اب بھارتی سپریم کورٹ نے اقوام متحدہ میں بھارت کی ریاست کے وعدوں کو پائوں تلے روند کر فیصلہ سنایا ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے‘ اس شرم ناک فیصلہ پر بھارت کی جمہوریت کو ڈوب کر مرجانا چاہیے‘ پاکستان بھارت کی سازشوں کو آج تک نہیں بھولا‘ اور نہ بھولے گا‘ان بھارتی سازشوں سے آج پوری دنیا آگاہ ہے اور مودی سرکار کی جانب سے اپنے جنگی جنون کو عملی قالب میں ڈھالنا بھی بعیداز قیاس نہیں اس لئے آج سانحہ سقوط ڈھاکہ اور سانحہ اے پی ایس کی کربناک یاد کو تازہ کرتے ہوئے ہمیں ملک کی سلامتی کیلئے زیادہ فکرمند ہونا ہے۔ اس کیلئے قومی سیاسی حکومتی اور عسکری قیادتوں کا دفاع وطن کیلئے مکمل یکجہت ہونا اور اس ناتے سے دشمن کو سیسہ پلائی دیوار بننے کا ٹھوس پیغام دینا ضروری ہے۔ آج بدقسمتی سے ملک میں جاری سیاسی محاذآرائی جس نہج تک جاپہنچی ہے جس میں قومی ریاستی اداروں کے مابین بھی غلط فہمیاں پیدا کرنے کی سازش کی جارہی ہے‘ وہ دشمن کو ملک کی سلامتی کیخلاف کھل کر اپنی سازشوں کی تکمیل کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہے جبکہ آج ملک کی سلامتی کیلئے متفکر ہونے کی زیادہ ضرورت ہے۔ آج پھر ہمیں انہی حالات کا سامناہے جو سانحہ مشرقی پاکستان کا سبب بنے تھے۔ ایک طرف ملک دشمن قوتیں ہماری سلامتی کے درپے ہیں اور دوسری طرف ہمارے بعض عاقبت ناا اندیش اہل ِ سیاست اس چنگاری کو ہوادینے کی شعوری یا غیر شعوری کو ششوں میں مگن ہیں جو ملکی یکجہتی کو بھسم کرسکتی ہے۔ قرضوں کی دلدل میں دھنسی پاکستانی معیشت اس قدرکمزور ہوچکی ہے کہ ہردوسرے دن اس کے ڈیفالٹ ہونے کی تشویشناک خبریں میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ ملک ترقی کی شاہراہ پرچلنے کے بجائے تنزلی کی پستیوں کی جانب لڑھکتاچلا جارہاہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہماری سیاسی قیادتوں کے درمیان حصول اقتدار کے لیے رسہ کشی کا وہ عمل ہے جس کے نتیجے میں ملک سیاسی عدم استحکام کا شکارہے۔ قومیں اپنے اعمال کا حساب کرتی ہیں۔خود احتسابی کرتی ہیں مگر اس حوالے سے ہم تاریخ کا ایک بے وقعت پرزہ ثابت ہوئے ہیں مگر وقت گزرا نہیں آج بھی ہمیں اس معاملے کو لے کر حمو دالرحمن رپورٹ سے گرد جھاڑ کر خود احتسابی پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔یہ بھی ایک بڑا سوال اور تحقیق طلب امر ہے کہ حمود الرحمن رپورٹ لیک ہو کر سامنے بھی آئی تو بھارت سے لیک ہوئی۔16دسمبر1971ء ہم سے پوچھتا ہے کہ پاکستان کیوں ٹوٹا؟ اس سوال کے کئی جوابات موجود ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے بلکہ ہر جواب کی پشت پر کسی نہ کسی شخص، جماعت، طبقے یا ادارے کے مفادات موجود ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان ٹوٹنے کے باوجود بھی ہم پاکستان سے نہیں اپنے شخصی، جماعتی، طبقاتی یا اداراتی مفادات سے محبت کے اسیر ہیں۔ پاکستان کا حکمران طبقہ اس سلسلے میں اور کچھ نہیں کرسکتا تھا تو کم از کم حمودالرحمن کمیشن کی پوری رپورٹ ہی شائع کردیتاستم بالائے ستم جن لوگوں نے حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کی کوشش کی ان کو پھانسیاں دی گئی ہیں‘ اور المیہ یہ تھا کہ تب بھی ہمارا دفتر خارجہ اور وفاق میں ہماری حکومت خاموش رہی۔