مزید خبریں

مغربی دنیا میں اثاثے ہونے کی وجہ سے مسلم حکمراں فلسطین کی حمایت نہیں کررہے

اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد)مغربی دنیا میں اثاثے ہونے کی وجہ سے مسلم حکمراں فلسطین کی حمایت نہیں کر رہے‘ مسلم دنیا معاشی فکر میں مبتلا اور شیعہ، سنی میں تقسیم ہے‘ او آئی سی اب شاہ فیصل جیسی قیادت سے محروم ہے‘ فلسطین اور کشمیر کے تنازعات امریکا کی عدم دلچسپی کے باعث معلق ہیں‘ جنگ تو دور کی بات ہے‘ او آئی سی اسرائیلی کمپنیوں کا بائیکاٹ تک نہ کرسکا۔ ان خیالات کا اظہار تجزیہ کار جاوید الرحمن ترابی، تجزیہ کار ڈاکٹر فاروق عادل،اسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کے صدر سجاد سرور، اسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسڑیز کے سابق ایگزیکٹو ممبر عمران شبیر عباسی، اسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کے سینئر ممبر بلال احمد، اسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کے سابق نائب صدر مدثر فیاض چودھری اور تجزیہ کار مظہر طفیل نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’او آئی سی اجلاس غزہ جنگ پر ٹھوس اقدامات اٹھانے سے گریز کیوں کر رہا ہے؟‘‘ جاوید الرحمن ترابی نے کہا کہ یک قطبی سیاسی قوت امریکی قیادت میں انسان دوستی اور انصاف پسندی کے تمام دعوؤں کے باوجود بین الاقوامی معاملات میں دہرے معیارات رکھتی ہے‘ یہ ایسی بیّن حقیقت ہے جس کا مشاہدہ کھلی آنکھیں رکھنے والا ہر شخص بآسانی کرسکتا ہے‘ عالم اسلام کے ساتھ معاملات میں امریکا کا یہ رویہ اور بھی کھل کر سامنے آتا ہے‘ فلسطین اور کشمیر کے مسلمان امریکا اور اس کے حامی مغربی ملکوں کے اسی طرزعمل کی وجہ سے تقریباً 8 عشروں سے اسرائیل اور بھارت کے غاصبانہ قبضے کا شکار چلے آرہے ہیں‘ فلسطین کے 2 ریاستی حل اور کشمیر کے حوالے سے رائے شماری پر اقوام متحدہ میں عالمی تائید کے باوجود یہ معاملات امریکا کی عدم دلچسپی کے باعث معلق ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطین کے علاقے غزہ پر ایک ماہ سے زاید عرصے سے جاری وحشیانہ بمباری پر بھی کچھ نہیں ہوا جس کے نتیجے میں جانی نقصان 11 ہزار نفوس سے تجاوز کرگیا ہے، اسپتال اور اقوام متحدہ کے دفاتر تک کھنڈر بن چکے ہیں اور سنگین انسانی المیہ جنم لے رہا ہے‘ امریکی قیادت نے جنرل اسمبلی میں اقوام متحدہ کے رکن ملکوں کی بھاری اکثریت کی جانب سے فوری جنگ بندی کے مطالبے کے باوجود اسرائیلی حمایت کا رویہ اختیار کر رکھا ہے جبکہ سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کے ذریعے ناکام بنایا گیا ہے‘ اردن میں عرب ممالک کے وزرائے خارجہ کی گول میزکانفرنس میں شریک امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی حمایت کرتے ہوئے جنگ بندی کے مطالبے کو ایک بار پھر مسترد کر دیا۔ عرب رہنمائوں سے ملاقات کے موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ہم اسرائیل کے حق دفاع کی حمایت کرتے ہیں، اسرائیل کو اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے تمام اقدامات کرنے چاہئیں‘ حماس کو فلسطینیوں کے حال اور مستقبل سے کوئی دلچسپی نہیں، غزہ میں ابھی جنگ بندی سے حماس کو دوبارہ منظم ہونے اور حملے کرنے کا موقع مل جائے گا۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور عرب لیگ کے اجلاسوں اور مطالبات سے ناجائز ریاست کی صحت پر کوئی اثر پڑتا‘ اب بھی ان دونوں تنظیموں کے مشترکہ اجلاس میں حصہ لینے والے شرکا نے جو کچھ کہا ہے، ان سے کہیں بہتر ردعمل ان لاکھوں افراد کا ہے جو امریکا اور یورپ کے مختلف ممالک میں احتجاج کر رہے ہیں۔ فاروق عادل نے کہا کہ اسرائیل نے الشفا اسپتال پر فاسفورس بم گرائے‘ غزہ کے 35 میں سے 21 اسپتال مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں‘ اسرائیلی فوج نے العودہ، القدس اور انڈونیشیا اسپتال کو بھی گھیر رکھا ہے‘ مغربی ممالک کے حکمران لاشیں کھانے والے گدھوں کی طرح غزہ کی صورتحال کو دیکھ رہے ہیں‘ حال ہی میں ایک دستاویز منظر عام پر آئی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کئی یورپی ممالک نے جنگ کے بعد غزہ کی پٹی کو بین الاقوامی نگرانی میں دینے کے آپشن پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے تعاون سے اسے منظم کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی اتحاد کے قیام کی تجویز پیش کی‘ گویا مغرب بہت کچھ کہہ رہا ہے مگر مسلم دنیا معاشی فکر میں مبتلا ہے۔سجاد سرور نے کہا کہ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں او آئی سی اور عرب لیگ کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں ایران، ترکیہ، سعودی عرب، قطر اور کویت نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا جبکہ ترکی اور انڈونیشیا نے اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی عالمی عدالت میں جانے کی تجویز دی‘ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے اور کہا کہ غزہ کا محاصرہ ختم اور فوجی آپریشن بند کیا جائے۔ عمران شبیر عباسی نے کہا کہ فلسطینی عوام اسرائیل کی بدترین جارحیت کا بہادری سے سامنا کر رہے ہیں‘ اسرائیل کو اپنی فوجی طاقت پر گھمنڈ ہے کہ وہ فلسطین کو ختم کر دے گا‘ اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے، ہمارا دل ہزاروں معصوم بچوں کے قتل اور عالمی برداری کی بے حسی پر افسردہ ہے‘ امریکا سمیت عالمی برادری کو خطے میں قیام امن کے لیے کردار ادا کرنا ہو گا‘ سلامتی کونسل غزہ میں اسرائیلی مظالم رکوانے میں ناکام ہو گئی ہے‘ غیر مسلح فلسطینیوں کی حفاظت کے لیے عالمی برادری اپنا کردار ادا کرے۔بلال احمد نے کہا کہ اسرائیل ظالمانہ کارروائیوں، غزہ کے غیر انسانی و غیر قانونی محاصرے، نہتے فلسطینیوں کی شہادتوں، بڑے پیمانے پر تباہی اور نقل مکانی کا ذمہ دار ہے‘ اس کی افواج فلسطین میں بین الاقوامی و انسانی قوانین اور انسانی حقوق کے قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں کر رہی ہیں‘ اسرائیلی افواج کا مسلسل اور بلاتفریق نہتے فلسطینیوں پر طاقت کا استعمال کرکے انسانی و جنگی جرائم کی مرتکب ہو رہی ہے، عالمی برادری اس کا محاسبہ کرے ۔ مدثر فیاض چودھری نے کہا کہ عرب اور اسلامی ممالک کے سربراہان اجلاس نے اسرائیل کے حق دفاع کے دعوے کو مسترد کر تے ہوئے فوری جنگ بندی اور امدادی کارروائیوں کا مطالبہ کیا ہے۔ عرب و اسلامی مشترکہ سربراہی کانفرنس کے اعلامیے میں غزہ کے اندر جاری اسرائیلی جنگ اور بمباری کو فوری روکنے کے لیے اقدامات پر زور دیا گیا لیکن اعلامیے کی شکل میں اس کا جو نتیجہ برآمد ہوا، وہ مایوس کن تھا، مذمتی بیانات سے غاصب صہیونی ریاست کو کوئی فرق نہیں پڑتا‘ اگر مسلم ممالک کے حکمران اور کچھ نہیں بھی کرسکتے تو انہیں ایسی تمام کمپنیوں کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کرنا چاہیے تھا جو اپنے منافع سے ناجائز اسرائیلی ریاست کو حصہ دے کر نہتے اور مظلوم فلسطینیوں کے خلاف اس کے ہاتھ مضبوط کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں امریکا سمیت ان تمام ممالک کے ساتھ تعلقات محدود کرنے کی بات ہونی چاہیے تھی جو ایک مہینے سے زاید عرصے سے جاری جارحیت میں کھل کر نہ صرف غاصب صہیونی ریاست کی حمایت کر رہے ہیں بلکہ اسے اسلحہ اور گولا بارود بھی مہیا کر رہے ہیں‘ جب تک مسلم ممالک کے حکمران ایسے اقدامات کی طرف نہیں آئیں گے ‘غاصب صہیونیوں اور ان ظلم و ستم کی حمایت کرنے والے کے ہاتھ نہیں روکے جاسکیں گے۔ مظہر طفیل نے کہا کہ مسلم دنیا شیعہ سنی میں تقسیم ہے اور اب مسلم دنیا میں بھٹو‘ قذافی‘ صدام اور شاہ فیصل والی قیادت نہیں ہے‘ اس وقت وہ قیادت ہے جس کے اثاثے مغرب میں پڑے ہوئے ہیں اس لیے وہ فلسطین کے لیے کچھ کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔