مزید خبریں

مسلم حکمرانوں کے دلوں میں اللہ پر ایمان کم ،امریکا اور اس کے دوستوں کا خوف زیادہ ہے

کر اچی ( رپورٹ \محمد علی فاروق ) مسلم حکمرانوں کے دلوں میں اللہ پر ایمان ویقین کم ہے غیر اللہ اورامریکا اور اس کے دوستوں کا خوف زیادہ ہے ،اوریہ خاموش تماشائی کا کرادار ادا کر کے اپنی عافیت اسی میں سمجھتے ہیں ، مسلم حکمرانوں کے امریکا اور اسرائیل سے گہرے مراسم ہیں اور ان کی سلامتی ، معیشت ،تعلیم ، سائنس ، ٹیکنالوجی ، صنعت کا انحصار مغربی ممالک سے ہے ۔وہ چاہتے ہیں کہ مصر میں جس طرح اخوان المسلمین کو ختم کیا گیا اس طرح فلسطین میں اسرائیل حزب اللہ اور حماس کو بھی ختم کر د یں تاکہ خلیجی ممالک میں ایران کے بڑھتے اثر و رسوخ کو ختم کیا جا سکے ،مسلم حکمرانوں کی ایک اہم بڑی وجہ غلامانہ ذہنیت ہے اور ان کے مغرب کی بڑی طاقتوں کے ساتھ مفادات وابستہ ہیں۔ ان خیالات کا اظہار امیرجماعت اسلامی پاکستان سراج الحق ، معروف تجزیہ کار اورسابق سفارت کار عبدالباسط اور سیاسی وبین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے نمائندہ جسارت سے خصوصی گفتگو کر تے ہوئے کیا ۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا کہ فلسطینی مظالم پر مسلم دینا کے حکمرانوں کی بے عملی اور خاموشی کا بنیادی سبب یہی ہے کہ مسلم حکمرانوں کے دلوں میں اللہ کے خوف کے بجائے غیر اللہ کا خوف ہے اللہ پر ایمان ویقین کم ہے امریکی اور اس کے دوستوں کا خوف زیادہ ہے دوسری بات یہ ہے کہ ہر زمانے میں کچھ لوگ حق کے ساتھ اور کچھ باطل کے ساتھ ہوتے ہیں تو کچھ لوگ تماشائی بن کر اس ہی کو عافیت سمجھتے ہیں ہمارے حکمران یہی چاہتے ہیں کہ ہم اسرائیل کا ساتھ تو دے نہیں سکتے اور فلسطین کی عملی مدد کے لیے جا نہیں سکتے عافیت اس ہی میں سمجھتے ہیں کہ ایک تماشائی کا کردار ادا کریں غیر جانبدار رہیں اور حالات کا انتظار کریں یہ چاہتے ہیں کہ غزہ ملبے کا ڈھیر بن جائے، لاشوں کا ڈھیر ہو ، انسانی زندگی کا خاتمہ ہوجائے یہ لوگ پھر وہاں جاکر اس ملبے کے ڈھیر پر سینہ کو بی کریں آنسوں بہائیں حالانکہ غزہ کو بچانے کا اب وقت ہے ، او آئی سی کا اجلاس ہوا غیر ت اور ایمان کا تقاضہ تو یہ تھا کہ غزہ بچانے کے لیے فوری طور پر پالیسی کا اعلان کیا جاتا دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسرائیلی مصنوعات اور ان کے ساتھ تعاون وسر پرستی کرنے والی کمپنیوں کا بائی کاٹ کیا جاتا ، تیسرا راستہ یہ تھا کہ اسرائیل کے جس ملک میں بھی سفیر موجود ہیں انہیںنکال کر ان کے ساتھ مکمل طور پر تعلقات کے خاتمے کا اعلان کیا جاتا اور چوتھا راستہ یہ تھا کہ ایک بین الاقوامی فلسطینی فنڈ کا قیام عمل میں لا یا جاتا اور پانچواں اسرائیل کو دھمکی دی جاتی کہ اتنے گھنٹوں میں اسرائیل نے بمباری بند نہیں کی تو کسی بھی ایسے ملک میں ہمارا تیل نہیں جائے گا جو اسرائیل کے ساتھ اس جرم میںشریک ہیں یا اس کی مدد کر رہے ہیں ۔ ایک دو ممالک تو حکمرانوں نے اپنی قیادت میں بڑے جلسے اور ریلیاں کی ہیں اور بیانات جاری کیے ہیں یہ کام اگر باقی مسلم حکمران بھی کرتے اور ایک موقف پر ڈٹ جاتے تو خود یورپ اور امریکا میں رہنے والے کروڑوں مسلمانوں کوحوصلہ ملتا مگر مسلم حکمرانوں میں سے کسی نے بھی یہ کام نہیں کیا اس کی بنیادی وجہ خوف اور ڈر بھی ہے دوسرادشمن سے طمع و لا لچ بھی ہے ، مسلم حکمرانوں کو فلسطین ، بیت المقدس ، قبلہ اول سے بھی زیادہ انہیں اپنا اقتدار عزیز ہے ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ وقت کے صلاح الدین ایوبی ، غزنوی ، اور ابدالی بنتے ۔بیت المقدس تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی میراث ہے ، صلاح الدین ایوبی کی امانت ہے اور یہ امانت اب ان لوگوں کے پاس ہے ، مسلمان حکمرانوں کے پاس اختیارات ہیں یہ امت مسلمہ کی امانت ہے ہمیں افسوس ہے کہ یہ لوگ اگر اللہ کے گھر کی بھی حفاظت نہیں کر تے تو یہ اختیارات میں خیانت کرتے ہیں اب ان مسلم حکمرانوں کی مرضی ہے کہ یہ وقت کا ٹیپو سلطان بنتے ہیں یا زمانے کا میر جعفر اور میر صادق بنتے ہیں ، بحرحال ہمیں اپنے حصے کا چراغ روشن کرنا ہے اور اپنے حصے کا فرض نبھانا ہے۔ معروف تجزیہ کار اورسابق سفارت کار عبدالباسط نے کہا کہ فلسطین کے مسئلے پر ہر ملک کے اپنے اپنے قومی مفادات ہیں دوسرا اس معاملے کی ایک بڑی وجہ ایران اور خلیجی ممالک کے درمیان اختلافات ہیں عرب دنیا دیکھ رہی ہے کہ اسلامی جہاد کی صورت میں حماس اور حزب اللہ کی شکل میں ایران کا اثرورسوخ خلیجی ممالک میں بڑھ گیا ہے وہ چاہتے ہیں کہ مصر میں جس طرح اخوان المسلمین کو ختم کیا گیا تھا اس طرح یہ تنظیمیں بھی ختم ہوجائیں تو کوئی حرج نہیں ہے تاکہ ایران کا ان علاقوں سے اثر رسوخ کسی طرح ختم ہوسکے، عرب مسلم دنیا کے امریکا سے گہرے مراسم ہیں وہ نہیں چاہتے کہ مغربی دنیا سے تعلقات کو ختم کیا جائے ان کے معاشی مفادات بھی ان سے وابستہ ہیں اس لیے عرب مسلم ممالک اس معاملے سے اپنے آپ کو تھوڑا سا دور ہی رکھنا چاہتے ہیں یہ اس حد تک آگے نہیں بڑھنا چاہتے کہ ان کے لیے کسی قسم کے مسائل پیدا ہوں ۔ سیاسی وبین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے کہا کہ اس سوال کی وجوہات تو بہت زیادہ ہیں مگر مختصر نظر ڈالی جائے تو سب سے بڑی وجہ غلامانہ ذہنیت ہے ان میں وہ ممالک شامل ہیں جو کسی قسم کا اثر رکھ سکتے ہیںان ممالک کے دلوں میں نہ فلسطینیوں کے لیے ہمدردی ہے اور نہ ہی دل میں کسی قسم کا رحم وترس ہے ، مسلم حکومتوں کااپنی سلامتی ،معیشت ،تعلیم ، سائنس ، ٹیکنالوجی ، صنعت کا انحصار مغرب کے قریبی ممالک سے ہے، مسلم حکمرانوں کے مغرب کی بڑی طاقتوں کے ساتھ مفادات وابستہ ہیں ، 6ہزار کے قریب فلسطینی بچوں کا سفاکانہ اور ظالمانہ انداز میں قتل عام کیا گیا ہے اور مزید ہورہا ہے ،اس تمام صورت حال میں وہ ممالک بالکل خاموش بیٹھے ہوئے ہیں، زبانی جمع خرچ کے سوا کسی ایک ملک نے بھی عملی طور پر کچھ نہیں کیا، اس کی بنیادی وجہ وہی غلامانہ ذہنیت اور ذاتی مفادات ہیں یہ بات درست ہے کہ طاقت کا توازن مسلمان ممالک کے ہاتھوں میں نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی کافی کچھ کیا جاسکتا تھا کم از کم چار یا پانچ قریبی ممالک سعودیہ عرب، قطر ،مصر ، بحرین اور متحدہ عرب الامارات کو چاہیے تھا کہ یہ اپنے تعلقات ختم کر دیتے ،سفیروں کو واپس بلا لیتے۔ شا ہ فیصل جیسی جسارت اور ہمت موجودہ نسل کے حکمرانوں میں نظر نہیں آرہی ، فلسطینی تو جنگ خود ہی لڑنا جانتے ہیں لیکن عملی طور پر یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ مسلم حکمران اس سارے معاملے پر جس طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے خاموش بیٹھے ہیں اور اس معاملے پر چپ سادھ لی ہے خدشہ ہے کہ سماجی طور پر مسلم ممالک میں ایک بھوچال آئے گا ، مذہبی، سیاسی جماعتیں بیان بازی اور جلوس نکال رہی ہیں اس طرح کے جلوس مغربی معاشرے میں بھی نکا لے جارہے ہیں ان کو بھی فلسطینیوں پر ترس آرہا ہے وہ بھی کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن مسلم حکمران جنگ بندی جنگ بندی کی صدائیں لگا رہے ہیں غزہ کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے دل غمزدہ ہوجاتا ہے، غزہ میں جس ظالمانہ طریقے سے بچوں کو شہید کیا جارہا ہے یہ مناظر دیکھے نہیں جا سکتے ، لاکھوں کی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے ہیں روزانہ کی بنیا دوں پر ان بے سہارا لوگوں پر بمباری کی جارہی ہے، مسلم ممالک بہت کچھ کر سکتے ہیں جن میں تین بڑی اہم چیزوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے پہلی اہم بات تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے اور بلکل کرنا چاہیے، اس حوالے سے اگر ساری دنیا کی معیشت بیٹھتی ہے تو بیٹھنے دیں، دوسری اہم بات یہ ہے کہ سفارتی تعلقات کو ختم کر دیتے اور اپنے سفیروں کو واپس بلا لیتے ،کم از کم او آئی سی ہی عالمی عدالت میں چلی جاتی کہ یہ نسل کشی ہورہی ہے جس طرح فلسطینیوں کا قتل عام ہورہا ہے اسرائیلی جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں ان کے خلاف عالمی عدالت میں قانونی کے مطابق کارروائی کی جانی چاہیے ۔