مزید خبریں

کراچی:عائشہ منزل میں خوفناک آتشزدگی ،کروڑوں کا نقصان ،شہری حکومت کی نا اہلی نے 3 جانیں لے لیں

کراچی ( رپورٹ\محمد علی فاروق ) کراچی میں عائشہ منزل کے قریب فرنیچرکی دکانوں اور رہائشی فلیٹس میں خوفناک آگ بھڑک اٹھی، شہری حکومت اور فائر بریگیڈ کی نااہلی کے سبب3افراد جاں بحق اور3افراد زخمی ہوئے ،درجنوں دکانیں اور کروڑوں روپے مالیت کا سامان جل کر خاکستر ہوگیا،فائر بریگیڈ حکام نے آگ کو تیسرے درجے کی قرار دیا تھا۔ گور نر، نگراں وزیر اعلیٰ سندھ کا نوٹس لیتے ہوئے ر پورٹ طلب کرلی جب کہ ایک 4 ر کنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے ۔ بدھ کو عائشہ منزل کے قریب عرشی شاپنگ مال اور7 منزلہ رہائشی فلیٹس میں آگ بھڑک اٹھی، آگ نے دکانوں کے آگے کھڑی گاڑیوں کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔آگ بیڈ میٹریس کی دکان میں لگی، آگ نے قریبی دکانوں کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔فائر بریگیڈ حکام کا کہنا ہے کہ دکانوں کے اوپر فلیٹس بنے ہوئے ہیں، دکانوں سے شروع ہونے والی آگ نے رہائشی عمارت کو لپیٹ میں لیا، فائر بریگیڈ کی مزید گاڑیاں طلب کرلی گئیں ۔پولیس کا کہنا ہے کہ آگ فوم کی ایک دکان میں اچانک آگ لگی جو مزید پھیل گئی، تمام دکانوں میں فوم اور میٹرس موجود تھے ۔فائر بریگیڈ حکام کا دعویٰ ہے کہ 12 فائر ٹینڈرز، 2 اسنارکل اور ایک باؤزر نے آگ بجھانے کی کارروائی میں حصہ لیا۔ریسکیو حکام کے مطابق عمارت سے 2 افراد کو جھلسی ہوئی حالت میں نکالا گیا ، آگ سے جھلسنے والا ایک زخمی کو برنس وارڈ منتقل کردیا گیا۔حکام کا کہنا ہے کہ عمارت میں آگ سے جھلسنے والے 3 افراد کی لاشیں عباسی شہید اسپتال منتقل کردی گئی ہیں۔ جھلس کر جاں بحق ہونے والے کی شناخت 45سالہ غلام رضا ولد رجب علی، کے ناموں سے ہوئی،عباسی شہید اسپتال حکام کے مطابق2 جاں بحق افراد کی شناخت نہیں ہوسکی۔ ایم ایس سول اسپتال کا کہنا ہے کہ برنس وارڈ میں ایک شخص کو منتقل کیا گیا ہے جو 100 فیصد جھلسا ہوا ہے اور اس کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔انہوں نے بتایا کہ زخمی کی شناخت 23 سالہ مصطفی کے نام سے ہوئی ہے، اسپتال کے برنس وارڈ میں عملے کو الرٹ کردیا گیا ہے۔فائر افسر ہمایوں خان کا کہنا ہے کہ آگ رہائشی عمارت کی چوتھی منزل تک پہنچ گئی ہے، عمارت میں کسی کے موجود ہونے کی اطلاعات نہیں، چھت پر کچھ لوگ ہیں جو مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔متاثرہ عمارت میں رہنے والی خاتون الماس طلحہ نے بتایا کہ وہ چوتھی منزل پر رہائش پذیر ہیں، ہمیں بلڈنگ کے چوکیداروں نے بحفاظت نکال لیا، ایمرجنسی میں ہمارے جو بھی ہاتھ میں آیا ہم لے کر نیچے خیریت سے آگئے، دعا ہے کہ ہمارے گھر محفوظ ر ہے ۔انہوں نے بتایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ عمارت میں رہائش پذیر تمام افراد بحفاظت نکل آئے ہیں، اس کا کریڈٹ بلڈنگ کے چوکیداروں کو جاتا ہے۔ابتدائی طورپر متاثرہ عمارت کے مکینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت لوگوں کو فلیٹوں سے نکالا۔ایک متاثرہ دکاندار نے بتایا کہ دکان میں سلنڈر لیک ہوا اس میں آگ لگ گئی اور وہ دھماکے سے پھٹ گیا، آگ پھیل کر فرنیچر کی دکانوں تک پہنچ گئی جہاں موجود فوم کے گدوں سے آگ مزید بھڑک اٹھی، آگ متاثرہ دکانوں کے اوپر7 منزلہ رہائشی عمارت کی بالائی منزلوں تک پہنچ گئی اور ہر طرف دھواں پھیل چکا ہے۔ایک عینی شاہد کا کہنا تھا کہ عمارت میں 250 سے زائد دکانیں اور تقریباً 450 رہائشی فلیٹ ہیں۔ آگ مارکیٹ کی پہلی گلی میں لگی، جہاں کپڑے کی دکان ہے، جس دکان میں آگ لگی اس کا دکاندار جھلس کر زخمی ہوا۔ریسکیو 1122 حکام کا کہنا ہے کہ متاثرہ عمارت کسی بھی وقت گر سکتی ہے، لوگوں کو وہاں سے ہٹا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق 300 سے زائد افراد کو عمارت سے نکالا گیا ہے، قریبی عمارتوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے،ڈائریکٹر ریسکیو 1122 سندھ عابد شیخ کا کہنا ہے کہ متاثرہ عمارت کا گراؤنڈ اور میز نائن فلور کمرشل مقاصدک کے لیے استعمال ہو رہا تھا، متاثرہ عمارت کے چار فلور پر فلیٹ بنے ہوئے تھے۔ڈائریکٹر ریسکیو 1122 کے مطابق یہ تیسرے درجے کی آگ ہے، آگ نے پوری عمارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔کراچی انتظامی اعتبار سے سات اضلاع پر مشتمل ہے مگر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی آج بھی اسی فرسودہ انتظامی حدود سے جڑی نظر آتی ہے، ادارہ پچھلے کئی سال میں بھی انتظامی حدود کے اعتبار سے جدت اختیار نہیں کرسکا، اس کے لیے کراچی جیسے شہر کی تعمیرات کا انتظام سنبھالنا ناممکن ہے۔شہر قائد میں اس سے قبل بھی کئی بار آتشزدگی کے بڑے بڑے سانحات رونما ہوچکے ہیں جن میں سیکڑوں قیمتی انسانی جانوں کے علاوہ اربوں روپے کا نقصان بھی ہوچکا ہے ،جس کے بعد انتظامیہ کو عمارت میں آگے بجھانے کا نظام لگانے اور ہنگامی اخراج کا راستہ بنانے کی تنبیہ کی گئی تاہم سندھ انتظامیہ کی غفلت اور لاپروا ئی کی بنا پر احکامات کو پس پشت ڈال دیا گیا ۔ حکومتی سروے کے مطابق کراچی کی نوے فی صد عمارتوں میں آگے بجھانے کا نظام موجود نہیں ہے ، جس سے متعلقہ حکام کی مجرمانہ غفلت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ صوبے سندھ میں بلڈنگ کوڈ آف پاکستان 2016 کو سرے سے نظرانداز کردیاگیا ہے۔ شہر قائد میں دھڑا دھڑکثیر المنزلہ عمارتیں بن رہی ہیں لیکن متعلقہ حکام ان عمارتوں میں آگ بجھانے کے نظام اوران بلند و بالا عمارتوں میں فائر سیفٹی فائٹنگ کا شعبہ ، اخراجی راستوں سمیت عمارتوں کی چھتوں پر سپرنکلر سسٹم نہیں لگائے گئے ہیں۔تجارتی و رہائشی عمارتوں اور بازاروں میں آگ لگنا تو اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے لیکن تشویش کا پہلو یہ ہے کہ ذمہ دار اداروں کا آتشزدگی پر بر وقت قابو نہ پا نا ہے ۔کراچی میں فائر بریگیڈ اور بلدیاتی ادارے موجود ہیں، ان اداروں کے افسروں اور دیگر اسٹاف کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ٹیکس ہندگا ن کے پیسوں سے ان افسروں اور ملازمین کو تنخواہیں، مراعات دی جا رہی ہیں لیکن بحرانی صورتحال میں ان کی کارکردگی شرمناک حد تک مایوس کن ہے۔ شہر میں سیکڑوں بڑے حادثات کے بعد بھی فائر بریگیڈ اور اسنارکلز کی تعداد پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے لیے اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔فیکٹریوں کے اندر فائر سیفٹی کے فول پروف انتظامات نہیں ہیں اور جہاں ہیں، وہ بھی صرف رسمی طور پر کیے گئے ہیں۔ فائر فائٹرز کی تربیت اور اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔ اس سے قبل کراچی میں گیارہ ستمبر 2012کو گارمنٹس کی فیکٹری میں لگنے والی آگ کو تاریخ کی سب سے بڑی ہولناک آگ قراردیا جارہا ہے، جس پر پچیس گھنٹے کی مسلسل کوششوں کے بعد قابو پایا گیا۔ گزشتہ ماہ بھی کراچی میں ماہرین نے سٹی پلانرز، انجینئرز اور بلڈنگ پلان کے ماہرین نے نشاندہی کی تھی کہ کراچی شہر میں تقریباً 90 فیصد رہائشی، تجارتی اور صنعتی عمارتوں میں آگ سے بچاؤ اور آگ بجھانے کا نظام موجود نہیں ہے۔ ماہرین نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جیسے ریگولیٹری اداروں کی مجرمانہ غفلت نے شہر کے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ادھر نگران وزیر اعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے عائشہ منزل کے قریب عمارت میں آگ لگنے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آگ پر فوری طور پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔انہوں نے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو جائے وقوع پر پہنچ کر معاملے کی مانیٹرنگ کرنے کے ساتھ ساتھ فائربریگیڈ کی مزید گاڑیوں کو جائے وقوع پر پہنچ کر آگ بجھانے کا حکم دیا۔ علاوہ ازیں گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے عائشہ منزل پر فرنیچر کی دکان اور بلڈنگ میں آگ لگنے کا نوٹس لے لیا۔ گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے کہا کہ آتشزدگی کا واقعہ انتظامیہ اور حکومت کی نااہلی سے ہوا، میں گورنر کی حیثیت سے واقعہ کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔گورنرسندھ کامران خان ٹیسوری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایس بی سی اے سفید ہاتھی بن چکا ہے، کرپشن کا بازار گرم ہے، ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر بیٹھنا ہوگا۔کامران خان ٹیسوری نے کہا کہ صرف احکامات یا اعلانات سے نہیں بلکہ ایکشن کرنا ہوگا۔ میڈیا سے گفتگو میں گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ کراچی کا کوئی پرسان حال نہیں، آج کے واقعے میں فائربریگیڈ دیر سے پہنچی، ان تمام واقعات کے ہم ذمہ دار ہیں،ہم صرف ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں، متاثرین کی جو مالی امداد ہوسکی کریں گے۔گورنرسندھ کا کہنا تھا کہ اسٹریٹ کرائمز ہو یا آگ لگنے کے واقعات، نقصان عوام کا ہی ہوتا ہے، میئر کراچی کو اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ ایسے واقعات بار بار رونما نہ ہوں، عمارت میں گودام بنا دیے گئے جو انتہائی غلط اقدام ہے۔ترجمان گورنر ہاؤس کے مطابق گورنر سندھ نے میئرکراچی مرتضیٰ وہاب سے رابطہ کرکے عائشہ منزل پر لگنے والی آگ کی وجوہات پر رپورٹ طلب کرلیں۔گورنر سندھ کامران ٹیسوری کا کہنا تھا کہ افسوسناک واقعے کے ذمہ داروں کا تعین ضروری ہے۔میئرکراچی مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ فائرسیفٹی کے لیے جامع اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بتایا گیا ہے کہ جس نوعیت کی آگ تھی وہ آسانی سے نہیں بجھتی، ریسکیوکا کام مکمل ہونے پرتعین ہوگا اور جس کی کوتاہی ہوگی اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے کہا کہ آتشزدگی کا واقعہ انتظامیہ اور حکومت کی نااہلی سے ہوا، ایس بی سی اے سفید ہاتھی بن چکا ہے، کرپشن کا بازار گرم ہے، میں گورنر کی حیثیت سے واقعے کی ذمے داری قبول کرتا ہوں، واضح رہے کہ شہر میں تقریباً 90 فیصد رہائشی، تجارتی اور صنعتی عمارتوں میں آگ سے بچاؤ اور آگ بجھانے کا نظام موجود نہیں ہے۔ گزشتہ ماہ ماہرین نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جیسے ریگولیٹری اداروں کی مجرمانہ غفلت نے شہر کے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔شہر قائدمیں آتشزدگی کے واقعات مسلسل ہوتے رہتے ہیں لیکن گزشتہ چند برس سے کراچی میں رہائشی آبادیوں میں بلند و بالا کمرشل اور رہائشی عمارتوں میں آتشزدگی کے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں لیکن ان کی روک تھام کے لیے سندھ حکومت کی جانب سے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے گئے ، جو لمحہ فکر ہے۔ شہر قائد میں کثیرالمنزلہ عمارتوں اور شاپنگ مالز کی بہتات ہے، اکثر عمارتوں میں حفاظتی نظام موجود نہیں ہے اور اگر موجود ہے تو وہ دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ناکارہ ہوچکا ہے، کئی عمارتوں کی پارکنگ ہی نہیں ہے۔ رہائشی مکانات کو کمرشل بنا دیا گیا ہے، قوانین بنانے اور ان پر عمل کرنے والے کسی ادارے کو اس بگڑتی صورتحال کی کوئی پروا نہیں ہے۔