مزید خبریں

فلسطین مسئلے پر ردعمل میں فرق کی وجہ حکمرانوں کی مصلحت پسندی اور بزدلی ہے

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) مسئلہ فلسطین پر عوام اور مسلم حکمرانوں کے ردعمل میں فرق کی وجہ حکمرانوں کی مصلحت پسندی اور بزدلی ہے‘ مسلم حکومتیں بین الاقوامی مافیا کا حصہ بنی ہیں‘ خاموش رہ کر اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہیں‘ عوام بے بسی اور ہمارے حکمران بے حسی کا شکار ہیں‘ دنیا بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں‘ 57 مسلم ممالک، ڈیڑھ ارب آبادی، زبردست فوجی طاقت کے باوجود بھی مسلم امہ کو صرف دعائوں کے لیے کہا جا رہا ہے‘ مسلم حکمران عملی اقدامات نہیں کر رہے۔ ان خیالات کا اظہار جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں 34 برس سے زاید تدریسی خدمات سرانجام دینے والی سابق چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت، معروف مذہبی اسکالر، تجزیہ نگار اشفاق اللہ جان ڈاگیوال، جامعہ کراچی میں شعبہ اسلامی تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد سہیل شفیق اور پاکستان ترکی بزنس فورم کے بانی و صدر اور ماہر معاشیات محمد فاروق افضل نے جسارت کے اس سوال کے جواب میںکیا کہ ’’حماس کے اسرائیل پر حملے کے حوالے سے مسلم دنیا کے عوام اور حکمرانوں کے رد عمل میں فرق کیوں ہے؟‘‘ طلعت عائشہ وزارت نے کہا کہ صیہونیوں نے فلسطینیوں کی خاص طور پر غزہ کے لوگوں کی زندگی اجیرن کی ہوئی تھی اس لیے حماس کو اسرائیل کے خلاف کارروائی کرنی پڑی‘ کافی عرصے سے ان کے 4 سے 5 لوگ روزانہ شہید ہو رہے تھے، اس میں بچے بھی شامل ہیں اور انہوں نے فلسطینیوں کی زمینیں قبضے میں کرلی ہیں‘ وہاں پر صیہونی بستیاں قائم کر دیں‘ اس کے علاوہ انہوں نے مکمل محاصرہ کیا ہوا ہے‘ غزہ کے لوگوں کو کسی معاشی سرگرمی کی اجازت نہیں ہے‘ اس کا مقصد ہے کہ غزہ کے لوگ غزہ کو چھوڑ کر چلے جائیں تاکہ غزہ بھی ان کے قبضے میں آ جائے‘ اب اس کارروائی کے بعد دیکھا یہ گیا ہے کہ مسلم ممالک اور غیر مسلم ممالک میں حکومتوں کے اور عوام کے جذبات بہت مختلف ہیں‘ امریکا میں ایک 6 سالہ بچہ شہید کیا گیا ہے کہ یہ قتل سفید فام امریکی نے کیا ہے اور ایک نوجوان کو بھی امریکا میں نشانہ بنایا گیا ہے‘ امریکا اور یورپ میں اسلامو فوبیا بہت پھیلا ہوا ہے لیکن پھر بھی وہاں لوگ غزہ کی حمایت میں احتجاج کر رہے ہیں جبکہ ان کی حکومتیں صہیونیوں کا ساتھ دے رہی ہیں۔ دوسرا ایشو یہ ہے کہ مسلم ممالک کی حکومتوںکی ابھی اتنی ہمت تو نہیں ہوئی ہے کہ وہ اسرائیل کا ساتھ دے سکیں لیکن اس موقع پر خاموشی بھی ایک طرح سے اسرائیل کا ساتھ دینے کے مترادف ہے‘ خاموشی نہایت خطرناک ہے‘ مسلم ممالک کی حکومتوں کو فلسطینیوں کا کھل کر ساتھ دینا چاہیے‘ خالی باتیںاور ریزولیوشن پاس نہیں کرنی چاہئیں بلکہ کوئی فوجی ایکشن بھی لینا چاہیے‘ اگر فوجی ایکشن کی ہمت نہیں ہے تو کم از کم امریکا پر زور دیں کہ وہ اسرائیل کی سپورٹ ختم کرے‘ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز میں چند دن پہلے اسی موضوع پر بات چیت ہوئی ہے‘ میں نے اس میں تجویز پیش کی تھی کہ تمام مسلم ممالک جو او آئی سی کے ممبر ہیں‘ وہ سب کے سب ایک ساتھ امریکا سے ڈپلومیٹکس ریلیشنز منقطع کر دیں‘ اس سے بہت اسٹرونگ میسج جائے گا۔ تیسر ا کام یہ کرنا چاہیے کہ امریکا پر زور ڈالیں کہ وہ ہیومینٹیرین کوری ڈور کھولنے کے لیے اسرائیل کو مجبور کرے‘ امریکا اور یورپی یونین بھی یہ کام کر سکتی ہے اور کم از کم کچھ ہیومنیٹیرین ایڈ بھیجنا چاہیے‘ مسلم حکمرانوںکے کافی مسائل ہیں‘ مہنگائی نے پاکستان میں بھی لوگوں کی زندگی مشکل کی ہوئی ہے لیکن پھر بھی لوگ باہر نکل رہے ہیں اور فلسطین و حماس کو سپورٹ کر رہے ہیں‘ مسلم حکومتیں بین الاقوامی مافیا کاحصہ بنی ہوئی ہیں اس لیے اس معاملے سے لاتعلق ہیں‘ یہ ایک بہت تکلیف دہ حقیقت ہے‘ ہم نے طویل جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی لیکن ہم پھر جال میں پھنس گئے ہیں‘ اگر مسلم حکمران کچھ نہیں کریں گے تو انہیں عوام کے شدید جذبات کا سامنا کرنا پڑے گا‘ ان کو اپنے عوام کو جواب دہ ہونا پڑے گا‘ اس لیے میرا خیال ہے کہ غزہ کے لیے نہیں تو کم از کم اپنے مستقبل کو تہس نہس ہونے سے بچانے کے لیے مسلم حکمرانوں کو متحرک ہونا پڑے گا اور رہنماکرنی پڑے گی۔ اشفاق اللہ جان ڈاگیوال نے کہا کہ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں اور اسرائیلی درندوں کے مظالم پر مسلم امہ (یعنی عوام) اور مسلم حکمرانوں کے رد عمل میں فرق سمجھ میں نہیں آتا مگر اس کی بنیادی وجہ عوام کی بے بسی اور حکمرانوں کی بے حسی ہے‘ اس فرق کو واضح کرتے وقت ہمارا ہاتھ کانپتا اور دل لرزتا ہے کیونکہ نبی رحمت العالمین حضرت محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ “میری امت جسد واحد کی طرح ایک حصہ میں تکلیف ہوگی تو پورا جسم مضطرب ہوگا” پوری دنیا میں مسلمانوں کا رد عمل حدیث نبوی کے عین مطابق ہے مگر حکمرانوں کے ردعمل کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ حکمران اس امت کا حصہ ہی نہیں ہیں ورنہ ان کا ردعمل حماس سے مختلف نہ ہوتا۔ اگر ان حالات میں بھی حکمران زبانی جمع خرچ پر گزارا کریں گے تو شاید یہ اپنی حکومت کو تو بچا لیں مگر ایمان سے فارغ ہوجائیں گے۔ ان حالات میں عوام کا ہاتھ تو اسرائیل تک نہیں پہنچ سکتا مگر ان کا ہاتھ اپنے اپنے ملک کے حکمرانوں کے گریبان تک آج نہیں تو کل ضرور پہنچ جائے گا۔ یہ بے غرت حکمران اگر پوری دنیا کے خلاف لڑنے والی امارات اسلامیہ افغانستان کے مجاہدین کے کردار کو دیکھ لیں تو شاید ان کے دلوں سے اپنے آقائوں کا ڈر نکل جائے۔ ڈاکٹر محمد سہیل شفیق نے کہا کہ مسلم حکمرانوں اور عوام کی دنیا الگ الگ ہے‘ عوام مظلوم اہل فلسطین کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوتے جبکہ حکمرانوں کی مصلحت بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ ان کی مجبوری ان کے آڑے آجاتی ہے‘ وہ اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں عالمی طاقتوں کی مرضی کے خلاف آواز بلند کرنے سے ان کے اقتدار کو خطرہ لاحق نہ ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطین کے مسئلے پر مسلم ممالک کے حکمران دم سادھے ہوئے ہیں جبکہ عوام سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں‘ یہ ایک انسانی المیہ ہے۔ فلسطین میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی اور اسرائیلی جارحیت پر ہر وہ شخص جو دل رکھتا ہو، اسے ہم آواز ہونا چاہیے اور تمام مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نہ صرف صدائے احتجاج بلند کرنا چاہیے بلکہ عملی اقدامات بھی کرنے چاہئیں۔ محمد فاروق افضل نے کہا کہ مسلم حکمران کہاں ہیں؟‘ 57 مسلم ممالک، ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمانوں کی آبادی، ہماری زبردست فوجی طاقت اور ہمارے اثر و رسوخ کے باوجود مسلم امہ کو صرف دعائوں کے لیے کہا جا رہا ہے‘ عملاً کچھ نہیں کرنا۔ کوئی بھی مسلم حکمران اپنے فلسطینی بھائیوں کو ظلم سے بچانے کے لیے کھڑا نہیں ہو رہا‘ زبانی کلامی مذمت یا اظہار یکجہتی اور مطالبے سے غزہ کے مظلوموں پر ڈھائے جانے والے مظالم رک تو نہیں سکتے۔ اسرائیل کی لگاتار بمباری سے غزہ کے کئی علاقے ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ مسجدوں، اسکولوں، اسپتالوں، رہائشی اور کاروباری عمارتوں سب کو بلاتفریق نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کئی ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا ہے، جن میں بڑی تعداد میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ غزہ کا پانی اور بجلی بند کر دی گئی ہے‘ خوراک، دوائوں اور دیگر ضروری اشیا کی سپلائی بھی رک دی گئی ہے۔ اتنا بڑا انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، ظالم اپنے ظلم کی تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے دنیا بھر کے سامنے بلاتفریق غزہ میں رہنے والوں کا قتل عام کر رہا ہے اور دنیا تماشا دیکھ رہی ہے جبکہ مسلم امہ کہیں نظر نہیں آ رہی۔ امریکا ہمیشہ کی طرح ظالم اسرائیل کے پیچھے کھڑا ہے، اسلحہ بھی فراہم کر رہا ہے کیوں کہ مرنے والے مسلمان ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی مسلمان متحد نہیں ہوتے۔ یاد رکھیں جب تک مسلم ممالک میں اتحاد نہیں ہوتا، اس وقت تک ہم ایک ایک کر کے پٹتے ہی رہیں گے۔