مزید خبریں

پاکستان ریلوے شدید مالی بحران کا شکار

پاکستان ریلوے ان دنوں شدید مالی بحران کا شکار ہوتا جارہا ہے اور دن بدن تباہی کے دہانے کی طرف جارہا ہے۔ آج حالات یہ ہوچکے ہیں کہ سالانہ 64 سے 65 ارب کمانے والے ادارے کے ملازمین تنخواہوں، پنشن اور دیگر واجبات کے لیے گزشتہ کئی سالوں سے شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔ ریلوے کے سی ٹور اور ڈی ٹور کے ملازمین کو کئی کئی ماہ سے تنخواہیں نہیں مل رہیں۔

ٹی ایل اے کا ملازم ایک دن چھٹی کرلے تو اْس کا نام خارج کر دیا جاتا ہے۔ کسی خوشی غمی میں بھی شامل نہیں ہوسکتے اور 8گھنٹے کے بجائے 10گھنٹے ڈیوٹی لی جاتی ہے۔ ہزاروں آسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں مگر نہ تو ٹی ایل اے والوں کو مستقل کیا جارہا ہے اور نہ ہی نئی بھرتیاں کی جارہی ہیں۔ ایک ایک بندے پر تین تین بندوں کے کام کا بوجھ ڈالا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے ریلوے ملازمین میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کی عدلیہ، سروسز کے ادارے، ہسپتال، ایجوکیشن کے ادارے، سیکرٹریٹ، اے جی آفس اور زراعت کے ادارے کیا پاکستان کی حکومت کو کما کردیتے ہیں؟ اْن کے ملازمین کو تنخواہیں تو بروقت مل جاتی ہیں جبکہ ریلوے ملازمین کو نہ تو ریٹائرمنٹ کے واجبات بروقت ادا کیے جاتے ہیں اور نہ ہی تنخواہیں اور پنشن بروقت دی جارہی ہیں جس کی وجہ سے صورتحال یہ ہے کہ ریلوے ملازمین آج ذہنی مریض بن چکے ہیں اور ان کی یہ پریشانی کسی بھی وقت ریلوے میں خوفناک حادثے کا باعث بن سکتی ہے۔ ریلوے کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کون کررہا ہے؟ کسی بھی حکومت نے ریلوے کی اہمیت کو نہ سمجھا۔ حکومتوں کی توجہ موٹروے، ہائی وے، رنگ روڈ، میٹروبس اور اورنج ٹرین پر مرکوز ہے جبکہ پاکستان ریلوے ایک دفاعی اور فلاحی ادارہ ہے۔ یہ چاروں صوبوں کی خوبصورت زنجیر ہے،

پاکستان کی وحدت کی علامت ہے اور ٹرین کو دیکھ کر پاکستان کی عوام کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم پاکستانی ہیں۔ گزشتہ 76 سالوں سے جس طرح اس ملک کے ساتھ کھلواڑ کھیلا گیا اور صرف 24 سال بعد آدھا پاکستان حکمرانوں کی ہٹ دھرمی اور غلط حکمت عملی کی وجہ سے ہم سے جْدا ہوگیا۔ انہی حکمرانوں کی مہربانی سے آج وطنِ عزیز کا خزانہ خالی ہوچکا ہے اور نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ یہ ملک خدانخواستہ کسی بھی وقت دیوالیہ ہوسکتا ہے۔ میں پاکستانی فوج اور قوم کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر سے اپیل کروں گا کہ جس طرح اْن کے جوانوں نے ڈالر کو جوکہ دن بدن آسمان کی طرف جارہا تھا اپنی فہم و فراست سے زمین بوس کیا ہے اور آج صورتحال یہ ہے کہ افغانستان کا طورخم بارڈر، چمن بارڈر، تفتان بارڈر میں اسمگلنگ کو آہنی ہاتھوں سے روک دیا گیا ہے۔

ڈالر مافیا، گولڈ مافیا، سٹیل مافیا دن بدن زمین بوس ہوتے جارہے ہیں۔ خدارا اس قومی، دفاعی، فلاحی اور وحدت کی علامت جیسے ادارے پاکستان ریلوے کو جوکہ بذاتِ خود ایک منی پاکستان ہے اس پر توجہ دیں اور اس خوبصورت ادارے کو جس کے پاس آج بھی اربوں ڈالر کی بہترین زمینیں موجود ہیں کوئی سپریم کورٹ کے جج، دیانتدار افسران سول بیوروکریسی پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے جوکہ شفاف طریقے سے ریلوے کی زمینوں کو چائنہ اور جاپان کے ماڈل پر پرائیویٹ سیکٹر میں دیں اور شفاف قسم کے معاہدے کیے جائیں جن کے اندر کوئی بھی پارٹی نہ تو عدالتوں سے سٹے لے سکے اور نہ ہی ڈیفالٹ ہوسکے اور اگر کوئی پارٹی ڈیفالٹ کرتی ہے تو اس سے فوری طور پر ریلوے اپنی زمین اپنے کنٹرول میں لے۔

اگر یہی کام ریلوے کی لینڈ مینجمنٹ اتھارٹی نے کیا تو پھر ریلوے میں لوٹ مار کا بازار گرم ہوگا جس کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ ریلوے کی لاکھوں ایکڑ خالی زمینیں موجود ہیں۔ ہزاروں ایکڑ پر قبضہ ہوچکا ہے۔ اس قبضے کو بھی واگزار کروانا چاہیے یا پھر اْن سے موجودہ ریٹ کے مطابق رقم لے کر اْن کے حوالے زمینیں کر دی جائیں۔ خالی زمینوں پر ملٹی نیشنل کمپنیوں سے مل کر بڑے بڑے ہوٹل، ٹاور، مارکیٹیں اور رئیل اسٹیٹ کے ساتھ مل کر بزنس کیا جائے تاکہ ریلوے کے مالی حالات بہتر ہوسکیں۔جس طرح چائنہ اور جاپان نے اپنی ریلوے کی خالی زمینوں پر رئیل اسٹیٹ کا بزنس کیا ہے اور حال ہی میں انڈیا حکومت نے اپنی پارلیمنٹ سے بل منظور کروایا ہے اور وہاں پر بھی لینڈ مینجمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں آگیا ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عمرعطاء بندیال نے بھی ریلوے کی زمینیں صوبائی حکومتوں سے لے کر پاکستان ریلوے کے حوالے کردی ہیں جس کا پی ڈی ایم کے دور حکومت میں قومی اسمبلی میں بھی لینڈ مینجمنٹ اتھارٹی کا بل منظور کرلیاگیاہے۔ وزارتِ ریلوے کو ایک طرف تو ملٹی نیشنل کمپنیوں سے رابطے کرنے چاہئیں اور دوسری طرف فریٹ پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہر ڈویژن کے کمرشل اور ٹریفک کے افسروں کے ذمے لگایا جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ گڈز ٹرینوں پر توجہ دیں اور جو پیسنجر ٹرینیں کورونا میں بند کی گئی تھیں اور دیگر بند ٹرینوں کو جلدازجلد بحال کیا جائے۔
(جاری ہے)