مزید خبریں

واقعۂ اِفک

اس غزوے (غزوہ بنی مصطلق) کا دوسرا اہم واقعہ افک کا واقعہ ہے اس واقعے کا ماحصل یہ ہے کہ رسول اللہؐ کا دستور تھا کہ سفر میں جاتے ہوئے ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی فرماتے تھے جس کا قرعہ نکل آتا اسے ہمراہ لے جاتے۔ اس غزوہ میں قرعہ سیدہ عائشہؓ کے نام نکلا اور آپؐ انہیں ساتھ لے گئے غزوے سے واپسی میں ایک جگہ پڑاؤ ڈالا گیا۔ سیدہ عائشہؓ اپنی حاجت کے لیے گئیں اور اپنی بہن کا ہار جسے عاریتاً لے گئی تھیں کھو بیٹھیں، احساس ہوتے ہی فوراً اس جگہ واپس گئیں جہاں ہار غائب ہوا تھا اسی دوران وہ لوگ آئے جو آپ کا ہودج اونٹ پر لادا کرتے تھے، انہوں نے سمجھا کہ آپ ہودج کے اندر تشریف فرماہیں۔ اس لیے اسے اونٹ پر لاد دیا اور ہودج کے ہلکے پن پر نہ چونکے۔ کیونکہ عائشہؓ ابھی نو عمر تھیں۔ بدن موٹا اور بوجھل نہ تھا نیز چونکہ کئی آدمیوں نے مل کر ہودج اٹھایا تھا اس لیے بھی ہلکے پن پر تعجب نہ ہوا۔ اگر صرف ایک آدمی یا دو آدمی اٹھاتے تو انہیں ضرور محسوس ہوجاتا۔

بہرحال سیدہ عائشہؓ ہار ڈھونڈھ کر قیام گاہ پہنچیں تو پورا لشکرجا چکا تھا، اور میدان بالکل خالی پڑا تھا نہ کوئی پکارنے والا اور نہ جواب دینے والا، وہ اس خیال سے وہیں بیٹھ گئیں کہ اگر لوگ انہیں نہ پائیں گے تو پلٹ کر واپس اسی جگہ تلاش کرنے آئیں گے۔ لیکن اللہ اپنے امر پر غالب ہے وہ بالائے عرش سے جو تدبیر چاہتا ہے کرتا ہے۔ چنانچہ سیدہ عائشہؓ کی آنکھ لگ گئی اور وہ سو گئیں پھر صفوان بن معطلؓ کی یہ آواز سن کر بیدار ہوئیں کہ ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ رسول اللہؐ کی بیوی…؟ وہ پچھلی رات کو چلا آرہا تھا۔ صبح کو اس جگہ پہنچا جہاں آپ موجود تھیں۔ انہوں نے جب سیدہ عائشہؓ کو دیکھا تو پہچان لیا، کیونکہ وہ پردے کا حکم نازل ہونے پہلے بھی انہیں دیکھ چکے تھے۔ انہوں نے اناللہ پڑھی اور اپنی سوار ی بٹھا کر سیدہ عائشہؓ کے قریب کر دی۔ سیدہ عائشہؓ اس پر سوار ہو گئیں۔ سیدنا صفوان نے انا للہ کے سوا زبان سے ایک لفظ نہ نکالا چپ چاپ سواری کی نکیل تھامی اور پیدل چلتے ہوئے لشکر میں آگئے۔ یہ ٹھیک دوپہر کا وقت تھا اور لشکر پڑاؤ ڈال چکا تھا۔ انہیں اسی کیفیت میں آتا دیکھ کر مختلف لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں تبصرہ کیا اور اللہ کے دشمن خبیث عبداللہ بن ابی کو بھڑاس نکالنے کا ایک موقع مل گیا۔ چنانچہ اس کے پہلو میں نفاق اور حسد کی جو چنگاری سلگ رہی تھی اس نے اس کے کرب پنہاں کو عیاں اور نمایاں کیا، یعنی بدکاری کی تہمت تراش کر واقعات کے تانے بانے بننا، تہمت کے خاک میں رنگ بھرنا، اور اسے پھیلانا بڑھانا ادھیڑنا اور بننا شروع کیا۔ اس کے ساتھی اسی بات کو بنیاد بنا کر اس کا تقرب حاصل کرنے لگے۔ اور جب مدینہ آئے تو ان تہمت تراشوں نے خوب جم کر پرپیگنڈہ کیا۔

ادھر رسو ل اللہؐ خاموش تھے کچھ بول نہیں رہے تھے، لیکن جب لمبے عرصے تک وحی نہ آئی تو آپؐ نے سیدہ عائشہؓ سے علیحدگی کے متعلق اپنے خاص صحابہ سے مشورہ کیا سیدنا علیؓ نے صراحت کیے بغیر اشاروں اشاروں میں مشورہ دیا کہ آپ ان سے علیحدگی اختیار کرکے کسی اور سے شادی کر لیں، لیکن سیدنا اسامہ وغیرہ نے مشورہ دیا کہ آپؐ انہیں اپنی زوجیت سے میں برقرار رکھیں، اور دشمنوں کی بات پر کان نہ دھریں۔ اس کے بعد آپؐ نے منبر پر کھڑے ہوکر عبداللہ بن ابی کی ایذا رسانیوں سے نجات دلانے کی طرف توجہ دلائی، اس پر سیدنا سعد بن معاذ اور اسید بن حضیرؓ نے اس کے قتل کی اجازت چاہی لیکن سیدنا سعد بن عبادہ پر جو عبدا للہ بن ابی کے قبیلہ خزرج کے سردار تھے قبائلی حمیت غالب آگئی، اور دونوں حضرات میں ترش کلامی ہو گئی،

جس کے نتیجے میں دونوں قبیلے بھڑک اٹھے، رسولؐ نے خاصی مشکل سے انہیں خاموش کیا، پھر خود بھی خاموش ہوگئے۔ ادھر سیدہ عائشہؓ کا حال یہ تھا کہ وہ غزوے سے واپس آتے ہی بیمار پڑگئی تھیں اور ایک مہینے تک مسلسل بیمار رہیں انہیں اس تہمت کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا، البتہ انہیں یہ بات کھٹکتی رہتی تھی کہ بیماری کی حالت میں رسولؐ کی طرف سے جو لطف و عنایت ہو ا کرتی تھی اب وہ نظر نہیں آرہی تھی۔ بیماری ختم ہوئی تو وہ ایک رات ام مسطح کے ہمراہ قضائے حاجت کے لیے میدان میں گئیں، اتفاق سے ام مسطح اپنی چادر میں پھنس کر پھسل گئیں اور اس پر انہوں نے اپنے بیٹے کو بد دعا دی۔ سیدہ عائشہؓ نے اس حرکت پر انہیں ٹوکا تو انہوں نے عائشہؓ کو یہ بتلانے کے لیے کہ میرا بیٹا بھی پروپیگنڈے کے جرم میں شریک ہے تہمت کا واقعہ کہہ سنایا۔ سیدہ عائشہؓ نے واپس آکر اس خبر کا ٹھیک ٹھیک پتا لگانے کی غرض سے رسولؐ سے والدین کے پاس جانے کی اجازت چاہی پھر اجاز ت پا کر والدین کے پاس تشریف لے گئیں اور صورت حال کا یقینی طور پر علم ہوگیا تو بے اختیار رونے لگیں۔ اور پھر دو راتیں اور ایک دن روتے روتے گذر گیا۔ اس دوران میں نہ نیند کا سرمہ لگایا نہ آنسو کی جھڑی رکی۔ وہ محسوس کرتی تھیں کہ روتے روتے کلیجہ شق ہو جائے گا۔ اسی حالت میں رسولؐ تشریف لائے کلمہ شہادت پر مشتمل خطبہ پڑھا اور اما بعد کہہ کر فرمایا: اے عائشہ مجھے تمہارے متعلق ایسی اور ایسی بات کا پتا چلا ہے، اگر تم اس سے بری ہو تو اللہ تعالی عنقریب تمہاری برأت نازل فرما دیں گے۔ اور اگر خدا نخواستہ تم سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا ہے تو تم اللہ سے مغفرت مانگو اور توبہ کر کیونکہ بندہ جب کوئی گناہ کا اقرار کرے کے اللہ کے حضور توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتے ہیں۔
اس وقت سیدہ عائشہؓ کے آنسو ایک دم تھم گئے اور اب انہیں آنسو کا ایک قطرہ بھی محسوس نہ ہو رہا تھا۔ انہوں نے اپنے والدین سے کہا کہ وہ آپؐ کو جواب دیں لیکن ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ کیا جواب دیں۔ اس کے بعد سیدہ عائشہؓ نے خود ہی کہا: ’’واللہ میں جانتی ہوں کہ یہ بات سنتے سنتے آپ لوگوں کے دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئے اور آپ لوگوں نے اسے بالکل سچ مان لیا ہے اس لیے اب اگر میں یہ کہوں کہ میں بری ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بری ہوں۔ تو آپ لوگ میری بات سچ نہیں سمجھیں گئے اور اگر میں کسی بات کا اعتراف کر لوں… حالانکہ اللہ خوب جانتا کہ میں اس سے بری ہوں… تو آپ لوگ صحیح مان لیں گے۔ ایسی صورت میں واللہ میرے لیے اور آپ لوگوں کے لیے وہی مثل ہے جسے سیدنا یوسفؑ کے والد نے کہا تھا کہ:
’’فصبر جمیل…‘‘۔
(صبر ہی بہتر ہے اور جو کچھ تم لوگ کہتے ہو اس پر اللہ کی مدد مطلوب ہے۔)

اس کے بعد سیدہ عائشہؓ دوسری طرف جا کر لیٹ گئیں اور اسی وقت رسولؐ پر وحی کا نزول شروع ہو گیا۔ جب آپؐ پر نزول وحی کی شدت و کیفیت ختم ہوئی تو آپ مسکرا رہے تھے اور آپؐ نے پہلی بات جو فرمائی تھی وہ یہ تھی کہ: اے عائشہؓ! اللہ نے تمہیں بری کر دیا۔ اس پر (خوشی سے) ان کی ماں بولیں (عائشہ) حضور کی جانب اٹھو (شکریہ ادا کرو) انہوں نے اپنے دامن کی برأت اور رسولؐ کی محبت پر اعتماد ووثوق کے سبب قدرے ناز کے انداز سے کہا: ’’واللہ میں تو ان کی طرف نہ اٹھوں گی اور صرف اللہ حمد کروں گی‘‘ اس موقع پر واقعہ افک سے متعلق جو آیات اللہ نے نازل فرمائی وہ سورہ نور کی دس آیات ہیں جو:
’’ان الذین جاؤک بالافک عصبۃ منکم‘‘ سے شروع ہوتی ہیں۔

اس کے بعد تہمت کے جرم میں مسطح بن اثاثہ، حسان بن ثابت اور حمنہ بن جحش کو 80، 80 کوڑے مارے گئے۔ (اسلامی قانون یہ ہی ہے کہ جو شخص کسی پر زنا کی تہمت لگائے اور ثبوت نہ پیش کرے اسے (یعنی اس تہمت لگانے والے کو) اَسّی (80) کوڑے مارے جائیں۔)

البتہ خبیث عبداللہ بن ابی کی پیٹھ اس سزا سے بچ گئی حالانکہ تہمت تراشوں میں وہی سر فہرست تھا اور اسی نے اس معاملے میں سب سے اہم کردار ادا کیا تھا اسے سزا نہ دینے کی وجہ یا تو یہ تھی کہ جن لوگوں پرحدود قائم کردی جاتی ہیں وہ ان کے لیے اخروی عذاب کی تخفیف اور گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں۔ اور عبد اللہ بن ابی کو اللہ نے آخرت میں عذاب عظیم دینے کا اعلان فرما دیا تھا۔ یا پھر وہی مصلحت کار فرما گی جس کی وجہ سے اس کی اسلام دشمنی کے باوجود اسے قتل نہیں کیا گیا تھا۔
(صحیح بخاری396/1 2/۔697۔698۔696 زاد المعاد۔2/113۔114۔115 اب ہشام 2/297تا 308)

حافظ ابن حجر نے امام حاکم کی ایک روایت نقل کی ہے کہ عبداللہ بن اُبی کو بھی حد لگائی گئی تھی۔ اسی طرح ایک مہینے کے بعد مدینہ کی فضا شک و شبہ اور قلق و اضطراب کے بادلوں سے پاک ہو گئی تھی۔ اور عبداللہ بن ابی اس طرح رسوا ہوا کہ دوبارہ سر نہ اٹھا سکا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ اس کے بعد جب وہ کوئی گڑ بڑ کرتا تو خود اس کی قوم کے لوگ اسے عتاب کرتے، اس کی گرفت کرتے اور اسے سخت سست کہتے۔ اس کیفیت کو دیکھ کر رسولؐ نے سیدنا عمرؓ سے کہا: اے عمر! کیا خیال ہے دیکھو، واللہ اگر تم نے اس شخص کو اس دن قتل کردیا ہوتا جس دن تم نے مجھ سے اس کے قتل کی بات کی تھی تو اس کے بہت سے ہمدرد اٹھ کھڑے ہوتے لیکن آج اگر اسی کے ہمدردوں کو اس کے قتل کا حکم دیا جائے تو وہ اسے قتل کردیں گے۔ سیدنا عمرؓ نے کہا: واللہ میری سمجھ میں خوب آ گیا ہے کہ رسولؐ کا معاملہ میرے معاملے سے زیادہ بابرکت ہے۔ (ابن ہشام 2/293)