مزید خبریں

اکھنڈ بھارت کے تصور نے بھارت کو اقلیتوں کیلیے جہنم بنادیا

کراچی ( رپورٹ /محمد علی فاروق ) بھارت میں بدترین استحصالی نظام رائج ہے‘ہندوازم کے سوا کسی کو جینے کاحق نہیں‘صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ ہراقلیت پر مظالم روا رکھے جارہے ہیں‘دنیا میں اس کا امیج سیکولر ریاست کے بجائے ہندو انتہا پسند ریاست کے طور پر ابھر رہا ہے‘ہندوستان پر صدیوں مسلمانوں نے حکومت کی ‘تقسیم کے بعدپاکستان کاوجود ہندوؤں میں غصے کا سبب ہے‘ ہندودھرتی کی تقسیم کو ہندوؤں نے کبھی بھی دل سے تسلیم نہیں کیا‘ہندوتوا کا تصور یعنی جیسے یہودی صہونیت کے ماننے والوں کا گریٹر اسرائیل کا تصور ہے اسی طرح اکھنڈ بھارت کا تصور ہے اسی بڑے تصور کو سامنے رکھ کر عوام کو یہی تصور دکھا کر مذہب کے کارڈ کو کھیلتے ہوئے بھارتی جنتا پارٹی ( بی جے پی ) نے ووٹ حاصل کئے اور آج بھی ایسی ایشو کو بنیا د بنا کر ووٹ حاصل کر رہے ہیں۔ دنیا بھر کی انصاف پسند ریاستیں‘ کشمیر‘ فلسطین ‘ بھارت‘ عراق ‘شام ‘ افغانستان سیت جہاںبھی نسل کشی ہورہی ہے ان کے خلاف آواز بلند کریں۔ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے شعبہ خواتین کی ڈائریکٹر امور خارجہ و سابق ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی ،امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ اور معروف بین الاقوامی امور کے ماہر تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر نے جسارت سے خصوصی گفتگو میں کیا ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے شعبہ خواتین کی ڈائریکٹر امور خارجہ و سابق ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ بھارت دراصل ایک سیکولر ریا ست کی بجائے ہندو انتہا پسند ریا ست بن گیا ہے جو اپنے ہندو ازم کے سوا کسی کا نہ حق تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی انہیں انسان تسلیم کرتا ہے اور نہ کسی کی رائے کا احترام کرتا ہے اس وقت ہندوستان میں بدترین استحصالی نظام رائج ہے وہ اپنے ہندو ازم کے سواکسی اور کو جینے کا حق نہیں دیتا ہندوستان میں صرف مسلمانو ں کے ساتھ ہی نہیںبلکہ ہر اقلیت کے ساتھ مظالم ڈھا ئے جارہے ہیں وہ چاہئے عیسائی ،بدھ مد ،سکھ مذہب یا منی پور ریاست کے باشندے ہیں سب کے ساتھ ہی ہندو انتہا پسندوں نے ظالمانہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے اقلیتوں کے خلاف انتہا پسندانہ رویے کی وجہ سے ہندوستان میں راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ یا (آر ایس ایس)ہندو انتہاپسند تنظیم کو تقویت مل رہی ہے ، دنیا کے تمام انصاف پسند عوام اور جو بھی استعماری طاقتیں ہیں ،فلسطین ، کشمیر ، عراق ، افغانستان ، شام ،افریقہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کر رہی ہیں اور استحصالی نظام کو رائج کیا ہوا ہے ، ان سب کے خلاف آواز بلند کرنی اور آواز اٹھانی چاہیے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ کفر کے ساتھ ریاست چل سکتی ہے مگر ظلم کے ساتھ نظام نہیں چل سکتا، اللہ تعالیٰ بہت دیر تک اپنی دنیا کو ظالموں کے حوالے نہیں کرتا ظلم وستم کی اندھیری رات اس بات کی نوید ہے کہ سحر قریب ہے ہم سب کو گھبرانا نہیں چاہیے ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے وہ اپنی دنیا کو ظلم کے نظام پر زیا دہ عرصہ نہیںرکھتا بلکہ جب ظلم کا نظام اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا کوڑا حرکت میں آتا ہے اور ظالم لوگوں کو نیست ونابود کر دیتا ہے حضرت آدم علیہ السلام سے حضور اکرم ؐتک کے زمانے کی تاریخ گواہ ہے قرآن کریم اس بات کا شاید ہے کہ کتنی ہی طاقتور سلطنتیں، اور تہذیبیں آئیں جب انہوں نے سرکشی کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسے نیست ونابود کر دیا کہ آج دنیا میں ان کا نام ونشان بھی نہیں ہے بھارت کو بھی جلد ہی نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے اور ظلم کا نظام زیا دہ دیر تک نہیں چل سکتا ، اعداد شمار کو دیکھا جائے تو بھارت میں بدترین انسانی حقوق کی پا مالی کی جارہی ہے اس پر ایمنسٹی انٹر نیشنل ، اقوام متحدہ ، او آئی سی کو انسانی حقوق کی پامالی کا نوٹس لینا چاہیے ۔ امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ نے کہاکہ مسلمانوں نے اقلیتوں میں ہونے کے باوجود صدیوںہندوستان پر حکومت کی اور ہندوں کی اکثریت کو مسلمانوں کے تابع رہنا پڑا پچھلی صدی میں جب دنیا میں سیکولر ازم کا ڈنکا بجا اور جمہوریت کے نعرے بلند ہوئے بادشاہت کے مقابلے میں جمہوریت نے فروغ پایا تو ہندو ؤں کو بھی ایک امید ہوگئی کہ جمہوری نظام کے تحت اگر ہم اقتدار کی کو شش کرتے ہیں تو اکثر یت میں ہونے کی وجہ سے اقتدار حاصل کر لیں گے بحرحال اللہ تعالیٰ کی مشیت تھی کہ پاکستان وجود میں آیا یہ ہندوں کے لیے ایک بہت زیادہ غصے کا باعث بنا کہ مسلمان اقلیت میں ہونے کے باوجود دو قومی نظریے کی تحریک کے چلنے کے نتیجے میں پاکستان بنا نے میں کامیاب ہوگئے اورہندوستان کی تقسیم ہوگئی ، ہندوں کا تصور ہمیشہ یہی رہا ہے کہ ہندوستان ہندوں مذہب کے رہنے کی جگہ ہے اور پاکستان کا وجود میں آنا اکھنڈ بھارت کے نظریے کی تقسیم ہے یہی وجہ ہے کہ ہندودھرتی کی تقسیم کو ہندوں نے کبھی بھی دل سے تسلیم نہیں کیا بعد ازاں انہی کی سازشوں کے تحت سقوط ڈھا کا اور نائن الیون ( 9\11)جیسے سانحات نے جنم لیا اور دنیا میں مسلمانوں کے لیے حالات بہت زیادہ تبدیل ہو گئے ہندوں میں مذہبی اقلیت کی بنیا د پر شدت پسندی میں اضافہ ہوگیا ، کانگریس کے بھی مسلمانوں کے لیے کچھ اچھے تاثرات نہیں رہے کانگریس کو تو اس وقت موقع نہ مل سکا مگر بعد ازاں بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) کی حکومت میں ہندو مت کے شدت پسند عناصر کو موقع مل گیا ۔ دراصل یہ و ہی غصہ ہے جو تقسیم ہندوستان کی وجہ سے سب سے زیادہ مسلمانوں پر آج کل نکل رہا ہے ہندوتوا کا تصور یعنی جیسے یہودی صہونیت کے مانے والوں کا گریٹر اسرائیل کا تصور ہے اسی طرح اکھنڈ بھارت کا تصور ہے اسی بڑے تصور کو سامنے رکھ کر عوام کو یہی تصور دیکھا کر مذہب کے کارڈ کو کھیلتے ہوئے بھارتی جنتا پارٹی ( بی جے پی ) نے ووٹ حاصل کئے اور آج بھی ایسی ایشو کو بنیا د بنا کر ووٹ حاصل کر رہے ہیں چنانچہ باقی مسلمان جو اقلیت میں ہیں ان کے لیے ہندوستان میں زندگی اجیرن بنا دی گئی ، ہندو شدت پسند کہتے ہیں کہ ہندوستان تو ہے ہی ہندوں کے رہنے کی جگہ، یہی اصل نقطہ ہے اقلیتوں کے لیے ہندوستان کو جہنم بنا نے کے لیے پس پردہ اس ضمن میں خاص طور پر ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ہماری گذارش ہے کہ وہ صبر سے کام لیں قرآن حکیم اس حوالے سے بہت تفصیل سے بیان کرتا ہے کہ یہ صبر ہی ہے جب بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم وستم سے نجا ت دلا ئی تو صبر ہی وہ سہارا تھا جس نے ان مدد کی، ا ور ہم تاریخ کو دیکھیں تو مکہ کے مسلمانوں کو بھی ہجرت پر مجبور کر دیا گیا تھا ، صبرکے ساتھ محنت دعوت دین کا کام کریں گے تو پھر اللہ کی مدد بھی شامل حال رہے گی اور حالات بہتر ہوجائیں گے ، اسی طرح ہندوترا کا سیکولر ازم کا نعرہ وہ بھی کھوکھلا ثابت ہوگیا ہے ہندو شدت پسند کی بنیا د پر ہی یہ اکھنڈ بھارت اور ہندوترا کا نعرہ لگا کر گھرے ہوئے ہیں ہندوستان کے اس کردار کی مذمت بحرحال ہر سطح پر کی جانی چایئے ۔ معروف بین الاقوامی امور کے ماہر تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر نے کہا کہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف جذبات اور نفرتیں پہلے کیوں ظاہر نہیں ہوئیں تھیں ظاہر ہے کہ بھارت ایک ایسا ملک ہے جس میں ہر مذہب ، ذات اور مختلف تہذیب کے لوگ رہتے ہیں کئی سو کے قریب مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں ایک ایسا ملک جس کے آئین میں لکھا ہو ا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے خلا ف کسی قسم کا کوئی تعصب نہیں بر تا جائے گا ، بھارت کے آئین میں ہے سب کے ساتھ انصاف ہوگا ، 1947سے 2014تک بھارت کے لیے رائے کچھ مختلف تھی خدشہ ہے کہ نریندر مودی کے وزیر اعظم بنے کے بعد ان شکو ں کو بھی آئین سے نہ نکا ل دیا جائے اور بھارت کو ایک ہندو اسٹیٹ بنا دیا جائے ،بھارت کی آبادی ایک ارب سے بڑھ گئی ہے ، اور مسلمان آبادی کا 14فیصد ہیں20کروڑ کے قریب مسلمان ہیں پھر عیسائی ، بدھ مت ، سکھ اور دوسرے مذاہب کے لوگ آتے ہیں بھارت کی سب سے بڑی آبادی مسلمانوں کی ہے، بھارت میں مسلمانوں کے خلاف جذبات تو پہلے بھی تھے مگر نسل پرست بجرنگ دل اور انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس مسلمانوں کے خلاف جو نظریہ رکھتے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ،پہلے ان انتہاپسند تنظیموں کو جگہ نہیں ملی تھی، 75سالہ تاریخ میں 50سال سے زیادہ کانگریس کی بھارت میں حکومت رہی مذہنی فسادات تو ہوتے رہتے تھے مگر اس قدر پر تشدد نہ تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ بھارت میں انتہا پسندانہ سوچ نے زور پکڑ لیا ہندو قومیت کے نظریے کو تنظیم ہندوتوا ، بجرنگ دل اور انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس سے تقویت ملی ، بابری مسجد کی شہادت اور گجرات کے فسادات کے بعد بھارت مذہبی اقلیتوں کے لیے جہنم بنے لگا ، جو کہ پہلے نہیں تھا ، شمالی بھارت میں زیادہ نفرتیں بڑھیں جبکہ جنوبی بھارت پر سکون رہا وہاں مذہبی اقلیتوں کے خلاف جذبات اس پیمانے تک نہیں رہے جب ریاست اپنا سیکولر کا لبادہ ختم کر دے تو پھر ریاست میں ایسے حالات پیدا ہو جا تے ہیں اور اب مذہبی اقلیتوں کے لیے توپورا بھارت ہی جہنم بن رہا ہے۔پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر نے کہا کہ بھارتی جنتا پارٹی ( بی جے پی )جو گذشتہ 10سال سے اقتدار میں ہے ، اس نے بر ملا فوج ، بیروکریسی ، پولیس ، عدلیہ ودیگرریاستی اداروں میں اپنی سوچ کے خاص لوگوں کو پروان چڑھایا ، جن کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہندو مذہب کے پیرو کار وں کو تقویت دیں اور ان کی فلا ح وبہبود کے لیے اقدامات کریں ،جبکہ ریاست کو غیر جانبدار ہونا چاہیے ریاست میں سیکولر نظام نہیں رہے گا تو ظاہر ہے کہ اقلیتیں غیر محفوظ ہوجا ئیں گی ، اس ضمن میں خاص طور پر مسلمان اقلیت اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں ریاستی اداروں میں مسلمانوں کا نہ ہونے میں ان کا اپنا بہت بڑا کردار ہے کیونکہ انہوں نے اپنا رشتہ تعلیم سے نہیں جو ڑااور پسماندہ رہے،جس کی وجہ سے وہ دوسری قومیتوں سے پیچھے رہ گئے، اگر بھارتی مسلمان سائنس و ٹیکنالوجی میں آگے ہوتے تو آج صورت حال مختلف ہوتی ۔