مزید خبریں

مہنگائی سے پریشان کراچی والوں کو ناپ تول میں بھی کمی کا سامنا

کراچی (رپورٹ منیر عقیل انصاری) کمر توڑ مہنگائی کے ہاتھوں ادھ موئے کراچی کے شہریوں کوناپ تول میںبھی کمی بکا سامنا ہے۔ تفصیلات کے مطابق شہر قائد میں ناپ تول کی کمی اور غیر معیاری ترازو کے استعمال کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ مرکزی بازاروں سمیت علاقے کی دیگر چھوٹی بڑی مارکیٹوں میں اکثر دکانداروں، قصابوں، سبزی و فروٹ فروشوں اور خنچہ فروشوں کے پاس تصدیق شدہ ترازو اور باٹ موجود نہیں ہیں۔ آج کے جدید دور میں بھی دکاندار الیکٹرونک یا محکمہ اوزان و پیمائش سے منظور شدہ اوزان اور باٹ استعمال کرنے کے بجائے کم وزن کے باٹ، پتھر کے خود ساختہ باٹ اور برسوں پرانے کنڈے استعمال کر کے شہریوں کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔ ماضی میں محکمہ بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز بازاروں، مارکیٹوں اور علاقوں میں جاکر باٹ، کنڈا، ترازو، گز، میٹر و دیگر پیمانے چیک کرتی تھیں اور معمولی فیس کی وصولی پر ان کو باقاعدہ مہر لگا کر ایک سال کے لیے پاس کر دیا جاتا تھا۔ محکمہ اوزان و پیمائش کی سستی اور لاپروائی کی وجہ سے گزشتہ کئی برسسے پیمانے اور اوزان وغیرہ چیک کرنے کا سلسلہ بند ہوچکا ہے جس کی وجہ سے دکاندار غیر منظور شدہ کنڈے، باٹ اور پیمانے کا سرعام استعمال کر رہے ہیں۔ وزن اور پیمانہ کم ہونے سے صارفین اور دکانداروں میں لڑائی جھگڑے کے واقعات معمول کا حصہ بن گئے ہیں۔ محکمہ اوزان و پیمائش پھل و سبزی فروشوں اور دکانداروں کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز کر رہا ہے‘ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان شہری ان دکانداروں کے ہاتھوں لٹنے پربھی مجبور ہو گئے ہیں۔ دکاندار چند سو روپے کا نذرانہ دے کر پورا سال غیر معیاری ناپ تول کے پیمانوں کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سندھ حکومت کاادارہ بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز صرف نمائشی طور پر اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے، ادارہ کرپشن کا گڑ ھ بن کر رہے گیاہے۔ بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز کا ادارہ ہونے کے باجود شہر میں پیٹرول پمپوں پرم صارفین کومقررہ قیمت پر کم پیٹرول کی فراہمی جاری ہے۔کپڑا فیشن ایبل بازاروں میں اب بھی گز میں فروخت ہو رہا ہے، جبکہ میٹرکا نظام کا رائج ہے، اسی طرح تھوک میں دودھ کی فروخت لیٹر کے بجائے سیر میں کی جاتی ہے لیکن ڈپارٹمنٹ بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز خاموش ہے۔ اوزان و پیمائش کے پیمانوں میں ہیرا پھیری کر کے شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ ناپ تول میں گڑ بڑ کے باوجود صارفین خریداری کر رہے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے شہریوں کا کہنا ہے کہ دکانداروں نے اپنے اپنے پیمانے بنا رکھے ہیں اورمقررہ قیمت پر کم وزن کی چیزیں فروخت کرکے لوگوں کو لوٹ رہے ہیں‘ ہم بڑے عرصے سے کئی ٹھیلے والوں کو تول کے لیے اینٹیں اور پتھر استعمال کرتے دیکھ رہے ہیں، اب تو یہ عمل اتنا عام ہے کہ کوئی اعتراض بھی نہیں کرتا ہے، جب دریافت کیا کہ وہ اس غیر قانونی عمل کی شکایت کیوں نہیں کرتے تو لوگوں کا خیال ہے کہ شہریوں کو انتظامیہ پر اعتماد نہیں رہا ہے، اس وجہ سے وہ ان کے شکایتی مرکز پر شکایات درج نہیں کراتے ہیں۔ شہریوں کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے صوبے سندھ خصوصاً کراچی میں نظام حکومت اتنی خراب ہے کہ شکایت کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، ایک شہری کا کہنا تھا کی میںنے 2 سال پہلے مذکورہ محکمہ میں ایک شکایت درج کرائی تھی لیکن آج تک اس کا کوئی جواب نہیں موصول نہیں ہوا ہے۔دکانداروں کا کہنا ہے کہ متعلقہ محکمے کی جانب سے گزشتہ5 سال سے کوئی چیکنگ کی گئی ہے اور نہ ہی باٹ وغیرہ پاس کیے گئے ہیں اگر کوئی سرکاری محکمہ چیک نہ کرے تو وہ کس سے پاس کروائیں گے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ کموڈٹیز ایکٹ2005ء کے تحت بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز اپنے طور پر کارروائی کرسکتا ہے، اس مقصد کے لیے ان کے پاس انسپکٹرز مقرر ہیں لیکن عام طور پر یہ عملہ مارکیٹوں میں جاتا ہی نہیں ہے، ڈپارٹمنٹبیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز پہلے ایک خودمختار محکمہ تھا اور اب محکمہ زراعت کا حصہ ہے، اس کے افسران اوراہلکار صرف تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں، کارکردگی کچھ بھی نہیں ہے۔ دوسری جانب محکمہ بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہم نے نیپا چورنگی گلشن اقبال کراچی میں اس مقصد کے لیے شکایتی مرکز قائم کر رکھا ہے لیکن عوام وہاں شکایات درج نہیں کراتے ہیں، مذکورہ شکایتی مرکز گزشتہ 12 برس سے قائم ہے لیکن مشکل سے مہینے میں ایک یا دو شکایات موصول ہوتی ہیں ، ابھی تک جتنی بھی شکایات درج ہوئی ہیں وہ سبزی اور فروٹ کے زیادہ نرخوں پر بیچنے سے متعلق ہیں۔