مزید خبریں

پاک،آئی ایم ایف مذاکرات میں بیرونی فنانسنگ کی کمی کمزور نکتہ ہے

حکومت اس بات کا اعلان بار بار کر رہی ہے کہ اس کی پالیسیوں سے ملک میں ہر طرف عوام کو مہنگائی سے نجات مل رہی ہے لیکن رواںمالی سال کے پہلے چار مہینوں جولائی تا اکتوبر2023میں تجارتی خسارہ 35 فیصد کم ہو کر 7.4 بلین ڈالر تک پہنچ گیا جس کی وجہ حکام کی جانب سے درآمدات میں اضافہ ہے جس پر کنٹرول نہ ہو سکا ۔درآمدات میں اضافے کو کنٹرول کر کے ہی تجارتی خسارے کو کم کیا جاسکتا ہے اور پاکستان کے لیے دستیاب واحد قابل عمل ٹول ہے جو کہ متوقع بیرونی مالیاتی ضروریات کے خلاف ایک اہم کمی کے درمیان ہے ،اس کمی نے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کو کم کردیٓ جوبین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام کی موجودگی کے باوجود گزشتہ ماہ تک 7.5 بلین ڈالر سے نیچے آ گیاتھا

۔ذرائع کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف مذاکرات میں 710 ملین ڈالر قرض کی قسط کے لیے پاک،آئی ایم ایف مذاکرات میں بیرونی فنانسنگ کی کم دستیابی حکومت کا سب سے کمزور نکتہ ہے۔دستیاب فنانسنگ کی کمی کے پیش نظر، حکومت کے پاس بین الاقوامی تجارت کا انتظام جاری رکھنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے، حالانکہ اکتوبر میں آئی ایم ایف کے مذاکرات سے عین قبل درآمدی صورتحال میں کچھ بہتری آئی تھی۔پہلے چار مہینوں میں پاکستان نے 17 بلین ڈالر کی اشیا درآمد کیں، جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 3.9 بلین ڈالر یا تقریباً ایک پانچواں کم ہے۔ یہ درآمدات 58.7 بلین ڈالر کے سالانہ تخمینہ کا صرف 29 فیصد ہیں۔ کم شدہ درآمدات کے ذریعے بچایا جانے والا ہر ڈالر مؤثر طریقے سے ذخائر پر دباؤ کو کم کر رہا ہے، جو کہ صرف 1.5 ماہ کے درآمدی کور کے مساوی ایک نازک سطح پر رہتے ہیں۔

عالمی بینک کی کمرشل فنانسنگ تک رسائی کے لیے ملک کو کم از کم ڈھائی ماہ کے درآمدی کور کی ضرورت ہے۔تاہم بہت حد تک خام مال کی کمی صنعتی پیداوار کو متاثر کر رہی ہے، کیونکہ پاکستان سامان کی تیاری کے لیے درآمد شدہ خام مال پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ عالمی بینک نے نوٹ کیا ہے کہ درآمد کنندگان کو اب بھی غیر ضروری زمرے کی اشیاء درآمد کرنے میں چیلنجز کا سامنا ہے۔تفصیلات کے مطابق ملکی تجارتی خسارہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران 11.356 بلین ڈالر کے مقابلے 7.416 بلین ڈالر رہا۔ ماہانہ اعداد و شمار کے مطابق جولائی تا اکتوبر 2023-24 کے دوران ملک کی برآمدات 0.66 فیصد بڑھ کر 9.617 بلین ڈالر ہوگئیں جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 9.554 بلین ڈالر تھیں جبکہ رواں مالی سال کے پہلے چار مہینوں کے دوران درآمدات 18.54 فیصد کم ہو کر 17.033 بلین ڈالر رہیں جبکہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 20.910 بلین ڈالر تھیں۔ ماہ بہ ماہ کی بنیاد پر، اکتوبر 2023 میں تجارتی خسارہ 38.27 فیصد بڑھ کر 2.099 بلین ڈالر ہو گیا جب کہ ستمبر 2023 میں 1.518 بلین ڈالر تھا۔

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات میں سالانہ بنیادوں پر مسلسل کمی کو بریک لگ گیا اور 12 ماہ بعد اس میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔رواں سال اکتوبر میں سالانہ بنیادوں پر ٹیکسٹائل برآمدات میں 5 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو ایک ارب 43 کروڑ ڈالرز رہیں۔ گزشتہ سال اکتوبر میں برآمدات کا حجم ایک ارب 36 کروڑ ڈالرز تھا۔اپٹما کے مطابق ستمبر2023 میں ٹیکسٹائل برآمدات کا حجم ایک ارب 36 کروڑ ڈالرز تھا، جنوری تا اکتوبر2023 کے 10 ماہ میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹس 16 فیصد گریں۔اعداد و شمار کے مطابق جنوری تا اکتوبر 2023 ٹیکسٹائل برآمدات 13 ارب 34 کروڑ ڈالرز رہیں جبکہ جنوری تا اکتوبر 2022 میں ٹیکسٹائل برآمدات کا حجم 15 ارب 88 کروڑ ڈالرزتھا۔ علاوہ ازیں ذرائع کے مطابق موجودہ مالی سال کے آغاز میں پاکستان کی مجموعی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات کا تخمینہ ابتدائی طور پر 26 بلین ڈالر سے زائد لگایا گیا تھا، لیکن درآمدات میں کمی اور چین کے ایکسپورٹ امپورٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ 31 چینی قرضوں کی تنظیم نو کے باعث یہ تعداد 24 ارب ڈالر سے کم ہوگئی۔ . ذرائع کے مطابق اس کے باوجوددستیاب فنانسنگ اب بھی 20 بلین ڈالر سے کم ہے۔حکومت کو یورو بانڈز کے اجراء اور غیر ملکی تجارتی قرضوں سے قرضے بڑھانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

ملک میں جاری گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ اور حکومت کی طرف سے گیس کی نئی قیمتوں کے اظافہ پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کردیا. صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا سردیوں میں پہلے ہی گیس آتی نہیں اور اب نیا ٹیرف عوام اور بزنس کمیونٹی کو مزید تنگ کرے گا۔ پہلے بجلی کے بلوں نے عوام کو دبایا ہوا تھا اور اب گیس کے نئے ٹیرف۔ عوام پہلے ہی مہنگائی کا سونامی دیکھ رہی ہے۔گیس کی قیمتیں بڑھنے سے انڈسٹری اپنی سکت مزید کھو دے گی۔ انھوں نے کہا معیشت کے مختلف شعبوں اور گھرانوں کے لیے گیس کے نرخوں میں 193 فیصد تک بڑے پیمانے پر اضافے کااعلان بیمار معیشت کے لئے ٹھیک نہیں، وہ صنعتیں جو قیمتوں میں اضافے کا سہارا لے سکتی ہیں ان میں کھاد،

سیمنٹ اور سٹیل شامل ہیں، جس سے زرعی پیداوار اور تعمیراتی سامان مزید مہنگا ہو جائے گا۔ پی بی ایف کے مطابق ستمبر 2023 تک مہنگائی کی موجودہ شرح 31.4% پر رہنے کے ساتھ، ہم توقع کرتے ہیں کہ گیس کی قیمتوں میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے، FY24 کے لیے اوسط کنزیومر پرائس انڈیکس ممکنہ طور پر سال بہ سال 24.5% تک پہنچ جائے گا۔ احمد جواد نے کہا 10 ماہ میں گیس کی قیمتوں میں یہ دوسرا اضافہ ہے انھوں مزید کہا ہماری معیشت کی بد انتظامی نے عوام اور تنخواہ دار طبقے کو مزید کچل دیا۔ یہ بات حیران کن ہے کہ دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے حمایت کے بیانات کے باوجود معاشی تباہی کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملک کی معیشت کو سنبھالنے کے ذمہ دار عملی طور پر مفلوج ہو چکے ہیں اور بچاؤ کی خاطر خواہ کوششیں کرنے سے قاصر ہیں۔ اب لگ رہا ہے کہ ڈالر کی گرواٹ بھی اب رک جائے گی کیونکہ آئی ایم ایف کی اگلی قسط قریب آرہی ہے۔ سیاسی جماعتوں سے بھی مطالبہ کیا کہ اپنا معاشی منشور عوام اور بزنس کمیونٹی کے سامنے رکھیں۔

حکومت اگر چاہتی تو موجودہ معاشی حالات میں شرح سود میں کمی کی گنجائش موجود تھی مگر مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود کو برقراررکھا گیا جو تاجر برادری کے لیے مایوس کن ہے۔ پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں کمی کے ساتھ ساتھ عالمی منڈی میں تیل سستا ہورہا ہے مگر اس دفعہ پٹرول اور ہائی ا سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں کوئی کمی نہیں کی گئی تاہم مٹی کے تیل اورلائیٹ ڈیزل کی قیمت میں معمولی کمی کی گئی ہے۔ اگر پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں کمی کردی جاتی توعوام کو کچھ ریلیف ملتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے عوام کو پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اٹھارہ روپے تک کی کمی کی توقع تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا جس سے انھیں مایوسی ہوئی ہے۔ ایک طرف عالمی منڈی میں تیل سستا ہورہا ہے تو دوسری طرف گزشتہ پندرہ دن میں ڈالر تین روپے سستا ہوا ہے مگراس کے باوجود قیمت برقرار رکھنا حیران کن ہے۔

اقتصادی سرگرمیوں اورضرورت کی اشیاء کی نقل وحمل کے لئے ڈیزل بنیادی کردارادا کرتا ہے اس لئے اسکی قیمت میں کمی سے مہنگائی میں کمی آجاتی ہے جس پرارباب اختیارغورکریں۔ ملک میں مہنگائی ا سٹیٹ بینک کے اندازوں سے زیادہ ہورہی ہے جسے روکنے کی کوشش کی جائے۔ آئی ایم ایف نے سال رواں کے دوران افراط زر 25.9 فیصد تک رہنے کا تخمینہ لگایا تھا جبکہ مرکزی بینک نے موجودہ مالی سال کے دوران مہنگائی کو بیس سے بائیس فیصد تک بتایا تھا مگر ایسا نہیں ہوا اور ستمبر میں یہ 31.4 فیصد تک جا پہنچی مگراب اسٹیٹ بینک کا خیال ہے کہ مہنگائی میں بتدریج کمی آنا شروع ہوجائے گی مگر گیس کی قیمتوں میں 192 فیصد اضافے کے بعد یہ کیسے ممکن ہوگا۔

اگست کے مہینے میں پاکستانی روپے کی قدرمیں زبردست کمی آئی تھی مگر اس کے بعد کرنسی کی ناجائز تجارت پرکریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا جس سے اسکی قدر بحال ہونا شروع ہوگئی اس کاروائی کو ہرصورت میں جاری رکھنے بلکہ اس میں مزید تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پاکستان کو اربوں ڈالر کی ادائیگیاں کرنا ہیں جس کے لئے SIFC کے تحت سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات سے بھاری سرمایہ کاری کی توقع کی جا رہی ہے جبکہ دیگر ممالک اور عالمی اداروں سے 2022 کے سیلاب کے بعد امداد اور قرضوں کے حصول کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں مگراب تک اس سلسلے میں کوئی خاص پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔آئی ایم ایف کا نومبر میں ہونے والا جائزہ کامیابی سے ہمکنار ہوجائے گا جس کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان کو 71 کروڑ ڈالر قرض کی قسط مل سکے گی بلکہ پرانے قرضوں کا رول اوور بھی ممکن ہو سکے گا۔