مزید خبریں

توبۃ النصوح

(سورۂ تحریم آیت 8) اس آیت میں خوش خبری یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سارے گناہ معاف کردیتا ہے تو ہونا یہی چاہیے کہ بندہ سارے گناہوں سے پاک ہونے کے جذبے سے خدا کی طرف پلٹے۔ مگر انسان کا نفس کبھی کبھی اس دھوکے میں مبتلا کردیتا ہے کہ یکایک میں سب گناہوں کو تو نہیں چھوڑ سکتا، دھیرے دھیرے چھوڑوں گا۔ کچھ سے توبہ کرتا ہوں، کچھ معاملات میں بدستور رب کی نافرمانی اور اس کے حکم سے سرکشی کرتا رہوں گا۔ تو درحقیقت یہ وہ توبہ نہیں ہے جو اللہ کو مطلوب ہے، خالص اور مطلوب توبہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو بالکلیہ اللہ کے حوالے کردے اور توبہ کے بعد کی زندگی کامل فرماں برداری کی زندگی ہو۔
آگے دو آیتوں میں گناہوں کی معافی کے لیے تین باتوں کی تلقین کی گئی ہے جو یک گونہ شرائط بھی ہیں اور علامات بھی، یعنی اللہ کی طرف رجوع، اس کے حضور خود سپردگی، اور کلام اللہ کی کامل اطاعت و پیروی۔

انابت الی اللہ: پہلی شرط یا علامت ہے انابت الی اللہ۔ جس کے معنی ہیں اپنے رب کی طرف پلٹ آنا، خواہ کفر و شرک سے توبہ کر کے آدمی خدا کی طرف پلٹے اور ایمان لائے، خواہ گناہوں سے توبہ کرکے خدا کا فرماں بردار بندہ بننے کا عزم کرے، خدا کی طرف پلٹنے کا یہ عمل اور توبہ کی یہ کیفیت خدا کے نزدیک وہ پسندیدہ عمل ہے جو بندے کی کایا پلٹ دیتا ہے، اور اللہ کے آغوشِ رحمت میں بندے کو اپنے اندر سمیٹ لینے کا جوش پیدا کردیتا ہے۔ کسی بندے کی توبہ اور انابت سے اس کے خالق اور پروردگار کو کس قدر خوشی ہوتی ہے۔ اس تصوراتی حقیقت کو اللہ کے رسولؐ نے ایک تمثیل کے ذریعے سے بڑے دلنشیں انداز میں یوں بیان فرمایا ہے:

’ایک شخص کا تصور کرو جو کسی لق و دق ریگستان میں اس حال میں سفر کر رہا ہے کہ اس کے کھانے پینے کا سامان اس کی اْونٹنی پر رکھا ہے، اس کی وہ اْونٹنی صحرا میں کھو گئی، اس نے اْونٹنی اِدھر اْدھر تلاش کی مگر نہیں ملی۔ آخرکار وہ مایوس ہوکر ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے سایے میں دراز ہوگیا۔ (کہ اب تو بس موت ہی کا انتظار کرنا ہے) وہ اسی کیفیت میں تھا کہ کیا دیکھتا ہے۔ اْونٹنی اس کے پاس کھڑی ہے، اس نے جھٹ اس کی لگام پکڑ لی اور پھر خوشی کی شدت میں مدہوش ہوکر کہتا ہے:’’اے پروردگار! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں‘‘۔ یعنی خوشی میں ایسا بے خود ہوگیا کہ کہنا کچھ چاہتا ہے اور زبان سے کچھ نکل رہا ہے۔ جب کوئی بندہ توبہ کر کے خدا کی طرف پلٹتا ہے تو خدا کو اس بندے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے‘۔

ہر انسان خدا ہی کا بندہ ہے اور خدا چاہتا ہے کہ میرا بندہ میرے احکام کی پیروی کرے کہ آخرت میں اْسے انعامات سے نوازا جائے۔ لیکن ناشکرا بندہ اپنے رب کی مرضی کے خلاف چل پڑتا ہے اور سرکشی کی روش اختیار کرلیتا ہے، لیکن جب بھی وہ اپنے رب کی طرف پلٹتا ہے تو ربِ رحیم اپنے بندے کو دھتکارتا نہیں، بلکہ خوش ہوتا ہے اور انتہائی خوش ہوتا ہے کہ میرا بندہ پھر میری طرف پلٹ آیا۔

سیدنا ثوبانؓ کی روایت میں ہے کہ اسی آیت کے بارے میں کسی نے اللہ کے رسولؐ سے پوچھا: یارسولؐ! اگر کوئی شرک میں مبتلا ہو تو؟ آپؐ لمحہ بھر کے لیے خاموش ہوئے اور پھر فرمایا: ہاں، خوب سن لو، شرک کرنے والا بھی اگر خدا کی طرف پلٹ آئے، اور یہ بات آپ نے تین بار فرمائی۔

واقعہ یہ ہے کہ اللہ کی وسعتِ رحمت کی کوئی تھاہ نہیں، اس کی شانِ عفو و کرم سے بندے کو کبھی مایوس نہ ہونا چاہیے۔ بڑے سے بڑے گناہ میں مبتلا ہونے والا بلکہ گناہوں سے زمین و آسمان کی فضا بھر دینے والا بھی جب اپنے رب کی طرف پلٹتا ہے اور واقعتا توبہ اور انابت کی کیفیت کے ساتھ رب کے دربار میں حاضر ہوتا ہے تو وہ کریم و رحیم اپنے بندے کو مایوس نہیں کرتا۔

خود سپردگی: دوسری شرط یا علامت یہ ہے کہ توبہ کے بعد بندہ واقعی اپنی زندگی بدل دے، وہ اب فرماں برداروں کی سی زندگی گزارے، حقیقتاً خود کو اللہ کے حوالے کردے اور اس توبہ و انابت اور فرماں برداری کی زندگی میں تاخیر نہ کرے کہ اس کا آخری وقت آجائے اور حلق میں سانس غرغرانے لگے تو اس وقت توبہ کرے، یا جب گناہوں کی پاداش میں کوئی دنیوی عذاب آجائے تو اس وقت توبہ کے لیے ہاتھ اْٹھائے۔ بلکہ جب بھی احساس ہو اور آنکھ کھلے، جلد سے جلد اپنے رب سے اپنا معاملہ صحیح کرلے۔ اس لیے کہ موت کے سکرات کے وقت جب آخرت کا عذاب سامنے ہو یا کوئی دنیوی عذاب سر پر آجائے تو اس وقت نہ تو توبہ قبول ہے نہ فرماں برداری کا عہد کوئی مفہوم رکھتا ہے۔ ایسی حالت تک پہنچنے پر تو پھر خدا کے عذاب سے بچانے والی اور آئی مصیبت کو ٹالنے والی کوئی طاقت نہیں۔ کہیں سے بندے کو کوئی مدد اور سہارا ملنا ممکن نہیں۔ ’’اس سے پہلے کہ کوئی عذاب آجائے‘‘ کے الفاظ بندے کو متوجہ کرتے ہیں کہ توبہ کرنے میں اور اللہ سے اپنے معاملات درست کرنے میں ہرگز تاخیر نہ کرنی چاہیے، احساس ہوتے ہی فوراً آدمی خدا کی طرف بے تابانہ دوڑ پڑے اور رب کے آغوشِ رحمت میں اپنے آپ کو دے دے۔

اتباعِ قرآن: تیسری شرط اور علامت یہ ہے کہ بندہ قرآن پاک کی پیروی کرنے لگے، اس کے مطابق زندگی گزارنے لگے، یہی ہدایت نامہ بھی ہے اور یہ حق و باطل کا معیار بھی ہے اور اس کی اتباع اس حقیقت کی علامت بھی ہے کہ بندہ واقعی خدا کی راہ پر چل رہا ہے اس لیے کہ اس آسمان کے نیچے خدا کا واحد ہدایت نامہ اور خدا کی مرضی پر چلنے کا واحد مستند ذریعہ یہی قرآنِ پاک ہے۔ اس سے بے تعلق ہوکر یا اس سے انحراف کی زندگی گزار کر کوئی بندہ، خدا کا بندہ نہیں بن سکتا۔ یہ قرآن کچھ چیزوں کا حکم دیتا ہے، کچھ اعمال اختیار کرنے کی تاکید کرتا ہے، کچھ عبادات سے زندگی آراستہ کرنے کی ہدایت دیتا ہے اور اپنے پیارے بندوں کی کچھ لازمی اوصاف بتاتا ہے۔ اس کے ساتھ کچھ چیزوں سے روکتا ہے، کچھ رذائل ہیں جن سے مومن کی زندگی کو پاک دیکھنا چاہتا ہے۔ جب بندئہ مومن خدا کے پسندیدہ احکام و اوامر کی پابندی کرتا ہے اور خدا کے ناپسندیدہ کاموں سے رْک جاتا ہے تو خدا اس کو معاف فرما کر اپنی آغوشِ رحمت میں سمیٹ لیتا ہے۔ اس پر نیکی کی راہ آسان کردیتا ہے اور منکرات سے اس کی حفاظت فرماتا ہے۔ رہا وہ شخص جو قرآن پر ایمان کا دعویٰ کرنے کے باوجود قرآن کی اتباع نہیں کرتا، جن چیزوں سے اس نے روکا ہے، ان سے رْکتا نہیں ہے تو وہ درحقیقت ایمان بالقرآن ہی سے محروم ہے۔

اتباعِ قرآن ہی ایمان کا ثبوت بھی ہے اور اتباعِ قرآن ہی اس حقیقت کی علامت بھی ہے کہ کس بندے نے واقعی خدا کے حضور سچی توبہ کی ہے اور وہ خدا کی طرف پلٹ آیا ہے۔ اتباعِ قرآن کا حکم قرآن نے ان لفظوں میں دیا ہے: ’’اور اتباع کرو اس بہترین کتاب کی جو تمھاری طرف نازل کی گئی ہے‘‘۔ اس اسلوب کا مفہوم یہ بھی لیا گیا ہے کہ قرآن کے بہترین پہلو کی اتباع کرو، اور بہترین پہلو یہ ہے کہ آدمی اوامر کی پابندی کرے اور نواہی سے اجتناب کرے اور اپنی زندگی کو قرآن کے سانچے میں ڈھالے۔ اور بدترین پہلو یہ ہے کہ آدمی قرآن کے خلاف زندگی گزارے۔ نہ اس کے اوامر کی پروا کرے، نہ اس کے نواہی کا لحاظ کرے۔

ایک اور مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اے انسانو! تمھاری طرف خدا کے یہاں سے مختلف زمانوں میں جو کچھ نازل ہوا ہے، ان سب میں بہترین ہدایت نامے کی پیروی کرو جو قرآن ہے۔ یہ تمام آسمانی کتابوں کے مقابلے میں بہترین ہے۔ اس لیے کہ یہ جامع ہے، ہمیشہ کے لیے ہے۔ اللہ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور ادبی اعجاز کے اعتبار سے بھی بے مثل ہے۔ اس کے احکام میں اس قدر آفاقیت، دوام اور لچک ہے کہ قیامت تک آنے والے تمام حالات اور معاملات پر اس کے احکام ٹھیک ٹھیک منطبق ہوتے ہیں اور کسی دور میں بھی خواہ وہ ترقی کا کیسا ہی امتیازی دَور ہو، اس کے ماننے والے کو کوئی عاجزی و درماندگی محسوس نہیں ہوتی۔ بہرحال یہ طے ہے کہ اَحسَنَ مَا اْنزِلَ سے مراد قرآن شریف ہے جو بہترین ہدایت نامہ ہے اور قرآن ہی کو اللہ تعالیٰ نے اس سورہ کی 23 ویں آیت میں اَحسَنْ الحَدِیث بھی کہا ہے، یعنی بہترین کلام۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اَحسَنْ الحَدِیث اور اَحسَنَ مَا اْنزِلَ کا ایک ہی مفہوم ہے اور اچھے پہلو کی اتباع میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ اس کی اچھی تاویل کرتے ہیں، اچھے مفہوم کو اپناتے ہیں، اس سے کوئی غلط مفہوم نہیں نکالتے، تحریف نہیں کرتے، من مانی تاویل نہیں کرتے۔