مزید خبریں

سیسی میں نامزدگیاں ہی نامزدگیاں، جمہوریت ناپید

سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن ہمارے معاشرے کا ایک ایسا ادارہ ہے جس میں ہمارے معاشرے کا چہرہ صاف نظر آتا ہے۔ ایسا ادارہ جہاں میرٹ کا فقدان ہے، قانونی مراعات تک صرف طاقت ور کو ملتی ہے۔ کمزور کو نہ انصاف ملتا ہے اور نہ اس کے جائز حق کے لیے کوئی اس کے ساتھ کھڑا ہوتا (اگر وہ کسی سیاسی کا جماعت کارکن نہیں ہے تو) اس کے ساتھ سنیارٹی میں زیادتی ہو یا کسی جائز لون کے ملنے وغیرہ سمیت دیگر مشکلات ہوں اس کے ساتھ عموماً کوئی کھڑا نہیں ہوتا۔ یہاں یونینز / ایسوسی ایشنز جیسے چھوٹے چھوٹے یونٹس کے اندر انصاف، میرٹ اور جمہوریت ناپید ہے۔ہر یونین کا عہدیدار بظاہر تو اپنے آپ کو بہت مقبول اور ملازمین سیسی کا ہر دلعزیز شخص سمجھتا ہے۔ اور اس میں حقیقت بھی ہوتی ہوگئی۔ لیکن کم از کم گزشتہ 23 سال میں تو کسی کی ہمت نہیں ہوئی ہے کہ ہم چند سو ملازمین کی رائے سے ہی منتخب ہو کر ان عہدوں پر آجائیں۔ البتہ دو سیاسی جماعتوں میں سے کسی ایک کو چنے کا اختیار گزشتہ تین دہائیوں میں دو بار سیسی ملازمین کو ملا ہے۔ پیرا میڈیکل ایسوسی ایشنز کا بھی یہی حال ہے دس پندرہ افراد مل کر عہدے بانٹ لیتے ہیں کبھی اپنے ووٹرز کی لسٹ بنا کر، ان کا اجلاس بلا کر باقاعدہ الیکشن کے ذریعہ کسی نے منتخب ہونے کی کوشش نہیں کی۔چھ سال قبل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے الیکشن کرانے تھے لیکن اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اب SDWA نے اچھا قدم اٹھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں کامیاب فرمائے۔ چونکہ تمام ہی لوگ سیاسی جماعتوں یا مخصوص گروپس کے پسند نا پسند، یا ان کی طے کردہ معیار، اہلیت یا قابلیت کی وجہ سے نامزد ہوتے ہیں۔ اس لیے انتظامیہ کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ 40/50 لوگ ہی ہوں گے۔ یونین و ایسوسی ایشن کی ملازمین کے ساتھ مضبوط رشتہ اور تعلق نہ ہونے کی وجہ سے ہی سیسی انتظامیہ ہر CBA کے سامنے اپنی من مانی کرتی نظر آتی ہے۔ ہمیں آپس میں جڑنے کی ضرورت ہے۔
ہم نے مزاحمت کو بھی دہشت بنا دیا
اب ظلم ہورہا ہے ملامت تو کیجئے
سسٹم بدل تو سکتے نہیں ہیں مگر جناب
سسٹم کے ساتھ تھوڑی بغاوت تو کیجئے