مزید خبریں

آئی ایم ایف کی اہم شرط پاکستان میں سیاسی و معاشی استحکام ضروری ہے

ملکی معیشت زمین بوس ہونے کے بعد اب بہتری کی جانب گامزن ہے۔ آئی ایم ایف کو اطمینان نہیں ہے ،مہنگائی عروج پر پہنچنے کے بعد سست روی سے کم ہو رہی ہے، خساروں پر قابو پایا جا چکا ہے، ڈالر کو لگام ڈالی جا چکی ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر کی صورتحال بھی تشویشناک نہیں رہی۔ حالات کو مزید بہتر بنانے کے لئے الیکشن ضروری ہو چکے ہیں۔ الیکشن میں تاخیر سے عدم استحکام پیدا ہو گا جس کی پہلی ضرب معیشت پر پڑے گی۔ کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آثا ر بتا رہے ہیں کہ شرح سود میں جلد کمی کر دی جائے گی جس سے کاروباری برادری کو کچھ ریلیف ملے گا۔ معیشت کے ڈوبتے ہوئے جہاز کو بچانے کا سب سے بڑا کریدٹ آئی ایم ایف کو جاتا ہے کیونکہ اگر وہ قرضہ نہیں دیتا تو ملک دیوالیہ ہو جاتا ۔

قرضے کے بعد سیاسی اور عسکری قیادت نے زمہ داری کا ثبوت دیا جس کا نتیجہ آئی ایم ایف کے اطمینان کی صورت میں نکلا جس سے ساری دنیا میں سرمایہ کاروں اور قرض دہندگان کو مثبت پیغام پہنچا۔اب بروقت اور شفاف الیکشن اور آئی ایم ایف کا ایک اور پروگرام ہمارے قائدین کا ایک اور امتحان ہے جس میں انکی مکمل کامیابی ضروری ہے جو سیاسی و معاشی استحکام کے لئے بہت ضروری ہے۔ آئی ایم ایف کا موجودہ پروگرام ملک کو دیوالیہ ہونے سء بچانے کے لئے ہے اور یہ معیشت کی سمت درست کرنے اور معاشی ترقی کی راہ ہموار کرنے کے لئے ناکافی ہے جس کے لئے دوسرے پروگرام کی ضرورت سے انکار ناممکن ہے۔ماضی میں پاکستانی معیشت کی ایسی مس منیجمنٹ کی گئی ہے کہ آئی ایم ایف کا دوسرا پروگرام بھی اس کے مسائل کم کر سکتا ہے مگر ختم نہیں کر سکتا اور اگر ذمہ دارانہ پالیسیاں جاری رکھی گئیں تو معیشت کو مسائل سے نکالنے میں کم از کم پانچ سال کا عرصہ درکار ہو گا۔ اس دوران اگر معیشت کے بارے میں دوبارہ سیاسی فیصلوں کا دور شروع ہوا اور سستی شہرت کے لئے وسائل بے دریغ لٹائے گئے تو پھر آئی ایم ایف بھی ملک کو بچانے میں ناکام ہو جائے گا۔

کرغزستان کے سوا تقریباً 12 ممالک ایسے ہیں جن کے کیسز (آرٹیکل-4 مشاورت اور پروگرام کے جائزے) 14 دسمبر تک ایگزیکٹو بورڈ کے ایجنڈے پر ہیں۔یہ ممالک آرمینیا، بنگلہ دیش، بیلجیئم، بینن، کابو وردے، کانگو، کوٹ ڈی آئیوری، مالڈووا، روانڈا، سینیگال، صومالیہ اور سری لنکا ہیں۔ان اجلاسوں میں مختلف پہلو زیرِغور ہوں گے جن میں اقتصادی پیش رفت اور رکن ممالک کی پالیسیوں پر آرٹیکل 4 مشاورت شامل ہے، آئی ایم ایف کے امدادی پیکجز کا بھی ایگزیکٹو بورڈ جائزہ لے گا، مثلاً توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) جس پر اس نے پاکستان کے ساتھ بھی دستخط کیے ہیں۔بقایا پیشگی اقدامات نہ ہونے کی صورت میں عام طور پر آئی ایم ایف کے بورڈ آف ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کو عملے کی سطح کے معاہدے کے بعد منظوری کے لیے تقریباً 15 روز کا وقت لگتا ہے۔ پاکستان کے کیس میں پہلی سہ ماہی کے جائزے کے لیے کوئی پیشگی کارروائی باقی نہیں ہے،

آئی ایم ایف کے عملے اور پاکستانی حکام کے درمیان 15 نومبر کو اسلام آباد میں پہلے جائزے پر عملے کی سطح پر معاہدہ ہوا تھا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو تقریباً 70 کروڑ ڈالر مل سکیں گے اور اس کی منظوری سے رواں برس جولائی میں 9 ماہ کے لیے دستخط کیے گئے 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی معاہدے کے تحت کل ادائیگی تقریباً ایک ارب 90 کروڑ ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ایسا طویل عرصے کے بعد ہوا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ سہ ماہی جائزہ ہموار رہا اور اس کا نتیجہ عملے کی سطح پر معاہدے کے فوری اعلان کی صورت میں نکلا کیونکہ زیادہ تر اہداف حاصل کرلیے گئے تھے۔

آئی ایم ایف مشن نے حکام سے مارکیٹ کے مطابق شرح تبادلہ پر واپس آنے کا مطالبہ کیا تھا اور جغرافیائی سیاسی کشیدگی، اجناس کی قیمتوں میں اضافے اور مشکل عالمی مالیاتی حالات کے سبب پیدا ہونے والے خطرات پر روشنی ڈالی تھی اور حکام کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اس سے نمٹنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ حکام کی پالیسی اور اصلاحات کی کوششوں کی معاونت کے لیے طے شدہ بیرونی امداد کا بروقت اجرا ضروری ہے کیونکہ حکومت کثیرالجہتی اور سرکاری دو طرفہ شراکت داروں کے ساتھ مصروفیت کو بڑھا رہی ہے۔یاد رہے کہ گزشتہ ماہ سعودی عرب نے پاکستان کے قومی خزانے میں ڈپازٹ کیے گئے 3 ارب ڈالر کی مدت میں توسیع کردی تھی۔

عملے کی سطح پر معاہدے کی منظوری اور 70 کروڑ ڈالر کے اجرا کے لیے پاکستان رواں ماہ دسمبر کے وسط تک عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ کے شیڈول میں شامل نہیں ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق وزارت خزانہ کی جانب سے رواں ماہ دسمبر کے ابتدائی ہفتے میں کوئی تاریخ حاصل کرنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے تاکہ 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے پہلے جائزے کے لیے پاکستان کے ساتھ عملے کی سطح پر معاہدے کی منظوری کو یقینی بنایا جا سکے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ حکام ہر سطح پر زور دے رہے ہیں کہ 7 دسمبر یا کرسمس کی تعطیلات سے پہلے کی کوئی بھی تاریخ مل جائے تاکہ سال کے اختتام سے قبل ایگزیکٹو بورڈ کے سامنے پاکستان کا معاملہ رکھا جا سکے۔تاہم کم از کم 14 دسمبر تک ایسا ممکن نظر نہیں آرہا، کرسمس اور نئے سال کی تعطیلات کی وجہ سے ایگزیکٹو بورڈ کے اراکین دسمبر کے آخری ہفتے اور جنوری کے پہلے ہفتے میں دستیاب نہیں ہوں گے۔گزشتہ روز آئی ایم ایف نے اپنے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاسوں کے شیڈول کو اپ ڈیٹ کیا، وزارت خزانہ سے اس حوالے سے رائے لینے کی کوشش کی گئی تاہم انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

ملک میں سود کی بڑھی صورتحال کی وجہ سے معیشت تباہی سے دوچار ہو رہی ہے پاکستان میں خطے کے تمام ہی ممالک سے زیادہ ہے۔لیکن ملک میں جاری مہنگائی کی وجہ شرح سود میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔اس سلسلے میں یہ کہا جاسکتا کہ مہنگائی میں اضافہ مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں کمی کرنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ گزشتہ ماہ مجموعی افراط زر 2.7 فیصد کے اضافے کے ساتھ 29.2 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ گزشتہ ماہ اشیائے خورد ونوش کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا ہے جبکہ دیگر بہت ساری اشیاء کی قیمت میں کمی آئی ہے۔

مہنگائی کی بڑی وجہ گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہے۔ گیس کی قیمتوں میں 194 فیصد اضافے کی وجہ سے اگلے مالی سال میں افراط زر 25 فیصد رہنے کا تخمینہ ہے جس میں مزید اضافہ بھی ممکن ہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ماہرین کا خیال تھا کہ مرکزی بینک شرح سود جلد کم کر دے گا مگر مہنگائی کے اعداد و شمار جاری ہونے کے بعد یہ مشکل لگتا ہے اور اب یہ اندیشہ ہے کہ مرکزی بینک مانیٹری پالیسی میں کوئی نرمی نہیں کرے گا۔ گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے لمبے عرصے کے بعد شہری علاقوں میں مہنگائی دیہی علاقوں سیزیادہ بڑھ گئی ہے کیونکہ گیس مہنگی ہونے سے دیہی علاقوں کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتاہے مگر شہری علاقے متاثر ہوتے ہیں۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ تیل کی قیمتوں میں کمی سے ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں کچھ کمی آئی ہے جو خوش آئند ہے۔

میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ اگر روپے کی قدر کم ہوتی ہے تو مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہو جائے گا۔ کئی مغربی اداروں نے2024 کے آخر تک ڈالر کی قدر 350 روپے تک پہنچنے کا اندازہ لگایا ہے جو تشویشناک ہے۔ کرنسی مارکیٹ پر بڑی مشکل سے قابو پایا گیا ہے اور اگر سٹے بازوں پر سخت نظر نہ رکھی گئی تو وہ اپنے مذموم مفادات کے لئے دوبارہ پرانا کھیل کھیلنا شروع کر دینگے۔

حکومت کو چائیے کہ جلد از جلد آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کے حصول کے لیے شروعات کرے، ترسیلات میں اضافہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے اور بجٹ خسارے کو قابو میں لانے کے لیے اقدامات کرے۔
ساتھ ہی ملک کے لیے یہ بھی اطلاعات ہیں کہ متحدہ عرب امارات(یو اے ای)کی جانب سے پاکستان میں 20 سے 25 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے اعلان کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ یو اے ای بلاشبہ پاکستان کا مضبوط ترین دوست ہے اور پاکستان کے مشکل حالات میں ہمیشہ ہی یو اے ای نے پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور موجودہ حالات میں کراچی میں تعینات یو اے ای کے قونصل جنرل ڈاکٹر بخیت عتیق الرومیتھی کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری کی خوشخبری سے پاکستان اور یو اقے ای کے کاروباری ادارے مزید قریب آئیں گے۔رفیق سلیمان نے کہا کہ 20 سے 25 ارب ڈالرز کی بڑی سرمایہ کاری آئندہ دنوں میں شروع ہونے سے پاکستان کی معیشت کو استحکام ملے گا اور ملکی برآمدات میں بھی تیزی آئے گی۔

رفیق سلیمان نے یو اے ای کی جانب سے چائنا پاکستان اکنامک کورٰدور(سی پیک) میں بھی شمولیت کی پیشکش پر مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ سی پیک میں یو اے ای کے شامل ہونے سے یہ منصوبہ مزید مضبوط ہوگا۔ رفیق سلیمان نے کہا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع ہیں اور میں قونصل جنرل کی اس بات سے متفق ہوں کہ پاکستان کے مثبت امیج کواجاگر کرنا بے حد ضروری ہے ،پاکستان کے بزنس مین یو اے ای کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔

اس بات سے انکار نہیں ہے کہ پاکستان کی مجموعی ترقی کا تمام تر انحصار چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں پرہے لہٰذامعاشی ترقی کیلئے کاروباری طبقہ کو خصوصی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے سمیت پنجاب میں صنعت و تجارت کے فروغ کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنے کیلئے بزنس کمیونٹی،صوبائی حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں و اسٹیک ہولڈرز کو مربوط و منظم کوششیں کرنا ہونگی۔ پاکستان کی مجموعی ترقی کا تمام تر انحصار چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں پرہے۔ پاکستان کا دودھ پیدا کرنے والے ملکوں میں چوتھانمبر ہے اسی طرح پاکستان نہ صرف پھلوں کی پیداوارمیں خودکفیل ہے جبکہ ان کا ایک بڑا حصہ ضائع بھی ہو جاتا ے۔مزید برآں پاکستان سے حلال گوشت کی برآمدات کے بعد وسیع امکانات موجود ہیں مگر ابھی تک ہم ان شعبوں کو جدید سائنسی خطوط پر ترقی ہی نہیں دے سکے جس کی وجہ سے ان شعبوں میں عالمی سطح پر پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے
nn