مزید خبریں

مقتدر قوتیں زرائع ابلاغ کو کنٹرول کر کے ملک اور معاشرے پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتی ہیں

کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری) مقتدر قوتیں ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کر کے ملک اور معاشرے پراپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتی ہیں‘ ریاست نے پہلے دن سے آ زادی صحافت کوقبول نہیں کیا‘ سیاستدانوں کو فرمانبردار بنانے ، جمہوریت کے بیانیے کوروکنے کیلیے چند سال بعدنئے قوانین متعارف کرائے جاتے ہیں‘ صحافی کمزور اور تقسیم نظر آتے ہیں ‘مالکان کی ترجیح صحافت نہیں کاروبار بن گیا‘ میڈیا کی معیشت کو تباہ کر دیا گیا۔ان خیالات کا اظہار پاکستانی صحافت کی انتہائی معروف شخصیت، سینئربے باک کالم نگار و تجزیہ کار، وفاقی جامعہ اردو شعبہ ابلاغ عامہ کے سابق چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان، سینئر صحافی و تجزیہ کار مظہر عباس، قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر فرحان صدیقی اور معروف سینئر صحافی، براڈکاسٹر، اینکر پرسن اور کالم نگار مطیع اللہ جان نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’پاکستان کے ذرائع ابلاغ آزاد کیوں نہیں ہیں؟‘‘ ڈاکٹر توصیف احمد خان نے کہا کہ بر صغیر میں اخبارات کا آغاز ایسٹ انڈیا کے دور میں ہوا اور کمپنی کے سابق ملازمین نے اخبارات شائع کیے‘ کمپنی کی حکومت کی یہ پالیسی تھی کہ اخبارات شائع نہ ہوں اور کافی عرصے تک اخبارات شائع نہیں
ہوئے اور پھر جب شائع ہونے لگے تو کمپنی کی حکومت نے یہ طے کیا کہ اخبارات کو ریگولیٹ کیا جائے یہی پالیسی بعد میں برٹش انڈیا حکومت کی رہی‘ 1947ء تک پاکستان کو بنانے میں ویسے تو بظاہر مسلم لیگ کا کردار تھا مگر اصل میں یہ کردار ان مسلمان بیورکریٹس کا تھا جنہیں انگریز بیو روکریسی کے کلچر میں زندگی ملی تھی تو پہلے دن سے پاکستانی ریاست نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ آ زادی صحافت ہونی چاہیے جس کے تحتعوام کو اپنے منتخب نمائندوں کو منتخب کرنے کا حق اور صحیح بات جاننے کا حق ہونا چاہیے‘ سرد جنگ کے بعد جب دنیا تبدیل ہو گئی تو ریاستی پابندیاں کبھی کم یا زیادہ ہوئیں مگر کچھ نظر نہ آنے والی پابندیاں لگ گئی اور اب تو گزشتہ 5 برس میں عمران خان کے دور سے اب تک میڈیا کی معیشت کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے اور اس کی ایڈیٹوریل پالیسیز کو ریگولیٹ کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے رہے ہیں‘ گزشتہ 5 برس کے دوران ذرائع ابلاغ پر نظر آنے والی پابندیوں اور ذرائع ابلاغ کو معاشی طور پر عملًا مفلوج کرنے کی ریاستی پابندیوں نے میڈیا کے اداروں کے لیے ایک بحران پیدا کردیا ہے، جو لوگ میڈیا سے عملی طور پر وابستہ ہیں ان کے لیے حالات معاشی طور پر بھی اور آزادی اظہار کے تناظر میں بھی سازگار نہیں اور نہ ہی اب اس صنعت میں نئے امکانات پیدا ہو رہے ہیں‘ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ صحافیوں کے لیے ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ جن میں حکومتی موقف کی حمایت اور طاقتور حلقوں کے مفادکے تحفظ میں صحافیوں اور صحافتی اداروں کو مختلف ترغیبات یا آسانیاں دستیاب ہیں تو دوسری جانب غیر جانبدارانہ اور معروضی حقائق پر مبنی صحافت کرنے والے افراد اور اداروں کے لیے برداشت اور کام کرنے کی گنجائش میں مسلسل کمی آرہی ہے‘ اگرچہ پاکستانی میڈیا کی ایک تاریخ ہے جہاں اس نے خبر کے بارے میں سچائی کو بنیاد بنایا وہیں اس کی سیاسی ، جمہوری، آئینی اور قانونی جدوجہد سمیت عام آدمی کے حقوق کی جنگ بھی شامل ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ماضی میں ہم نے میڈیا کے محاذ پر اپنی ایک شفافیت پر مبنی ساکھ بھی قائم کی ہوئی تھی لیکن اب میڈیا میں جو مسائل ہیں اس کی بنیاد پر بہت سے نئے سوالات بھی جنم لے رہے ہیں اور میڈیا کی نظریاتی اساس کے مقابلے میں اب کمرشل ازم کو زیادہ بالادستی حاصل ہوگئی ہے‘ پاکستان کی 74برس پر مشتمل تاریخ میں ذرائع ابلاغ کو ریاستی بیانیہ کی ترویج کرنے پر مجبور کیا گیا اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ، جمہوریت کی پاسداری اور مظلوم طبقات کے حقوق کے دفاع کے بیانیہ کی اشاعت سے روکا گیا۔ مظہر عباس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر چند سال بعد ایک نیا قانون متعارف کروا کر میڈیا کی آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ آج پاکستان میں صحافت اپنے اندر کے جنوں سے نبردآزما ہے ‘ جب کہ ساتھ ساتھ آزادی اظہار کی لڑائی بھی زوروں پر ہے‘ اس وقت میڈیا کئی طرح کے بحرانوں سے گزر رہا ہے‘ صحافی کمزور اور تقسیم نظر آتے ہیں اور لڑانے والے پہلے سے زیادہ متحد اور مضبوط ہوچکے ہیں‘ میڈیا میں آج کے عالمی کارپوریٹ ماڈل میں سب سے زیادہ ذمے دارانہ میڈیا پر مباحث یا علمی و فکری مکالمہ نظر آتا ہے لیکن ہمارے رسمی یا غیر رسمی میڈیا یا میڈیا کی تعلیم سے جڑے اداروں میں یہ مکالمہ کہیں گم ہوکر رہ گیا ہے جو نئی نئی بحثیں میڈیا کی جہتوں کے تناظر میں سامنے آرہی ہیں ان سے بھی ہم خود کو لاعلم رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر فرحان صدیقی نے کہا کہ سوشل میڈیا پر طاقتور قوتوں کے خلاف تنقید بڑھ گئی ہے اس تناظر میں مقتدر قوتیں مین اسٹریم میڈیا کو کنٹرول کر کے سوشل میڈیا پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتی ہیں تاکہ ان پر ہونے والی تنقید کو کم کیا جا سکے‘ جس طرح ن لیگ کے سربراہ نے 2017ء سے 2021ء تک طاقتور قوتوں کے خلاف مزاحمتی تحریک چلائی، ان قوتوں کا نام بھی لیا‘ اس طرح سابق وزیراعظم عمران خان نے 9 مئی کے واقعے سے قبل طاقتور قوتوں کو ہدف تنقید بنایا اور یہ آوازیں دونوں سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے اٹھائی اور خصوصاً سینٹرل پنجاب سے بھی ان قوتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ پاناما کیس کے حوالے سے ٹی وی چینل جیو ٹی وی اور ڈان ٹی وی پر دبائو ڈالا گیا ان کی نشریات کو محدود کیا گیا‘یہ ساری باتیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ طاقتور قوتوں کے خلاف تنقید تو بڑھ رہی ہیں لیکن طاقتور قوتیں اپنے اوپر ہونے والی بڑھتی ہوئی تنقید کو مین اسٹریم میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر بھر پور طریقے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کو اس حد تک روکا نہیں جا سکتا ہے‘ گزشتہ 5 برس کے دوران ہماری سیاسی جماعتوں نے طاقت ور قوتوں کے خلاف جو مہم چلائی ہے وہ اب یکسر تبدیل ہو گئی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کا میڈیا کتنا آزاد ہے اور طاقتور قوتیں مین میڈیا کو آسانی سے اپنے کنٹرول میں کر لیتی ہیں‘ موجودہ تناظر میں لوگ روایتی ابلاغ عامہ کے ذرائع اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے مندرجات میں اپنی محدود ترین شمولیت کی وجہ سے بڑی تیزی سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں‘ جہاں وہ اپنی مرضی کے مندرجات پڑھ، دیکھ اور سن سکیں‘ ان پر تبصرہ کرسکیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے نقطہ نظر کا کھل کر آزادانہ اظہار کرسکیں۔ اس کے علاوہ وہ خود مندرجات تخلیق کرسکیں یعنی لوگ اب معلومات اور اطلاعات کے صارف اور پروڈیوسر دونوں بن چکے ہیں۔ سوشل میڈیا ٹیکنالوجی کا ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں تحریر، تصویر، آواز اور فلم کے ذریعے دوطرفہ ابلاغ ممکن ہے اور سب سے بڑھ کر کسی بھی مواد کی تخلیق اور تبادلہ کی سہولت کا حصول ہے‘ مختلف سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم میں فیس بک، انسٹا گرام، لنکڈ ان اور ایکس (سابقہ ٹوئٹر) سمیت دیگر سوشل میڈیا ٹولز شامل ہیں ۔ مطیع اللہ جان نے کہا کہ آزادی اظہارِ رائے کے مواقع سکڑتے جا رہے ہیں‘ طاقتور حلقے ملک میں کوئی اسٹرکچرل تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں جس کے تحت یا تو سیاست دانوں کو بالکل فرمانبردار بنا لیا جائے گا یا پھر وہ غیر ضروری ہو جائیں گے‘ آزاد میڈیا کی موجودگی میں ایسا ممکن نہیں ہے‘ اسی لیے تنقید کرنے والی آوازوں کو دبایا جا رہا ہے‘ مارشل لا کے دور میں صحافیوں نے بڑی قربانیاں دیں اور جبر کا مقابلہ بھی کیا لیکن اب پاکستانی صحافت میں طاقتور حلقوں کی طرف سے کئی افراد کو نوکریاں دلوائی گئی ہیں، ان میں ایک بڑی تعداد اینکرز کی ہے جن کا کام صرف سیاست دانوں کو گندہ کرنا ہے اور صحافیوں کی ساکھ کو خراب کرنا ہے۔ صحافیوں میں کئی غیر صحافی افراد آ گئے ہیں، جو مختلف اداروں کے لیے کام کرتے ہیں۔ صحافی تنظیموں میں یکجہتی کے فقدان نے بھی صحافی برادری کو نقصان پہنچایا ہے۔ صحافتی تنظیمیں علامتی طور پر احتجاج کرتی ہیں اور وہ اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہیں سکتیں۔مطیع اللہ جان میڈیا مالکان سے بھی نالاں ہیں ان کے خیال میں ان کی ترجیح صحافت نہیں بلکہ کاروبار ہے‘ میڈیا ہاؤسز کے مالکان موجودہ صورتحال کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور مالی بحران کا بہانہ کر کے کارکنان کو نکال رہے ہیں۔ ملک میں ایک عجیب صورتِ حال ہے کہ ایک طرف تو مختلف بزنس گروپ میڈیا کی طرف آ رہے ہیں جب کہ دوسری طرف میڈیا مالکان دوسرے کاروبار کی طرف جا رہے ہیں۔ اس لیے کچھ قوتوں کو یہ موقع مل گیا ہے کہ وہ اپنے ناقدین کو فارغ کرائیں۔