مزید خبریں

خوراک ، توانائی کی بلند قیمتیں سماجی تنزل کا سبب بن سکتی ہے

پاکستان میں گزشتہ مالی سال کے دوران ایک اندازے کے مطابق غربت میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ اشیائے خورونوش اور توانائی کی ریکارڈ بْلند قیمتیں، کمزور لیبر مارکیٹس اور سیلاب سے متاثرہ نقصانات ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مراکش میں عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے حالیہ اختتام پذیر ہونے والے سالانہ اجلاسوں کے لیے تیار کردہ میکرو پوورٹی آؤٹ لک (غربت کے کلی منظرنامے) نے اس بات کی نشاندہی کی کہ نمایاں مثبت شرح نمو کے بغیر خوراک اور توانائی کی بلند قیمتیں سماجی تنزل کا سبب بن سکتی ہے، اور خاص طور پر پہلے ہی پسماندہ گھرانوں کی فلاح و بہبود کو متاثر کر سکتی ہے، جن کی پہلے ہی بچت ختم اور آمدنی کم ہو رہی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اْجرت اور روزگار کی خراب ہوتی صورتحال کے ساتھ بْلند مہنگائی نے قوت خرید کو شدید متاثر کیا ہے، جس کے سبب غربت میں اضافے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔

اس کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ مالی سال 2024 کے دوران مہنگائی کی شرح 26.5 فیصد رہنے کی توقع ہے، جو کمی کے بعد مالی سال 2025 میں 17 فیصد ہونے کا امکان ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ بْلند پیٹرولیم لیوی اور انرجی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ مقامی توانائی کی قیمتوں کے دباؤ کو برقرار رکھے گی، اور اس سے سماجی اور اقتصادی عدم تحفظ میں اضافہ ہوگا۔رواں برس آئی ایم ایف کے ساتھ 3 ارب ڈالر کے قلیل مدتی قرض معاہدے پر دستخط ہونے کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر اگلے مالی سال کے دوران ایک ماہ کی درآمدات سے بھی کم رہنے کی توقع ہے، جس کے سبب درآمدات پر مسلسل کنٹرول کی ضرورت اور اقتصادی بحالی میں مشکلات کا ہوگا۔مالی سال 2024 کے دوران حقیقی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) بڑھنے کی شرح 1.7 فیصد رہنے کی توقع ہے، اس کے ساتھ سخت مالیاتی اور زری پالیسی، مہنگائی اور آئندہ انتخابات کے حوالے سے بییقینی کے سبب اعتماد بھی کمزور ہوسکتا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ مالی سال 2024 کے دوران شرح نمو میں بحالی کے ساتھ غربت کم ہو کر 37.2 فیصد رہنے کی توقع ہے، مالی سال 2025 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بتدریج بڑھ کر جی ڈی پی کے 1.5 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ مجموعی طور پر معیشت میں سست روی، مہنگائی اور سیلاب سے متعلق تباہی نے غریب گھرانوں کو غیر متناسب طور پر متاثر کیا، جس کی وجہ سے عدم مساوات بڑھی ہے، مالی سال 2023 میں جنی انڈیکس 1.5 پوائنٹس اضافے سے 30.7 تک پہنچنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ برس سیلاب کے سبب انفرااسٹرکچر بڑے پیمانے پر تباہ ہوا، جس میں اسکول اور کلینکس بھی شامل ہیں، اسی طرح بچوں کو اسکولوں سے ہٹانے جیسی خراب معاشی حکمت عملیوں کے ساتھ ممکنہ طور پر انسانی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

ایف پی سی سی آئی کے صدارتی امیدوار عاطف اکرام شیخ نے کہا ہے کہ مہنگی بجلی اور گیس سے پیداوار اور برامدات متاثر ہو رہی ہیں بجلی سستی کرنے سے معاشی سرگرمیوں کی بحالی اور عوام کو ریلیف ملے گااور مہنگائی میں کمی آئے گی۔ معیشت کی تباہی میں توانائی کے شعبہ کا بہت بڑا کردار ہے۔ عاطف اکرام شیخ جوپی وی ایم اے کے چئیرمین اور اسلام آباد چیمبر کے صدر بھی رہے ہیں سالانہ اربوں روپے کی بجلی لائن لاسز اور بلوں کی عدم وصولی میں ضائع ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں سرکلر ڈیٹ میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے اورآئی ایم ایف کو بجلی مہنگی کروانے کا بہانہ مل جاتا ہے۔انھوں نے کہا کہ بجلی کا شعبہ ملکی معیشت کے لئے بڑا خطرہ بن چکا ہے جسے کوئی بھی حل نہیں کر سکا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق لوڈ شیڈنگ کے خاتمے سے عوام کو سالانہ ساڑھے چارارب ڈالر اورکاروباروں کو تقریباً ساڑھے آٹھ ارب ڈالر کا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ حکومت کا سب سے بڑا ہدف سستی اور پائیدار توانائی کا حصول ہونا چائیے جس کے لئے بلوں کی وصولی، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ اور بجلی کی ترسیل و تقسیم کے نقصانات کو عالمی معیار کے مطابق کرنا ضروری ہے۔انھوں نے کہا کہ بجلی کی پیداوار کے لئے درآمدی تیل اور گیس پر انحصار اس شعبے کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ جوہری اور قابل تجدید زرائع سے بھی معمولی مقدار میں بجلی حاصل کی جا رہی ہے۔ ان دونوں شعبوں میں پیداوار بڑھانا ضروری ہے تاکہ قیمتی زرمبادلہ بچایا جا سکے۔ ملک میں ونڈ پاور کا پوٹینشل کم از کم پچاس ہزار میگا واٹ ہے مگر اس وقت اس سے صرف 1335 میگاواٹ بجلی بنائی جا رہی ہے جبکہ شمسی توانائی کے زریعے صرف چھ سو میگاواٹ بجلی بنائی جا رہی ہے جوکہ پوٹینشل کا صرف 1.4فیصد ہے۔

کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) اور شہر کی ساتوں انڈسٹریل ٹاؤن ایسوسی ایشنز نے متفقہ طور پر برآمدی اور عام صنعتوں کے لیے گیس کے نرخوں میں بے پناہ اضافے کو ناقابل عمل اور ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم اور ان کی کابینہ سے پرزور اپیل کی ہے کہ وہ ای سی سی کے گیس ٹیرف میں بے پناہ اضافے کے حالیہ فیصلے کو تسلیم نہ کریں اور گیس نرخوں کو مناسب سطح پر لانے پر غور کریں جو قابل عمل اور قابل قبول ہو تاکہ کراچی کی صنعتوں کے پہیہ گھومتا رہے۔

ایک مشترکہ اعلامیے میں کراچی چیمبر، سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری، کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری، نارتھ کراچی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری، لانڈھی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری، فیڈرل بی ایریا ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری، بن قاسم ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری اور سائٹ سپر ہائی وے ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری نے گیس کے نرخوں میں ناقابل برداشت اضافے کو ’’تابوت میں آخری کیل‘‘ قرار دیا کیونکہ کراچی کی 90 فیصد سے زیادہ برآمدی صنعتیں اور عام صنعتیں یہ صدمہ برداشت نہیں کر پائیں گی اور بند ہو جائیں گی جو برآمدات اور مقامی پیداوار کو صفر پر لے آئے گا اور پہلے سے ہی بیمار معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ برآمدی صنعتوں کے لیے گیس ٹیرف 86 فیصد بڑھا کر 2050 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کر دیا گیا ہے جبکہ عام صنعتوں کے لیے اس میں 117 فیصد اضافہ کر کے 2600 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کر دیا گیا ہے لیکن یہ قصہ یہاں ختم نہیں ہوتا کیونکہ آر ایل این جی کی بلینڈڈ لاگت کے طور پر گیس ٹیرف میں مزید 10 فیصد اضافہ کیا جائے گا جس سے برآمدی صنعتوں کے لیے گیس ٹیرف تقریباً 2300 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ہو جائے گا نتیجتاً عالمی منڈیوں میں ہماری مصنوعات کو غیرمسابقتی بن جائیں گی اور پاکستان کی برآمدات بالکل نچلی سطح پر آجائیں گی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اوگرا کی جانب سے تجویز کئے گئے گیس نرخ ای سی سی کے گیس نرخوں سے کافی کم تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس بات کا قطعاً کوئی امکان نہیں کہ کراچی کی صنعتیں اتنے زیادہ گیس نرخوں کے ساتھ اپنی پیداواری سرگرمیاں جاری رکھ سکیں گی لہٰذا پالیسی سازوں کو اس سنگین صورتحال کا ادراک کرنا چاہیے اور ای سی سی کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے گریز کرنا چاہیے تاکہ صنعتوں اور معیشت کو مزید بحرانوں میں ڈوبنے اور ناقابل واپسی کے مقام تک پہنچنے سے بچایا جا سکے۔

کے سی سی آئی اور انڈسٹریل ٹاؤن ایسوسی ایشنز نے مزید کہا کہ کراچی میں ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل انڈسٹریز اور بہت سی دوسری صنعتیں گیس سے منسلک ہیں اور گیس کے علاوہ کسی دوسرے ایندھن کی بالکل گنجائش نہیں جبکہ سوئی نادرن گیس کے علاقے میں صنعتوں کے پاس بڑی جگہیں دستیاب ہیں جہاں وہ گیس کے علاوہ بڑی مقدار میں ایندھن کو آسانی سے ذخیرہ کر سکتی ہیں۔اس صورتحال میں کراچی کی صنعتیں سب سے زیادہ متاثر ہوں گی کیونکہ گیس کے نرخوں میں ناقابل برداشت اضافہ ان کی بقا کو داؤ پر لگا نے کے ساتھ ساتھ اس شہر کی تاجر برادری کی جانب سے کی جانے والی ملک کی 54فیصد برآمدات کو بھی خطرے میں ڈال دے گا۔انہوں نے کہاکہ اگرچہ قانون سازوں نے وقتاً فوقتاً اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ گیس ٹیرف لاگت کے مطابق وصول کیا جائے گا اور یہ بھی واضح رہے کہ صنعتیں بھی وہی ادا کرنا چاہتی ہیں جو درحقیقت واجب الادا ہیں یعنی صرف گیس کی قیمت لیکن یہ مکمل طور پر تاجر برادری کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ کیوں ان پر دیگر فرنٹ لوڈنگ جیسے کراس سبسڈی، غیر حساب شدہ گیس (یو ایف جی) چوری اور لائن لاسز وغیرہ کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب گھریلو اور کھاد کے شعبوں کے لیے گیس کے نرخوں میں بھی اضافہ کیا گیا ہے تو صنعتوں کو 127 فیصد کے بے تحاشہ اضافے کا نشانہ کیوں بنایا گیا؟ ایسا لگتا ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ کراچی کی صنعتیں ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں کیونکہ برآمدی صنعتوں کے لیے گیس ٹیرف میں 1150 روپے سے 2300 روپے تک اضافے کے اثرات کو پاکستانی اشیاء کے بین الاقوامی خریداروںپر منتقل کرناناممکن ہے جو ہماری مہنگی مصنوعات کو دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کریں گے اور تیزی سے ہمارے علاقائی حریفوں کی جانب بڑھیں گے جو بہت سستی قیمتوں پر اسی طرح کی مصنوعات پیش کرتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ پاکستانی برآمد کنندگان کو جلد ہی بین الاقوامی برآمدی میدان سے باہر نکال دیا جائے گا۔

انہوں نے 2600 روپے گیس ٹیرف کے خطرے سے دوچار عام صنعتوں کو درپیش مشکلات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت یہ بات بالکل بھول گئی ہے کہ ملک کی درآمدات کو کم کرنے کے لیے درآمدی متبادل صنعتیں بھی بہت ضروری ہیں۔

عام صنعتیں برآمد کنندگان کو نیم تیار شدہ مال فراہم کرتی ہیں اور ان پر پہلے ہی بجلی کی قیمت میں 82 فیصد اضافے کا بوجھ ہے اور اب گیس ٹیرف میں اضافے سے 90 فیصد غیر برآمدی صنعتیں بند ہو جائیں گی جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری اور درآمدات میں اضافہ ہو گا۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ توانائی کے نرخوں میں اضافے سے پیدا ہونے والی تشویشناک صورتحال حکومت کی جانب سے سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور صنعتکاری کو فروغ دینے کے لیے کیے گئے متعدد اقدامات کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی باالخصوص حالیہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل ( ایس آئی ایف سی( جو کہ ایک بہت اچھا اقدام ہے لیکن یہ کامیاب ثابت نہیں ہو سکتا کیونکہ دراصل مقامی صنعتیں ہی ہیں جو ایس آئی ایف سی کے تحت اپنے کاروبار کو متنوع بنانے کا انتخاب کر سکتی ہیں لیکن اگر وہ اپنے موجودہ کاروبار کو تباہ ہوتا ہوا دیکھ کر کوئی بھی کاروبار کو متنوع بنانے کے بارے میں کیوں سوچے گا ۔

ایسے حالات میں ایس آئی ایف سی کے تحت کسی دوسرے کاروبار میں داخل ہونا مکمل طور پر ناقابل عمل اور مشکل ہوگا۔انہوں نے وزیراعظم سے ملاقات کے لیے وقت دینے کی بھی اپیل کی تاکہ کراچی کی تاجر برادری گیس کے نرخوں میں اضافے کے ممکنہ اثرات سے حکومت کو آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ اصل معاملہ بھی پیش کر سکے۔