مزید خبریں

میت کا قرض

سیدنا سعد بن الاطولؓ سے روایت ہے کہ میرا بھائی فوت ہوگیا اور 300 دینار ترکہ چھوڑا اور اپنے پیچھے چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑے۔ میں نے ارادہ کیا کہ میں اس رقم کو اُن پر خرچ کروںگا۔ (رسولؐ سے میں نے عرض کیا) تو آپؐ نے فرمایا: تمھارا بھائی قرض کے سبب گرفتار ہے۔ اس لیے پہلے اس کا قرض ادا کرو۔ اس کے بعد جو بچے، وہ بچوں پر خرچ کرو تو میں نے اپنے بھائی کے قرض خواہوں کو تلاش کر کے ان کے قرضوں کی ادایگی شروع کر دی اور تمام قرض خواہوں کے قرضے ادا کردیے۔ صرف ایک عورت رہ گئی جو دعویٰ کرتی تھی کہ تیرے بھائی نے میرے دو دینار دینے تھے لیکن اس کے پاس ثبوت کوئی نہ تھا۔ میں نے نبیؐ سے عرض کیا تو آپؐ نے فرمایا: اس عورت کو بھی دو دینار دے دو، یہ سچی ہے۔ (مسند احمد)

آدمی جب فوت ہوجائے تو اس کے مال میں سب سے پہلے اس کے کفن دفن کا انتظام کیا جائے گا۔ اس کے بعد اس کے مال میں سے اس کے قرضے ادا کیے جائیں گے۔ پھر بھی مال بچ گیا تو اس میں سے 1/3 تک اس کی وصیت پوری کی جائے گی۔ اس کے بعد باقی مال ورثا میں تقسیم کیا جائے گا۔ اسی ضابطے کے مطابق نبیؐ نے سیدنا سعد بن اطولؓ کو بھائی کے قرض خواہوں کے قرض ادا کرنے کی تلقین فرمائی جس کو انھوں نے پورا کر دیا۔

حدیث میں واضح کیا گیا کہ جب تک آدمی کا قرض ادا نہ ہو وہ قید ہوگا۔ وہ اپنے باقی اعمال کی وجہ سے جنت کا مستحق ہوگا تو پھر بھی قرض کے سبب جنت سے روک دیا جائے گا، جنت میںنہیں جاسکے گا۔ قرض ادا ہوگا تو رکاوٹ دُور ہوجائے گی۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ اپنی زندگی میں قرض خواہ کے قرض اداکرنے کو اوّلیت دے اور ورثا کو بھی اس کی تلقین کرے اور قرضوں کی تفصیل اور وصیت لکھی ہوئی رکھی ہو اور ورثا کو بتلا دی گئی ہو کہ فلاں جگہ رکھی ہے۔