مزید خبریں

پاکستان ریلوے شدید مالی بحران کا شکار

(دوسری اور آخری قسط)
پرائیویٹ سیکٹر کو بھی دعوت دی جائے کہ وہ اپنی کوچز اور انجن لے کر آئیں اور ٹریک کو استعمال کرکے اس پر ٹرینیں چلائیں اور ریلوے کو ٹریک کا مناسب کرایہ دیا جائے جس سے ریلوے کی آمدنی میں بغیر کچھ خرچ کیے کافی اضافہ ہوگا۔ اس طرح کا ماڈل دنیا کی بے شمار ریلویز میں رائج ہے اور بہترین کمائی کا ذریعہ ہے۔ صرف مسافر ٹرینوں اور مال گاڑیوں کے ذریعے ریلوے کے حالات بہتر ہونا ممکن نہیں۔ کچھ ناعاقبت اندیش قوتیں ریلوے کی نجکاری کے طرف تیزی سے گامزن ہیں۔ میں یہ کہوں گا کہ نجکاری کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ نجکاری کی بجائے ریلوے کے بزنس کو بڑھایا جائے اور ریلوے میں سے افسران کی دن بدن بڑھتی ہوئی تعداد کو کم کیا جائے اور ضرورت سے زیادہ افسران کو پاکستان کے دیگر اداروں میں بھیجا جائے۔

میرے نزدیک پاکستان ریلوے محض ادارہ نہیں بلکہ پاکستان کا چھٹا صوبہ ہے اور صوبوں کی نجکاری نہیں کی جاتی۔ پاکستان ریلوے ملک کی معاشی خوشحالی کی کنجی ہے۔ علاقائی تجارت کا فروغ ایک مضبوط ریلوے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پاکستان ریلوے اس ملک کے ہر طبقے کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ یہ امیر، غریب اور متوسط طبقے کو باعزت وسیلہ سفر فراہم کرتا ہے۔ پاکستان ریلوے کے مزدور اور دیانتدار افسران اس کو خطے کی بہترین ریلوے بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان آرمی کے چیف اور وزیراعظم پاکستان ریلوے کے استحکام اور خوشحالی پر غور کریں اس سے پاکستان کے استحکام اور خوشحالی کی بنیاد بنے گی۔

میں نے اپنی ریلوے کی زندگی کا آغاز 29 جون1985ء میں کیا۔ اس وقت ریلوے میں ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد ملازم تھے۔ اْس وقت ریلوے کا ایک جنرل مینیجر21ویں گریڈ کا ہوتا تھا جبکہ آج ریلوے میں جنرل مینیجر 22ویں گریڈ کا، تین ایڈیشنل جنرل مینیجر 21ویں گریڈ کے، ڈی جی والٹن21 ویں گریڈ کا، ایم ڈی ریل کاپ 21 ویں گریڈ کا، ایم ڈی پراکس 21 ویں گریڈ کا، ایم ڈی PRFTC 21ویں گریڈ کا، سیکرٹری ریلوے بورڈ21 ویں گریڈ کا، آئی جی ریلوے 21ویں گریڈ کا، 20ویں گریڈ، 19 ویں گریڈ، 18ویں گریڈ اور 17ویں گریڈ کی فوج ظفر موج موجود ہے۔ سوال یہ بنتا ہے کہ کیا ریلوے ایران میں چلی گئی ہے یا یہ ریلوے افغانستان میں چلی گئی ہے؟ کیا ریلوے انڈیا میں چلی گئی ہے؟

ملازمین سکڑتے چلے گئے اور افسران بڑھتے چلے گئے۔ پاکستان ریلوے کی بیوروکریسی کو چاہیے کہ اپنے ذاتی لڑائی جھگڑوں کو بھول جائیں اور اس ڈوبتے ہوئے قومی ادارے کو ٹریک پر لانے کی کوشش کریں۔ گزشتہ مہینوں سرہاری ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے خوفناک حادثے کے بعد ریلوے کے چھوٹے چھوٹے ملازمین اور افسران کو معطل کردیاگیاہے۔ میرے نزدیک یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس حادثے کی اصل ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ اس سے پہلے والے حادثوں کی ذمہ داری بھی ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ 76 سال سے پاکستان میں کسی بھی حکومت نے پاکستان ریلوے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ جو بھی حکومت آئی اس نے کھلواڑ کیا۔ 2013ء سے حکمران ایم ایل ون، ایم ایل ون کھیلنے میں مصروف ہیں۔ حالیہ سیلاب کی وجہ سے پاکستان ریلوے کا بدترین نقصان ہوا،

ٹریک بہہ گیا، اس کے باوجود ریاست نے کوئی پیسہ نہیں دیا، ریلوے کے گینگ مین، کی مین، میٹ اور افسران 10 فٹ گہرے پانی میں کام کرتے رہے، خود بڑے بڑے شگاف پْر کیے۔ دو مہینے کی شب و روز محنت کے بعد اس لاوارث اور خونی ٹریک کو بحال کیا۔ اس کے باوجود ریاست کو ترس نہ آیا۔ وفاقی وزیر ریلوے اسمبلی میں کھڑے ہوکر شور مچاتے رہے، راقم الحروف نے خود پریم یونین کی قیادت کرتے ہوئے پورے ملک میں پشاور سے لے کر کراچی اور کراچی سے لے کر کوئٹہ، چمن، دالبندین کے سیکشنوں پر جلسے جلوسوں میں بے رحم حکومت سے بیل آؤٹ پیکیج کی اپیل کی لیکن اس کے باوجود ریاست کو ترس نہ آیا۔ اب حادثے کے بعد ریلوے ملازمین کو معطل کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ میں اس ملک کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اپیل کروں گا کہ ان حادثات پر عدالتی کمیشن بنایا جائے اور جن جن حکومتوں نے اس ادارے کے ساتھ ناانصافی کی ہے اْن کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور اس کی بے لاگ تحقیقات کی جائیں۔ کب تک یہ چھوٹے چھوٹے ملازمین پر حادثوں کا ملبہ ڈال کر اپنی جانیں چھڑواتے رہیں گے۔

ریلوے افسران اور ملازمین آج بھی ایک عزم لیے ہوئے ہیں کہ ہم نے ہرصورت میں اس ادارے کو بحال کرنا ہے۔ ہم مل کر کام تو کرسکتے ہیں مگر وسائل مہیا کرنا تو ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اگر اب بھی ریاست نے وسائل نہ دیے تو پھر ریلوے کو میں مستقبل میں بند ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں جو ایک دفاعی، فلاحی اور وحدت کی علامت جیسا ادارہ ہے۔ زمانہ امن اور زمانہ جنگ کی صورت میں اس ادارے کا ایک کلیدی کردار ہے اور پاکستان کی بہادر فوج کی ٹرانسپورٹیشن کا انحصار بھی اسی ادارے پر منحصر ہے۔ اگر اس ملک کو پولیوشن فری بنانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو موٹروے، ہائی وے اور این ایچ اے کی طرح پاکستان ریلوے کو بھی پروموٹ کرنا ہوگا۔ اس میں سعودی عرب، جاپان، چائنہ اور انڈیا کی طرح انویسٹمنٹ کرنی پڑے گی۔ پاکستان ریلوے کا پشاور سے کراچی تک ریلوے ٹریک 1800 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔اس میں صحرا، دریا، نہریں، جنگل اور ریگستان کا علاقہ شامل ہے۔ اس ٹریک کی 24 گھنٹے پٹرولنگ ہونی چاہیے۔