مزید خبریں

ملک میں عوام کو نہیں صرف تاجروں صنعتکارووں کوہی سبسڈی مل رہی ہے؟

صوبائی وزیر برائے صنعت و تجارت، ریونیو یونس محمد ڈھاگا نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں صنعتوں کے لیے گیس کے نرخوں میں سبسڈی دی جاتی ہے جبکہ رہائشی صارفین کو زیادہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں صنعتیں دیگر تمام شعبوں کو سبسڈی دے رہی ہیں جو کہ خالصتاً بین الاقوامی بہترین طریقوں کے خلاف ہے۔توانائی کے شعبے میں تمام مسائل کے حل کے لیے تاجر برادری کی مشاورت سے بنیادی ڈھانچے کی تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ صنعتیں اکیلے گیس کے نرخوں میں بے تحاشا اضافے کا بوجھ نہ اٹھا ئیں۔ یونس ڈھاگا کو اس بات کو علم ہی نہیں ہے ملک کے عوام حکمران ہی نہیں تاجروں صنعتکار وں اور دیگر اشرافیہ کا بوجھ اُٹھارہے ہیں صنعتوں کے لیے ٹیرف بڑھا کر اور دوسرے شعبوں کے لیے اسے کم کر کے کراس سبسڈی دینا دانشمندانہ اقدام نہیں ہے۔ صنعتوں پر صرف گیس کی قیمت کا بوجھ ڈالا جائے جبکہ صنعتوں پر کراس سبسڈی کا اطلاق نہ کیا جائے۔کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے دورے کے موقع پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

یونس ڈھاگا نے کہا کہ اتحاد کا فقدان کئی سالوں سے کراچی میں صنعتوں کا سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے جس کی وجہ سے توانائی کے بحران کے حوالے سے کراچی کی تاجر برادری کی رائے کو بری طرح خاموش کر دیتا ہے۔یہی بنیادی وجہ ہے کہ فیصل آباد، لاہور اور دیگر شہر متحد آواز رکھتے ہوئے حکومت کو اپنے مطالبات منوانے پر مجبور کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور کراچی کو بڑے پیمانے پر ریونیو اور برآمدات دینے کے باوجود زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ اگرچہ توانائی کے بحران میں صوبائی حکومت کا مینڈیٹ بہت محدود ہے لیکن اس سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے بھرپور کوششیں کی جائیں گی۔اس سلسلے میں ان کی کوشش ہوگی کہ کے سی سی آئی کے نمائندوں اور دیگر صنعتکاروں کی جلد از جلد وزیر اعلیٰ سندھ سے ملاقات کرائی جائے تاکہ ہم مل کر اسٹرکچرل تبدیلیوں کا مشورہ دے سکیں اور اسے سندھ حکومت وفاقی حکومت کے ساتھ اٹھا سکے۔

یونس ڈھاگا صاحب !سوئی گیس نے صنعتوں کی اربوں روپے کی گیس چوری پکڑی ہوئی سدرن گیس نے انکشاف کیا ہے کہ سندھ بھر میں 15 ماہ کے دوران صنعتوں نے 5.5 ارب کی گیس چوری کی ہے۔تفصیلات کے مطابق ایس ایس جی سی کی جانب سے گیس کی صنعتی چوری کے اعداد و شمار جاری کر دیے ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ 15 ماہ کے دوران صوبہ سندھ کی صنعتوں نے 5.5 ارب روپے کی گیس چوری کی ہے۔سوئی سدرن کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ صنعتکاروں سے سوا سال میں 1366 ملین مکعب فٹ گیس ریکور کی گئی۔سب سے زیادہ 4.5 ارب کی گیس چوری کراچی سے پکڑی گئی، ایس ایس جی سی کے مطابق کراچی میں 849 صنعتوں پر چھاپے مارے گئے جب کہ 288 کے خلاف مقدمات درج ہوئے۔کراچی چیمبرکے صدرطارق یوسف اور تاجر رہنما جاوید بلوانی نے سوئی سدرن کا دعویٰ مسترد کر دیا ہے۔ کراچی چیمبر نے کہا کہ سوئی سدرن کے خلاف حکومت اور عدالت دونوں جگہ رجوع کریں گے۔ہم نے ارٹیکل شروع میں ہم نے اپنے آرٹیکل کے آغا میں لکھا ہے کہ عوام حکمران ہی نہیں تاجروں صنعتکار وں اور دیگر اشرافیہ کا بوجھ اُٹھارہے ہیں۔یہ سب درست ہے شہر کے بڑے اور جھوٹے ہوٹلوں میں جو گیس چوری کی جاتی ہے اس کے بلز کا سار بوجھ عالاقے عوام پر ڈالا جاتا ہے ٓپ اس وقت صوبائی وزیر ہیں اس لیے ان الزمات کی تحقیق فرما کر عوام کو اس بوجھ سے نجات دلوائیں۔رپورٹ کے مطابق گیس چوری پریشر پمپس،میٹر میں گڑ بڑ اور لائنوں سے کی جارہی تھی جبکہ گیس لوڈ میں ہیر پھیر بھی پکڑا گیا،کمپنی کے مطابق لوڈ ا?رایل این جی پر شفٹ کرنے سے3.9 ارب کی وصولی ہوئی ہے۔

صنعتی حلقوں کا کہنا ہے کہ صنعتی کنکشنز میں ہیوی پریشر کی لائنوں کو سوئی سدرن گیس کمپنی کے عملے کی ملی بھگت کے سوا کسی قسم کا کنڈا نہیں ڈالا جاسکتا، ہائی پریشر لائنوں سے گیس چوری میں خود سوئی گیس کا عملہ اور افسران ملوث ہیں۔
بن قاسم ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (BQATI) نے صنعتی گیس کے نرخوں میں ہوشربا اضافے کے خلاف احتجاج کیا ۔پیر کو بقاٹی سیکرٹریٹ میں منعقدہ جنرل باڈی کے اجلاس میں ایسوسی ایشن نے فیصلہ کیا کہ مظاہروں کے علاوہ کوئی بھی برآمدی دن نہیں منایا جائے گا جب تک حکومت کراچی کی صنعتوں پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دیتی اور منصفانہ صنعتی ٹیرف متعارف کرواتے ہوئے گیس ٹیرف میں اضافے کے فیصلے پر نظر ثانی نہیں کرتی۔بقاٹی کے صدر عبدالرشید جان محمد نے کہا کہ دیگر ٹاؤن ایسوسی ایشنز، جو سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (SSGCL) کے نیٹ ورک سے منسلک ہیں، بھی جلد ہی اپنے غیر معمولی اجلاس منعقد کریں گی تاکہ مشترکہ احتجاج کی فیصلہ کن تاریخوں پراجتمائی موقف اختیار کیا جا سکے۔انہوں نے بقاٹی اراکین کو بتایا کہ انہوں نے یہ معاملہ حکومت کے اعلیٰ حکام کے ساتھ اٹھایا ہے۔ اسلام آباد اور کراچی میں وفاقی وزراء توانائی اور خزانہ سے مختلف ملاقاتیں ہوئیں اور نگراں وزیراعظم کو ایس ایس جی سی سے متعلق صنعتوں کے تحفظات سے بھی آگاہ کیا گیا۔

صنعتکارو ں کا یہ کہنا درست ہے کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے 1,350 روپے ایم ایم بی ٹی یو کے صنعتی گیس ٹیرف کا تعین کیا، لیکن وزارت توانائی نے یکطرفہ طور پر ٹیرف میں 100-130 فیصد اضافہ کر دیا، جس پر صنعتیں کام نہیں کر سکتیں۔ برآمدی صنعتوں نے 1,350 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کے منصفانہ صنعتی گیس ٹیرف کا مطالبہ کیا ہے، ایسا نہ کرنے کی صورت میں برآمدی صنعتوں کی ایک بڑی تعداد بند ہو جائے گی۔ کراچی کی صنعتوں نے کھادوں اور گھریلو شعبے کو دی جانے والی کراس سبسڈی کے بوجھ کی وجہ سے گیس کے نرخوں میں بے تحاشا اضافے کو مسترد کر دیا ہے جس کے وہ بنیادی طور پر مستحق نہیں ہیں

بقائی کی باتیں درست نہیں ہیں کہ گھریلو شعبے کو دی جانے والی کراس سبسڈی کے بوجھ کی وجہ سے گیس کے نرخوں میں بے تحاشا اضافہ ہو ا ہے

۔سرپرست اعلیٰ بقاٹی میاں محمد احمد نے کہا کہ صنعتوں کو گیس کے نرخوں کے لیے حکومت کی طرف سے کبھی کوئی سبسڈی نہیں ملی بلکہ ان پر کراس سبسڈی کا بوجھ پڑا ہے۔ گیس کے بلند نرخوں نے برآمدات پر مبنی صنعتوں کو بین الاقوامی منڈیوں میں ناقابل عمل اور غیر مسابقتی بنا دیا ہے ایک ایسے وقت میں جب ملک کو بڑھتے ہوئے تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے زرمبادلہ کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ حکومت کا فیصلہ برآمدات کو تباہ کر دے گا، بڑے پیمانے پر صنعتوں کی بندش اور بے روزگاری کا باعث بنے گا۔ان کا کہنا تھا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی اکثریت جگہ کی کمی کی وجہ سے متبادل ایندھن کا انتخاب کرنے کی متحمل نہیں ہے، کیونکہ ان میں سے زیادہ تر عمودی یونٹ ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ایس ایس جی سی ایل سردیوں کے چار مہینوں میں مطلوبہ پریشر کے ساتھ بلا تعطل گیس کی فراہمی کو برقرار رکھنے کی یقین دہانی کے بغیر گیس کی فراہمی کے لیے اضافی 50 فیصد ٹیرف میں اضافے کی درخواست بھی کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ گیس کی دو ہفتہ وار چھٹیاں ہوں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے حالات میں صنعتیں کام نہیں کر سکتیں۔
صدر ایف پی سی سی آئی عرفان اقبال شیخ نے حکومت کو پیشگی خبردار کیا ہے کہ کمرشل اور صنعتی صارفین پر گیس کے نرخوں میں اضافے کے شدید اثرات مرتب ہوں گے اور ان صارفین کی تعداد 4.3 ملین تک ہو سکتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان پہلے ہی مہنگائی کے تاریخی دباؤ کی زد میں ہے

اکتوبر میں یہ بات قابل غور تھی کہ اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی کابینہ کی توثیق کا انتظار ہے۔غالب امکان یہی تھا کہ حکومت یکم نومبر 2023 سے نئے ٹیرف کو الگو کرنے جا رہی ہے۔ یہ ایک نقصان دہ معاشی فیصلہ ہے اور مجوزہ اضافے کو برآمدات پر مبنی صنعتوں کے لیے قابل برداشت بنایا جانا چاہیے تھا۔ ایکسپورٹ پر مبنی صنعتوں کے لیے گیس ٹیرف میں 86 فیصد اضافہ اور دیگر صنعتوں کے لیے اس میں 117 (MMBtu)کر دیا گیا ہے اور اب اس کے نرخ 2,050 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ہو گی۔ صنعتیں اس بڑے پیمانے پر، (MMBtu)فیصد اضافہ کرکے کردیا گیا ہے اور اب یہ 2,600 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو یک طرفہ اور نا سوچے سمجھے اضافے کو برداشت نہیں کر پائیں گی۔ صدر ایف پی سی سی آئی عرفان اقبال شیخ نے وفاقی کی (SIFC)کابینہ سے اس کی توثیق اور اس کے بعد عمل درآمد کو روکنے کے لیے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل پاکستان میں فارن ڈائریکٹ انوسیمنٹ النے کے لیے کوشاں ہے؛لیکن SIFC اعل ٰی کمیٹی سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔ حکومت کو کاروبار کرنے کی الگت کو قابل برادشت حد تک برقرار رکھنے کی اہمیت کا کوئی اندازا نہیں ہے۔

عرفان اقبال شیخ نے تجویز پیش کی کہ حکومت گیس سیکٹر کے سرکلر ڈیٹ کو کم کرنے کے لیے دیگر اقدامات کرے؛ جیسا کہ الئن السز کو کم کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے سائنسی بنیادوں پر سروے (UFG)کرنا؛ کراس سبسڈی کا خاتمہ؛ سسٹم سے غائب ہو جانے والی کرنا؛ ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کو پیشہ ورانہ انتظام کے ذریعے چلانا سرکاری، نیم سرکاری اور نجی شعبے کے نادہندگان اور گیس چوری کرنے والوں سے واجبات کی وصولی شامل ہیں۔ توانائی اور بجلی کے شعبوں سے متعلق آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے؛ سرکلر ڈیٹ میں کمی اور سرکاری گیس کمپنیوں کی آمدنی میں اضافہ کر نے کے لیے متبادل راستے تلاش کیے جا سکیں۔

ایف پی سی سی آئی کے سنیئر نائب صدر محمد سلیمان چاؤلہ نے وضاحت کی کہ برآمدات پر مبنی صنعتوں کے لیے مجموعی طور پر گیس کی قیمت 2,300 روپے فی ایم ایم کے لگ بھگ ہوگی؛ کیونکہ اس کی قیمت میں مزید 10 فیصد کا اضافہ ری گیسیفائیڈمائع قدرتی گیس (MMBtu)بی ٹی یو کی بلینڈنگ کی صورت میں کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کمرشل صارفین کے لیے گیس کے نرخوں میں (RLNG) اضافہ عام شہریوں کے لیے بھی مہنگائی کو مزید ہوا دے گالہذا، حکومت کو اس اضافے پر دوبارہ غور کرنے اور الگو ہونے سے پہلے متاثرہ شعبہ جات و طبقات کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔