مزید خبریں

اسرائیلی وزیراعظم کے بیانات سے لگتا ہے وہ کسی فلسطینی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے

کراچی (رپورٹ: قاضی جاوید) اسرائیلی وزیر اعظم کے بیانات سے لگتا ہے وہ کسی فلسطینی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے‘ اسرائیل غزہ لڑائی کو عالمی جنگ میں تبدیل کر ناچاہتا ہے‘ امریکا، مغرب کی منافقت کے باعث غزہ جنگ بندی کے لیے اقدامات نہیں کیے جا رہے‘ مسلم حکمران صہیونی ریاست سے خوف زدہ ہیں‘ پاکستان سخت موقف اختیار کرے‘ حماس حریت پسند تنظیم ہے۔ ان خیالات کا اظہار اقوام متحدہ میں پاکستان کی سابق مندوب ملیحہ لودھی‘ ن لیگ کے رہنما، سینیٹر مشاہد حسین اور سینئر صحافی ایاز میر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’پوری دنیا بھی جنگ بندی نہیں کرا سکتی ہے، نیتن یاہو کے اس بیان کا مقصد کیا ہے؟‘‘ ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ اسرائیلی وزیر اعظم کے بیانات سے لگتا ہے کہ وہ کسی فلسطینی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے اور تمام فلسطینیوں کو ختم کر دیں گے۔ مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال انتہائی سنگین ہوچکی ہے‘ جنگ بندی کے لیے عالمی سطح پر اقدامات نظر نہیں آ رہے، سلامتی کونسل میں اجلاس پر اجلاس بے نتیجہ ختم ہوگئے‘ اسرائیل اس جنگ کو عالمی جنگ میں تبدیل کر نے کی کوشش کررہا ہے اور وہ اس میں بہت حد تک کامیاب بھی ہو رہا ہے‘ پاکستان کا اسرائیل سے متعلق مؤقف واضح ہے، پاکستان کو اسرائیل کے خلاف سخت بیان دینا چاہیے اور غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر آواز اٹھانی چاہیے۔ اسرائیل جس طرح کے جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے ان حالات میں کوئی اسلامی ملک اسرائیل کو کیسے تسلیم کرے گا؟۔ عرب دنیا اور مسلم دنیا میں اسرائیل کے خلاف عوامی رائے اس وقت بہت سخت ہے‘ سعودی عرب کی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات چیت فی الحال آگے بڑھتی نظر نہیں آ رہی‘ غزہ میں انسانی المیے کو روکنے کے لیے پاکستان کو سخت گیر بیان جاری کرنا چاہیے اور اس کا اثر بھی بہت جلد ہو گا‘ سیز فائر نہ ہوا تو پورا خطہ متاثر ہوسکتا ہے‘ اسرائیل نے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کی ہوئی ہے‘ غزہ کی ناکہ بندی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ مشاہد حسین نے کہا کہ اسرائیل7 اکتوبر سے اسی طرح کی باتیں کر رہا ہے کہ وہ اب جنگ بند نہیں کرے گا ‘ نیتن یاہو اس جنگ کو پھیلانے کی کوشش میں ہے اور اسرائیل اسی لیے ساری دنیا کی حکومتوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کو شش کر رہا ہے‘ فلسطینیوں اور انسانیت کے خلاف اسرائیلی جرائم پر مغربی ممالک منافقت سے کام لے رہے ہیں‘ یہ سب کچھ اسلاموفوبیا ہے اور مسلمانوں کو اسلامو فوبیاکا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی قانون سازی پر زور دینا ہو گاکیونکہ یہ مسلمانوں کے خلاف تفرقہ انگیز اور نسل پرستانہ تشدد پر مبنی ہے۔ مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ فلسطین میں امن کے 3 بنیادی نکات ہیں۔ پہلا یہ کہ اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خلاف فلسطینیوں کی مزاحمت کو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت جائز قرار دیا کیونکہ یہ 56 سالہ قبضے اور مقبوضہ مغربی کنارے میں 560 چوکیوں کے ساتھ بے گناہ فلسطینی بچوں، خواتین اور مَردوں کے قتل سمیت اسرائیل کے وحشیانہ طرز عمل کا ایک فطری ردعمل ہے۔صحافی ایاز میر کا کہنا تھا کہ اسرائیلی وزیراعظم7 اکتوبر سے فلسطینیوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات دے رہے ہیں‘ اسلامی ممالک کے سربراہان اپنے عوام کے جذبات کے خلاف قاتل یہودیوں سے انجانے خوف میں مبتلا ہیں‘ اسرائیل نے اگر جنگ بند کرنی ہوتی تو بہت پہلے بند کر دیتا لیکن وہ صرف فلسطینیوں کو مٹانے کی کوشش میں مصروف ہے ۔ غزہ میں جنگ روکنے میں مغربی ممالک کی نااہلی پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فلسطینی مزاحمتی تحریک (حماس) دہشت گرد نہیں ہے، بلکہ وہ ایک آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی آئینی تحریک ہے۔ اس تحریک کے لوگوں کودہشت گرد اسرائیل قتل کرر ہا ہے اور اس نے ہزاروں نہتے شہریوںکا قتل کیا ہے۔