مزید خبریں

جہیز اور مہر

اسلام ایک مکمل دین ہے جو انسان کی رہنمائی زندگی کے ہر موقع پر کرتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زندگی گزارنے کا طریقہ تو اللہ کے ہاں صرف اسلام ہے‘ لہٰذا اگر کوئی شخص اسلام کے علاوہ کوئی اور راستہ ڈھونڈ نکالے گا تو اللہ تعالیٰ اسے ہرگز قبول نہیں کرے گا اور ایسا فرد آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔

شادی غمی بالخصوص نکاح کے لیے بھی اسلام نے اپنا ایک طریقہ اور نظام قائم کیا ہے اور وہ یہ کہ مرد گھر بسانے اور آباد کرنے کا مکمل ذمے دار ہے۔ گھر والی کے جملہ اخراجات بھی شادی کے بعد مرد ہی ادا کرے گا‘ عورت کسی چیز کی ذمے دار نہ ہوگی۔ البتہ عورت گھر کا انتظام سنبھالنے‘ بچوں کی اچھی تربیت کرنے اور شوہر کی تمام جائز ضروریات اپنی استطاعت کے مطابق پورا کرنے کی پابند ہوگی۔

اس طرح گھر کی آبادکاری اور جملہ ضروریات کو پورا کرنے کی ذمے داری مرد پر آتی ہے۔ البتہ اگر لڑکی خود یا اس کے والدین اور سرپرست بچی کے ساتھ بطور جہیز کے کچھ سامان یا چیزیں دینا چاہیں تو ان کے دینے پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن یہ جہیز فراہم کرنا اپنے اوپر ہر حال میں لازمی کر لینا صحیح نہیں ہے۔ اگر کسی گھرانے کے مالی حالات جہیز دینے کی اجازت نہیں دیتے تو بالکل جہیز نہیں دینا چاہیے‘ بالخصوص ادھار اور قرض لے کر بچی کو بھاری بھرکم جہیز دینا نہ کوئی عقل مندی ہے اور نہ اسلام اس کی اجازت ہی دیتا ہے۔

لڑکے والوں کو بھی چاہیے کہ وہ لڑکی سے جہیز کا مطالبہ نہ کریں کیونکہ یہ سامان فراہم کرنا مرد کی اپنی ذمے داری ہے اور دوسروں سے اس کی توقع رکھنا مردانگی کے خلاف ہے۔ رشتہ خاتون سے ہونا چاہیے نہ کہ جہیز کے سامان سے۔ حضوؐر پاک کی سنت بھی یہ ہے کہ حسب استطاعت بچی کو بطور تحفہ کچھ سامان جہیز میں دیا جائے۔ استطاعت نہ ہونے کی صورت میں جہیز دینا یا اس کی توقع رکھنا سنت نبویؐ کے خلاف ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ اسلام میں مرد اور عورت دونوں کے درمیان نکاح کے وقت مہر کے طور پر کوئی بھی رقم متعین کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ رقم کسی بھی صورت میں اتنی نہیں ہونی چاہیے جس کی ادایگی ہی ناممکن ہو اور خاندان پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہو۔ حضور پاکؐ نے کم مہر کو پسند فرمایا تاکہ شادی کا کلچر عام کیا جاسکے۔ سیدہ نساء اہل الجنۃ بی بی فاطمہؓ حضوؐر کی بڑی پیاری اور چہیتی صاحبزادی تھیں۔ آپؓ کا رشتہ سیدنا علیؓ سے صرف ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی کے مہر سے طے پایا تھا جو 500 درہم کے برابر تھا یعنی تقریباً 12, 13 تولے چاندی جو آج کے مطابق تقریباً بارہ تیرہ ہزار روپے بنتے ہیں۔ مختصر یہ کہ مہر کی رقم دولہا کی مالی حیثیت کے مطابق ہونی چاہیے۔ اس کا متوازن ہونا ضروری ہے۔ نہ تو اتنا کم ہو‘ جیسے بعض علاقوں میں 50 اور49 روپے رکھا جاتا ہے جو محض خانہ پُری ہے لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ مہرکا تعین لاکھوں میں کر دیا جائے جس کی ادایگی پھر مرد کے لیے ممکن نہ رہے۔

ہمارے معاشرے کی غلط رسوم و رواج میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک طرف تو شادی کے وقت نظر لڑکی کے جہیز پر ہوتی ہے کہ ساتھ کیا کچھ آتا ہے تو دوسری طرف مہر کا تعین اتنا زیادہ کر دیا جاتا ہے کہ بعد میں اس کا مہیا کرنا ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات انتہائی ناگفتہ بہ صورت حال میں بھی عورت کو فارغ اس لیے نہیں کیا جاتا کہ مہر کس طرح ادا کیا جائے گا۔ لہٰذا عورت کو درمیان میں لٹکا دیا جاتا ہے‘ نہ اس کو فارغ کیا جاتا ہے اور نہ اس کو آباد ہی کیا جاتا ہے‘ جب کہ مطلوب یہ ہے کہ نکاح کے وقت ہی مہر ادا کر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اپنی بیبیوں کے مہر خوشدلی سے ادا کیا کرو۔ اور حضوؐر پاک کا ارشاد ہے کہ شادی کے وقت جو شرائط مہر وغیرہ کی صورت میں تم متعین کرلو اس کو پورا کرنا زیادہ ضروری ہے۔

مختصر یہ کہ جہیز اور مہر دونوں کے بارے میں میاں بیوی اور ان کے خاندان والوں کو حقیقت پسند ہونا چاہیے کیونکہ اسلام تو نام ہی اس اصول کا ہے کہ نہ خود نقصان اٹھائو اور نہ اوروں کو نقصان پہنچائو۔ نہ کسی کے ہاں سے جہیزکی امید پر جیو‘ نہ قرض لے کر جہیز دو۔ نہ زیادہ مہرکا تقاضا کرو‘ نہ اتنا زیادہ مہر دینے کا وعدہ کرو جو تمھاری برداشت اور تحمل سے زیادہ ہو۔ اسی صورت میں دونوں خاندانوں کے باہم مربوط اور خوشحال رہنے کے زیادہ امکان ہوں گے‘ شادی کا کلچر عام ہوگا‘ بدکاری اور فحاشی پروان نہیں چڑھے گی اور معاشرہ صاف ستھرے ماحول میں پوری صداقت اور حقیقت پسندی کے ساتھ روبہ ترقی ہوگا۔ دنیا میں بھی سکون نصیب ہوگا اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہمارا مقدر ہوگی۔